عالم اسلام کے بحران کا سبب

دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہورہی ہیں، کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ ان کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اُس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہوکر تعمیر حیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجائے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کشمکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں، اور تعمیر و ترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
مسلمان ملکوں میں پے در پے آمریتیں قائم ہورہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظام حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً اُن لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انہوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداً کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انہی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس جلد ہی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے الٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ ان کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب ان کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار ان کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہورہے ہیں، اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں، بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیمِ انقلاب بن کر آتا ہے، اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر الٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی ابھر کر اوپر آتا ہے وہ اپنے پیشرو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علَم بردار ہوتا ہے۔
(سید ابوالااعلیٰ مودودی ،عرب ممالک کے نوجوانوں سے مکہ معظمہ کی مسجد دہلوی میں خطاب، ’’دنیائے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘۔ تفہیمات، سوم ص358-357)

مجلس اقبال
اس کی تقدیر میں مظلومی و محکومی ہے
قوم جو نہ کر سکی اپنی خودی سے انصاف

پاکستان کے آج کے قومی نقشے اور ریاستی اور حکومتی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ شعر علامہ کی جانب سے ”الہامی تبصرہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے علامہ نے یہ شعر آج لکھ کر بھیجا ہو۔ اقبالی عدالت ِ فکر کے قاضی کا کیا ہی خوب صورت فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکے، اُس کا انجام مظلومی و محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ غور کیجیے کہ انسانی اور زمینی نعمتوں سے مالامال سرزمین پاکستان کی نااہل، بدقماش اور بدعنوان قیادتوں نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کے پاسپورٹ کی عزت نہ انسان کی۔ قرضوں کا لامتناہی ناروا بوجھ، سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی تشویش ناک صورتِ حال، قومی غربت بھی بے مثل اور حکمرانوں کی بے وفائی بھی لاشریک۔ علامہ درسِ خودی فرد اور قوم دونوں کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ آج فکر ِ اقبال پر قائم ریاست کے لیے اہم ترین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ فرد اور قوم اپنی خودی کو پہچانیں۔