غیر معمولی بارشوں، موسمیاتی و ماحولیاتی تغیر و تبدل کے سبب وطن عزیز کا بڑا حصہ اس وقت سیلابی صورت حال سے دو چار ہے، ہر طرف پانی ہی پانی ہے جس نے ناقابل تصور تباہی مچائی ہے اور بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، بارشوں اور سیلابی ریلوں کا سلسلہ تاحال تھما نہیں بلکہ ابھی مزید بارشوں کی پیش گوئی محکمہ موسمیات کی جانب سے کی جا رہی ہے جس سے تباہی و بربادی میں اضافہ بعید از قیاس نہیں۔ سیلاب کی صورت حال کی شدت اور نقصانات کی وسعت کے پیش نظر یہ بات طے ہے کہ متاثرین کی بحالی کے کام سے نبرد آزما ہونا تنہا پاکستان کے بس کی بات نہیں نہ ہی دنوں اور مہینوں میں اس کام کی تکمیل کی توقع کی جا سکتی ہے، یہ ایک طویل عمل ہو گا جس میں پاکستان کو ہر طرح کی اور ہر سطح پر فراخدلانہ امداد کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں بھر پور تعاون کر بھی رہی ہے تاہم اس امداد و تعاون کے ضمن میں قومی سلامتی اور ملک کی جغرافیائی کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا پہلو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے مسلسل اور مستقل احتیاط ملکی سالمیت کا لازمی تقاضا ہے اس گزارش کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی بعض غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کو سیلاب زدہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے بظاہر اس امر میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا کہ مصیبت زدہ غریب لوگوں کی مدد کی جائے اور انہیں ان کے گھروں میں آباد کرنے میں تعاون فراہم کیا جائے تاہم یہ امر کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں ان این جی اوز کا کردار ہمیشہ سے محل نظر اور موضوع بحث رہا ہے، محب وطن حلقے ان کی سرگرمیوں کو ماضی میں بھی شک کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں کیونکہ ان کا دائرہ کار پر اسرار اور فنڈز فراہم کرنے والی غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے کے تابع دیکھا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ معاملہ اور زیادہ مشکوک اس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ اڑتیس بین الاقوامی این جی اوز، پاکستان ہیومینیٹیرین فورم کے پلیٹ فارم سے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ شور بپا کئے ہوئے ہیں کہ انہیں پاکستان میں ان کی پسند کے مخصوص علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کا کم و بیش ایک تہائی خطہ سیلاب سے متاثر ہے اور مدد، مدد پکار رہا ہے، سیلاب کے سبب ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی این جی اوز اس بڑی تباہی کے ماحول میں خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جہاں بھی موقع ملے، امداد کی فراہمی اور بحالی کے کام میں تعاوفن کرنے پر کیوں آمادہ نہیں اور مخصوص و حساس علاقے ہی میں کام کرنے پر کیوں مصر ہیں؟ یہ سوال ان حالات میں مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ماضی کے بعض تلخ حقائق بھی ہم سے محتاط طرز عمل کا تقاضا کر رہے ہوں اور یہ تجربات ہمارے سامنے ہوں کہ کچھ این جی اوز 2005ء کے زلزلہ اور 2010 ء کے سیلاب کے مصائب کے دوران امدادی سرگرمیوں کے نام پر تخریب کاری اور جاسوسی جیسی مذموم حرکتوں میں ملوث رہی ہیں اور یہ محض پاکستان کے محب وطن حلقوں اور اداروں کا الزام نہیں بلکہ امریکی جریدہ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ اپنی رپورٹ میں تصدیق کر چکا ہے کہ پینٹا گون نے 2005ء کے زلزلے کی تباہی اور 2010 کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے جو نیٹ ورک قائم کیا تھا اس سے وابستہ کچھ کنٹریکٹرز کو پاک افغان سرحدی علاقوں میں جاسوسی اور بعض حساس نوعیت کی معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ امریکہ کے اداروں اور ان کی سرپرستی میں چلنے والی این جی اوز کے مصیبت کے وقت میں امدادی سرگرمیوں کے نام پر اس گھٹیا اور شرمناک کردار کے اعتراف کے بعد ان بین الاقوامی تنظیموں کا یہ اصرار کہ انہیں بلوچستان، صوبہ خیبر اور جنوبی پنجاب کے ان حساس علاقوں تک آزادانہ رسائی دی جائے جن میں جانے کے لیے تحریری اجازت درکار ہے کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز کا جوہری پروگرام ہمارے ان ’’دوست‘‘ ممالک کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور اب تو یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ ایبٹ آباد میں ’’القائدہ‘‘ کے سربراہ ’’اسامہ بن لادن‘‘ کے خلاف جو نام نہاد اور پراسرار کارروائی امریکہ نے کی تھی، اس سے متعلق معلومات اور اسامہ کے ٹھکانے تک رسائی بھی انہیں این جی اوز ہی کے ذریعے حاصل کی گئی تھی، ایسے میں سیلاب زدہ علاقوں میں حساس مقامات تک پہلے سے مشکوک کردار کی حامل ان این جی اوز کو رسائی دینے کا رسک بھلا کیوں کر لیا جا سکتا ہے انہیں کام کی اجازت دینے کی بجائے ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ کہہ کر ایسی تنظیموں سے جان خلاصی کرا لینے ہی میں ملک و قوم کی عافیت ہے!!!
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اس کا ازالہ کرنا اور متاثرین کی بحالی تنہا حکومت کے بس کا کام نہیں تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ خود ہمارے وطن میں انسانیت کا درد رکھنے والے اہل خیر اور رضا کاروں کی کمی نہیں البتہ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ہم نے بیرونی طاقتوں کے دبائو پر اپنے ملک کی بہت سی رضا کار تنظیموں پر اس لیے پابندی لگا رکھی ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اس کے سرپرستوں کے بقول ان کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے، بہر حال الحمد للہ اس کے باوجود وطن عزیز میں جماعت اسلامی سے منسلک ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ اور ’’اخوت‘‘ جیسی مثالی کارکردگی کی حامل تنظیمیں اب بھی متحرک اور فعال ہیں، حکومت نے ان دونوں تنظیموں کے سربراہوں محمد عبدالشکور اور ڈاکٹر امجد ثاقب کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران ان سے ملوایا اور ان دونوں حضرات کی جانب سے امدادی کارروائیوں سے متعلق بریفنگ کے بعد سیکرٹری جنرل ان کی کارکردگی سے متاثر ہوے اور اسے سراہے بغیر نہ رہ سکے۔ ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ پر قوم کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف عوام دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں بلکہ پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اپنی جماعت یا حکومت پر اعتماد کرنے کی بجائے خطیر رقم کا عطیہ الخدمت کو دیا جب کہ حکومتی جماعت کی ایک سینیٹر اور کئی دوسرے حکومتی عہدیداروں تک نے اپنے عطیات کے لیے ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ پر اعتماد کر کے اس کی کارکردگی امانت اور دیانت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، اس لیے ہم ایک بار پھر ارباب اقتدار سے گزارش کریں گے کہ بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا مشکوک این جی اوز کو ملکی معاملات میں دخیل کرنے کی بجائے اپنے ملک کی پہلے سے آزمودہ تنظیموں اور اداروں ہی پر اعتماد کیا جائے اور غیر ملکی آلہ کار تنظیموں کو حساس علاقوں تک رسائی دینے سے متعلق ہر قسم کا دبائو مسترد کر دیا جائے۔
(حامد ریاض ڈوگر)