اچھی اُردو کیسے سیکھی؟

لوعزیزو!آج ایک حوصلہ افزا خبر سنو۔ نئے صحافیوں میں بھی ’اُردو صحافت‘ سے دلچسپی کی سلسلہ جنبانی ہوچلی ہے۔ پچھلے پرلے روز ایک جامعہ کے شعبۂ ابلاغیات سے ایک طالبہ نے رابطہ کیا: ’’سر! اُردو میں ’انٹرویو‘ کو کیا کہتے ہیں؟‘‘ عرض کیا: ’’مُصاحَبہ‘ کہتے ہیں‘‘۔
اُردو متبادل معلوم کرلیا تو ہُشیار بی بی نے عرضِ مدعا کیا: ’’سر! اپنے ’عملی امتحان‘ کے لیے ہم آپ کا مصاحبہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’بی بی! یہ توخود ہمارا بھی عملی امتحان ہوگا۔ اگر آپ یہ کہتیں کہ ’ہم آپ کا مواخذہ کرنا چاہتے ہیں، توخوب ہوتا۔ یوں کہیے کہ ’ہم آپ سے مُصاحَبہ کرنا چاہتے ہیں‘۔ لفظ پوچھا ہے تومعنی بھی سمجھ لیجے۔ ’صاحب‘ کہتے ہیں ساتھی یا دوست کو۔ جی، جی! آقا یا مالک کو بھی ’صاحب‘ کہا جاتا ہے۔ صاحب کی ایک جمع ’اصحاب‘ ہے۔ دوسری ابھی بتاتے ہیں۔ ساتھ رہنے اور ساتھ اُٹھنے بیٹھنے یا لیٹنے کی حالت ’صحبت‘ کہلاتی ہے۔ ساتھی کو ’مصاحب‘ بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھی اور دوست ’صحابی‘ ہیں۔ جمع ’صحابہ‘۔ ساتھ رہنا یا ساتھ بیٹھ کر تبادلۂ خیال کرنا ’مُصاحَبت‘ کرنا ہے۔ ’مصاحبہ‘ اور مصاحبت ملتی جلتی چیز سمجھیے‘‘۔
دیے ہوئے وقت پر دو طالبات آلاتِ عکاسی سے لدی پھندی آ پہنچیں۔ بہت سوالات کیے۔ جوابات عکس بند کرلیے، لکھے نہیں۔ معلوم ہوا کہ ’ان کو فقط صحافتِ برقی سے کام ہے‘۔ یہ بھی اچھا ہوا۔ مطبوعہ صحافت ہوتی تو ڈر ہی رہتا کہ ’دیکھیے ہم کیا کہیں، وہ کیا لکھیں؟‘ طالبات نے دو سوالات ایسے کیے جن سے شاید ان کالموں کے قارئین کو بھی دلچسپی ہو۔ تو اے صاحبو! یہ مصاحبہ یوں شروع ہوا:
’’صحافیوں کو اچھی اُردو سیکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
جواب دیا: ’’سوال تو آسان ہے، مگر جواب مشکل۔ اگلا سوال کیجیے‘‘۔
اگلاسوال یوں تھا: ’’آپ نے اچھی اُردو کیسے سیکھی؟‘‘
سوال مشکل تھا، سوبغلیں جھانک کر عمر رفتہ کو آواز دی۔ بولی حاضر جناب! لمحے بھر میں جواب آسان ہوگیا۔ اسی پر کالم تمام ہوگا۔ کہا:
’’آپ کے دوسرے سوال کا جواب پہلے دیے دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس طرح پہلے سوال کاجواب بھی خود بخود مل جائے‘‘۔
دونوں بچیوں کو جو داستان سنائی وہ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کی داستان تھی۔ ساتویں دہائی کاآغاز 1961ء سے ہوا تھا۔ 1965ء میں یہ طالب علم کراچی میں تھا۔ پانچویں جماعت پاس کرلی تھی۔ تختی لکھنے سے نجات مل چکی تھی۔ چھٹی جماعت میں داخلے کا امتحان ہوا۔ جس سرکاری مدرسے میں داخلہ ملا اُس کی نئی عمارت کی پیشانی پر دلکش حروف میں درج تھا ’’سرکاری مدرسۂ ثانویہ برائے طلبہ، سعود آباد‘‘۔ آپ تو شاید سن کر سکون کا سانس لیں، مگر اس عاجز کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، جب ایک دن دیکھا کہ اُس عمارت کے ماتھے پر ’’گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، سعود آباد‘‘ تحریر کردیا گیا ہے۔ داخلہ جماعت ’ششم‘ میں ہوا تھا۔ ہفتم پاس کرکے لڑکا ہشتم میں پہنچا توپتا چلاکہ اس جماعت کا امتحان ’نظامتِ تعلیمات‘ سے ہوگا۔ سو ہوا۔ امتحانی مرکز ’جامعہ ملّیہ ملیر‘ تھا۔ نتیجہ اخبارات میں شائع ہوا۔ تین طلبہ اوّل آئے۔ تیسرے کو سرکار سے ’اوّل بدرجہ سوم‘ کی سند ملی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ تیسری ’پوزیشن‘ حاصل کی۔ نویں میں ’سائنس‘ میں داخلہ مل گیا۔ اب تک تو اسلامیات، اردو، انگریزی، فارسی، معاشرتی علوم، تاریخ، جغرافیہ اورریاضی کے مضامین پڑھتے تھے۔ نویں اور دسویں جماعت میں کیمیا، طبیعیات اور حیاتیات کے اضافی مضامین بھی پڑھنے ہوں گے۔ حیاتیات کے دو حصے تھے، حیوانیات اور نباتیات۔یہ مضامین اُردو میں پڑھنے کی وجہ سے ذہن نشین ہی نہیں، دل نشین بھی ہوگئے۔ انگریزی بھی اُردو ہی میں پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزی نظم و نثر، اصول و قواعد سب اُردو میں سمجھائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ’اُردو مدارس‘ کے اکثر طالب علموں کی انگریزی موجودہ ’انگلش میڈیم‘ طلبہ و طالبات سے کہیں بہتر ہے۔ انگریزی کے اہم شعرا کی کئی نظمیں ترجمے سمیت زبانی یاد ہوگئیں۔ کچھ اداروں نے اِس ’اُردو میڈیم‘ سے انگریزی کتب کے تراجم کروائے۔ خطیر معاوضہ دیا۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ ریاضی میں داخلہ لیا تو ذیلی مضامین کے طور پر طبیعیات اور شماریات کا انتخاب کیا۔ بنیادی تعلیم اُردو میں ہونے کی وجہ سے اِن سائنسی علوم کی بنیادیں بھی مضبوط تھیں۔ لہٰذا اِن مضامین کی انگریزی کتب بہ آسانی سمجھ میں آجا تیں۔ PIA میں ملازمت کی ضرورتوں نے اُکسایا تو جامعہ کراچی کے شعبۂ معاشیات میں داخلہ لے لیا۔ اُردو میں پڑھا، انگریزی میں امتحان دیا۔ سند لے لی تو ادنیٰ منصب سے اُٹھ کر پی آئی اے کے ’شعبۂ بازار کاری‘ میں اعلیٰ مناصب تک جا پہنچے۔ 2016ء میں ’اسسٹنٹ منیجر مارکیٹنگ‘ (پی آئی اے کارگو، اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ) کے منصب سے سبک دوش ہوئے۔ کاش ہمارے قومی فضائی ادارے میں ہماری قومی زبان بھی رائج ہوتی تو یہ عہدہ ’معاون منتظم بازار کاری‘ کہلاتا۔
ہمارے تعلیمی ادارے کی تمام تختیاں اُردو میں تھیں۔ ’تختۂ اطلاعات‘ مدرسے کے وسط میں نصب تھا۔ جن جماعتوں کے طلبہ کی تعداد زیادہ تھی اُن کے دو، دو ’فریق‘ بنادیے گئے تھے۔ مثلاً ’درجہ ششم فریق الف‘ جو ’ششم الف‘ کہلاتا تھا۔ نویں اور دسویں جماعتوں کے بھی دو دو کمرے تھے۔ ’نہم الف، نہم ب‘ اور ’دہم الف، دہم ب‘۔ ان دونوں جماعتوں کے فریق الف میں سائنس کے طلبہ تھے اور فریق ’ب‘ میں آرٹس کے۔ ’کمرۂ اساتذہ‘ میں اساتذۂ کرام فارغ وقت میں چائے پیتے، بحث و مباحثہ کرتے یا امتحانی جوابات کے پرچے جانچا کرتے۔ ’صدر مدرس‘ کا کمرہ اس سے متصل ہی تھا۔ ہمارے پہلے صدر مدرس جناب سالم بن عامر عرب تھے۔گورے چٹے، دبلے پتلے اور طویل القامت۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی پر جناح کیپ زیبِ سر کیے رہتے تھے۔ لڑکوں نے انھیں ’قائدِاعظم‘ کا اعزازی خطاب دے رکھا تھا۔ دن کا آغاز صبح سویرے ’دُعا‘ اور ورزش سے ہوتا۔ ’دُعا‘ میں تمام جماعتوں کے طلبہ فوجی تنظیم میں آکر کھڑے ہوجاتے۔ اساتذہ سلامی کے چبوترے پر ہوتے۔ ’دُعا‘ میں تلاوت،’لب پہ آتی ہے دُعا‘ اور صدر مدرس کی طرف سے ایک مختصرخطاب ہوتا۔آخر میں باجماعت قومی ترانہ پڑھا جاتا۔ پھر سب ورزش کے لیے کھیل کے میدان میں چلے جاتے۔ ہر تعلیمی سال کے آغازپر ’نظام الاوقات‘ دیا جاتا۔ ہر جماعت کا ’پہلا گھنٹہ‘ اسلامیات کا ہوتا۔ ہر ’گھنٹہ‘ پینتالیس منٹ کا تھا۔ چار گھنٹے گزر جانے پر ’تفریح‘ کے لیے تیس منٹ کا وقفہ ہوتا۔ چپراسی شیر محمد پیتل کے بڑے سے گول گھنٹے پر موگری برساتا چلا جاتا۔ یہ برسات ’دُعا‘ سے پہلے، تفریح کے آغاز و اختتام پر اور چھٹی کے وقت ہوتی۔ جب کہپہلے گھنٹے کے آغازپر وہ ایک چوٹ مارتا، دوسرے گھنٹے کے آغاز پر دو اور تیسرے گھنٹے کے آغاز پر تین۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ کی ٹیمیں تھیں۔ بزمِ ادب اور بزمِ مقررین تھی۔ بزمِ ادب کے تحت ادبی نشستیں ہوتیں۔ ان نشستوں میں پڑھے گئے مضامین اور کہانیوں وغیرہ پر مشتمل دیواری مجلہ نکالاجاتا۔ ادارت طلبہ ہی کرتے، مگر نظم و نثرکی مختلف اصناف میں اُردو کے اُستاد رہنمائی اور تربیت فرمایا کرتے تھے۔ اسی تربیت کے نتیجے میں ہم چند لڑکوں نے ایک قلمی رسالہ بھی نکال ڈالا۔ اُس قلمی رسالے کی مجلسِ ادارت کے ایک ساتھی آج کل ایک بڑے قومی جریدے کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ دوسرے ساتھی اُسی میں کالم لکھتے ہیں۔

تو صاحب! اس طرح ہم نے سیکھی اچھی اُردو۔ اب آجائیے پہلے سوال پر۔ نئے صحافیوں ہی کے لیے نہیں، ہر شعبۂ حیات کے طلبہ و طالبات کے لیے ضروری ہے کہ ان کی بنیادی تعلیم قومی زبان میں ہو۔ پھر جس پیشے کے لیے جو زبان سیکھنا ضروری ہو وہ ضرور سکھائی جائے۔ ابتدائی اور ثانوی جماعتوں کی تعلیم اپنی زبان میں دی جائے تو بچوں کو خوش گوار تعلیمی ماحول ملتا ہے۔کاش ہماری تعلیمی حکمتِ عملی بنانے والوں کو نئی نسل کی تعلیم سے دلچسپی بھی ہوتی اور اُن میں حکمت و دانائی بھی پائی جاتی۔ پھر ہم اپنی ہر چیز اپنے ڈھب پر ڈھال لیتے اور اقوامِ عالم کے سامنے تنومند، توانا اور طاقتور تعلیم یافتہ قوم بن کر کھڑے ہوجا تے۔