ملک نوازاحمد اعوان، ایک کتاب دوست اور صاحب ِخیر انسان کی جدائی

ابھی تھوڑی دیر قبل ملک نواز احمد اعوان کی رحلت کی خبر نے دل کو مغموم کردیاہے۔ آپ نے 80 سال اس دارِفانی میں گزارے۔ ظاہری طور پر وہ ایئرکنڈیشنر اور ریفریجریٹر درست کرنے کے کاروبار سے وابستہ انسان تھے، لیکن درحقیقت ان کی رحلت سے برصغیر ایک عظیم علم دوست اور کتابوں سے محبت کرنے والی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ ہمیں آپ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا، لیکن چند سال قبل فرائیڈے اسپیشل کے چیف ایڈیٹر یحییٰ بن زکریا صدیقی صاحب کی خواہش پر آپ نے تبصرئہ کتب کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں اطہر ہاشمی مرحوم کے ہفتہ وار کالم ”خبر لیجے زباں بگڑی“ اور آپ کے تبصرئہ کتب کے کالم دو ایسی چیزیں تھی، جن کے لیے ہر جمعرات کی رات بارہ بجے کا انتظار کرنا، اور فرائیڈے اسپیشل آن لائن ہونے کے بعد اس کے یہ دو کالم پڑھ کر بستر پر جانا ایک معمول بن گیا۔ چند سال قبل ہاشمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، اور اب ملک نواز احمد اعوان صاحب کی رحلت کی خبر نے دل کو اداس کردیا ہے۔ یہ دنیا کا رواج ہے، ہر ایک کو مقررہ مدت گزار کر یہاں سے جانا ہے، کامیاب وہ ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارے۔

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو برصغیر میں ”صدقِ جدید“ لکھنؤ میں مولاناعبدالماجد دریابادی،اور ”فاران“ کراچی میں مولانا ماہرالقادری کے تبصروں کی دھوم تھی، ویسے ”برہان“ دہلی میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی، اور ”تجلی“ دیوبند میں مولانا عامر عثمانی کے تبصرے بھی ان سے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن 1990ء کے آتے آتے کتابوں کو پڑھ کر بے لاگ تبصرے کرنے والے اہلِ قلم کا قافلہ آہستہ آہستہ سمٹتا چلا گیا، اور پھر چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی اس کی تلچھٹ کا ملنا دشوار ہوگیا۔ ممکن ہے مسافتوں کی دوری، اور پڑوسیوں کے درمیان کھنچی ریکھا نے بہت سے قابلِ قدر تبصروں تک رسائی سے محروم کردیا ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں ”نقطہ نظر“ اسلام آباد میں ڈاکٹر سفیر اختر نے، اور ”ترجمان القرآن“ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے، اور ”فرائیڈے اسپیشل“ میں ملک نواز احمد اعوان نے تبصروں کا ایک اعلیٰ معیار باقی رکھا، اور چونکہ آخر الذکر دونوں پرچے آن لائن ہیں، تو ان تک رسائی بھی آسان ہوگئی۔

ملک نواز احمد اعوان مرحوم نے ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشنر کی رپیرنگ کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا، اس کے باوجود آپ نے علم کی محبت میں اتنا کچھ حاصل کرلیا تھا، جو دسیوں سال دارالعلوموں اور جامعات میں عمریں گزارنے والے حاصل نہیں کرپاتے، یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق تھی کہ وہ کتابوں کے دلدادہ ہوگئے، ان کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔ ایک عرصے بعد اس ناچیز نے آپ سے فون پر رابطہ قائم کیا، تو نام سنتے ہی ایسے خوش ہوئے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ اندلس پر صلیبی یلغار اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ پر ہمارے ”معارف“ اعظم گڑھ میں کئی سال پرانے دو تین مضامین کو یاد کرکے بہت اصرار سے کہا کہ اس سلسلے کو جلد مکمل کریں، حالانکہ معارف ہمارے اپنے وطن میں چھپنے کے باوجود اکثر اہلِ علم کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے، اور جب طلبہ سے ماہنامہ ”معارف“ اعظم گڑھ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ ”معارف القرآن“ کا بتا دیتے ہیں، چہ جائے کہ سرحد پار کے ایک غیر معروف قلم کار کی تحریریں حافظے میں محفوظ رہ جائیں۔

چند روز بعد فون کیا تو معلوم ہوا کہ کراچی سے لاہور منتقل ہورہے ہیں۔ اُس وقت بڑے اصرار سے کہا کہ ان کے پاس ایک قیمتی کتب خانہ ہے، جس میں بڑی نادر ونایاب کتابیں موجود ہیں، ان میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کے مجلہ ”الایام“ کراچی کے مکمل شمارے بھی ہیں، یہ تمام چیزیں کراچی کے کسی دوست کے ذریعے اپنے وطن، کتب خانے کے لیے اٹھا کر لے جانے کا انتظام کریں۔ لیکن اُس وقت کوئی ایسا رفیق نہ مل سکا جو اس انمول ذخیرے کی منتقلی میں مدد کرتا، اور ہم افسوس سے ہاتھ مَل کر رہ گئے۔ ایک طرف داد و دہش کی بارش ہورہی تھی، اور دوسری طرف اسے لینے میں اتنی ہی کوتاہی اور کاہلی کا برتاؤ۔ اس سے مرحوم کی وسعتِ قلبی اور دستِ تعاون بڑھانے کی زریں صفت کا اندازہ ہوتا ہے۔

رحلت کی خبر سن کر اپنے دوست اور مایہ ناز محقق اور مصنف راشد شیخ صاحب سے ہم نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ 1968ء میں لاہور سے کراچی رپیرنگ کے کاروبار کے لیے منتقل ہوئے تھے، آپ کی پیدائش لاہور ہی کے محلہ محمدی پور میں ہوئی تھی۔ کراچی کے طارق روڈ پر آپ کی دو دکانیں تھیں، جہاں علم دوست اور ضرورت مند سبھی آکر اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ انہیں خطاطی کا بڑا شوق تھا، مشہور عالم خطاط محمد یوسف سدیدی جب آتے تو آپ ہی کی دکان پر ٹھیرتے، اور خطاطی سیکھنے کے شوقیں وہیں پر آپ سے فیض پاتے تھے۔

وہ اچھی اور منتخب کتابوں کے دس دس بیس بیس سیٹ خریدکر انہیں تشنگانِ علم میں بانٹتے تھے، کسی مہنگی کتاب کی کسی کو ضرورت ہوتی تو وہ اہلِ ضرورت کو خرید کر دیتے۔ فرائیڈے اسپیشل میں تبصروں کے لیے آئی ہوئی کتابوں کو بھی وہ اسی طرح شیرینی کی طرح لٹاتے تھے۔

مجلس ترقی ادب لاہور جیسے سرکاری ادارے جو بڑی قیمتی علمی و ادبی کتابیں چھاپا کرتے ہیں، ان کا تعارف عموماً بڑے علمی حلقوں میں نہیں ہوا کرتا تھا، اور ان کے کارکنان کی بھی دلچسپی ان کتابوں کی فروخت میں نہیں ہوا کرتی، کیونکہ سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے اس کی آمدنی پر تنخواہوں کا مدار نہیں ہوا کرتا، تو آپ کے تبصروں نے اس ادارے کی بِکری بہت بڑھا دی تھی۔ راشد شیخ کا مشاہدہ ہے کہ انہوں نے 35۔36 سالوں میں آپ جیسا فیض رساں شخص نہیں دیکھا۔ علمی فیض رسانی، دین سے تعلق، اور وسیع القلبی آپ کے اہم اوصاف تھے۔ راشد شیخ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گداگر جو پاؤں سے معذور تھا، اپنی بہن کی شادی کی ضرورت کو لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے نہ صرف اُس کی مدد کی بلکہ اپنے دوست احباب سے بھی خاصی رقم اسے دلوائی۔ ایسے واقعات سے آپ کی زندگی بھری ہوئی تھی۔

آپ کی علمی تلاش و جستجو کا یہ عالم تھا کہ جب ”صحیفہ“ لاہور کے مکاتیب نمبر (3) میں مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے غیر مطبوعہ مکاتیب شائع ہوئے تو آپ نے مکتوب الیہم میں سے ایک ایک فرد کی معلومات تلاش کیں، اور راشد شیخ کو آمادہ کیا کہ یہ اور دوسرے افراد سے ان غیر مطبوعہ مکاتیب کو حاصل کرکے ایک بڑا مجموعہ مرتب کریں اور ادارہ معارف اسلامی سے اس کی اشاعت کا منصوبہ بنوایا، اور اس کے لیے آپ نے مالی امداد بھی پیش کی، یہ منصوبہ ہنوز زیر تکمیل ہے۔

اسلامی تعلیم وتربیت کے موضوع پر سید محمد سلیم ایک جانا مانا نام تھا، آپ تنظیم اساتذہ پاکستان کے بانیان میں تھے، اور اس کے موقر مجلہ ”تنظیم“ کے مدیر بھی۔ انہیں علمی مواد اور کتابیں فراہم کرنے میں ملک نواز احمد اعوان صاحب کا بڑا ہاتھ تھا، آپ تحقیق وتصنیف کے میدانوں میں کام کرنے والوں کو مشورہ دیتے تھے کہ اس موضوع پر فلاں کتاب آپ کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔
ملک نواز احمد اعوان مرحوم نے ایک مکمل زندگی گزاری، فطری عمر میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ آپ کی یاد مدتوں علم دوست افراد اور کتابوں سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں روشن رہے گی، اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔