”جہاد کہانی“

مصنف : محمد فاروق

قیام پاکستان سے قبل ادب و صحافت کے میدان میں اشتراکی ادیبوں کا سکہ چلتا تھا، سوشلزم کے سقوط کے بعد ان کا قبلہ بھی بدل گیا، لبرلزم اور سیکولرزم کے نام پر یہ سرمایہ داری کے طرف دار بن بیٹھے۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی صورتِ حال تبدیل نہ ہوسکی اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ ادب وصحافت کے میدان میں بھی ان کی چھاپ برقرار رہی۔ سید مودودیؒ جانتے تھے کہ علم و ادب معاشرے میں پیش قدمی کرتے ہیں اور رائے عامہ ان کے پیچھے چلتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر سید صاحب نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے بالمقابل ایک تیسرے اور نمایاں رجحان ”تعمیری ادب“ کی بنیاد رکھی اور ادب کو ایک نئی سمت اور رفتار عطا کی، اور اس کے فروغ اور نشوونما کے لیے ایک منظم تحریک بپا کی۔ اس ضمن میں سید صاحب نے پہلا کام تو یہ کیا کہ دنیا بھر کی زبانوں میں اپنی اردو تصانیف کے تراجم کا اہتمام کیا، اور اس طرح اسلام کے ایک ”برتر اور کامل نظامِ زندگی“ کے تصور کو عالمی ادب کا حصہ بنایا۔ دوسری جانب اہلِ قلم کا ایک قافلہ تیار کرکے اسلامی ادب کی تحریک کی بنیاد ڈالی، جو اردو ادب کی اہم اور توانا آواز بنی۔ اردو ادب کے نامور اور باصلاحیت ادیب، شعرا اور صحافیوں پر مشتمل اس قافلے کے چنیدہ ناموں میں برصغیر کے نامور لسان ادیب و شاعر ماہر القادری، فروغ احمد، آسی ضیائی، چودھری غلام جیلانی، نسیم حجازی، نعیم صدیقی، لالۂ صحرائی، م۔نسیم، نظر زیدی… صحافت کی دنیا میں نصراللہ خان عزیز، عبدالکریم عابد، ارشاد احمد حقانی، عبدالقادر حسن، محمود مدنی، قریشی برادران، اوریا جان مقبول اور شاہ نواز فاروقی ہیں… یہ سب اسی چشمہ صافی کے فیض یافتگان ہیں۔

حضرت غلام علی شاہ صاحب سرسید احمد خان کے والد کے پیر و مرشد تھے۔ سرسید احمد کی رسم بسم اللہ کے موقع پر شاہ صاحب ہی نے سرسید کو بسم اللہ پڑھا کر چند آیات کی تلاوت کروانے کے بعد ان کے حق میں دعا کی۔ سرسید احمد اپنی تمام تر تعلیمی ترقی کو شاہ صاحب کے فیضانِ نظر کا ثمرہ قرار دیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا:

بہ مکتب رفتم و آموختم اسرارِ یزدانی
زفیض نقشبند وقت جانِ جانان جانانی

”میں مکتب گیا اور معرفت ِالٰہی کا سبق بھی پڑھا۔ لیکن اصلاً میری تمام تر ترقی نقشبندی بزرگ (غلام علی شاہؒ ) کے فیضان کا نتیجہ ہے۔“

سید مودودیؒ نے ایک صدی کے انسانوں کو متاثر کیا۔ سید صاحب کے فیض کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے لٹریچر کی خواندگی نے ایک عالم کو بولنا اور لکھنا سکھا دیا، ان کے اندر فکر بیدار کی، اور اس فکر کے بیان کا سلیقہ بھی اجاگر کیا۔ اسی فیضان کا ایک نمونہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ جناب محمد فاروق خان صاحب جنہوں نے خالص پشتو قبائلی ماحول میں پرورش پائی اور سارے مکتبی دور میں صرف سائنسی علوم پڑھے، ارضیاتی سائنس میں پاکستان اور برطانیہ کی جامعات سے اعلیٰ ترین اسناد حاصل کیں۔ اردو زبان و ادب ان کے مضامین میں کبھی شامل نہیں رہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اردو کی دنیا سے دور برطانیہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ صرف سید مودودیؒ کے لٹریچر کی خواندگی کا فیضان ہے کہ وہاں بیٹھ کر بھی ہمہ وقت دل و جان سے اردو کی خدمت میں مصروف ہیں۔ محمد فاروق خان کی پانچ کتب سے ہم واقف ہیں۔ ان کی کتاب ”میری والدہ“ اردو ادب کے سوانحی ذخیرے میں ایک منفرد اور جداگانہ نوعیت کا اضافہ ہے۔ یہ باغیانہ پیچ پر بینی خیر وشر کے محاکمہ کی تفصیل ہے۔ بلا مبالغہ اپنے موضوع پر یہ ایک بہترین تحریر ہے۔

اس کتاب کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قاری کو اُس وقت تک اپنے حصار سے نہیں نکلنے دیتی جب تک اس کی خواندگی مکمل نہ ہوجائے۔ دوسری کتاب ”غمزۂ خوں ریز“ ہے، جس میں تصوف، سیاست، تاریخ تحریکِ اسلامی اور اقامتِ دین پر مشتمل مباحث کو اس عمدگی اور حسنِ ترتیب سے سمویا گیا ہے کہ قاری کو تسلسل اور ربط کی کمی کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی تیسری کتاب ”جہاد کہانی“ ہے۔ معروف ادیب اور نقاد ڈاکٹر معین الدین عقیل کا کہنا ہے کہ ”عصری مسائل، حالات، تقاضے اور امکانات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، پھر ہماری تاریخ میں، اردو ادب کی تاریخ میں کوئی تحریک بھی چند دہائیوں سے زیادہ توانا نہ رہ سکی، اسلامی ادب کی تحریک بھی دو تین دہائیوں تک اپنی جولانیاں، اپنا رنگ و آہنگ اور اپنا زور و اثر دکھا کر تاریخ کا حصہ بن چکی“۔ لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ اسلامی ادب آج بھی ادب کی دنیا کا ایک مضبوط آہنگ ہے۔ البتہ مرورِ زمانہ سے اس کی رفتار ضرور متاثر ہوئی ہے۔ ”جہاد کہانی“ اسلامی ادب کے اسی رنگ و آہنگ کا تسلسل ہے۔ محمد فاروق صاحب جن کی تیسری کتاب ”جہاد کہانی“ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے، جہادِ افغانستان کے مفصل تذکرے اور تجزیے پر مبنی تحریر ہے۔ اس تحریر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ماخذ کانوں سنے واقعات نہیں، بلکہ آنکھوں دیکھے احوال کا بیان ہے۔

لبرل اور جمہوریت پسند ہونے کی شناخت رکھنے والے حلقے کا بیانیہ یہ ہے کہ جنرل ضیا مرحوم نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے آلہ کار کے طور پر روس کے خلاف پراکسی وار میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کا گڑھ بن کر رہ گیا۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ تب یہ دانش ور طبقہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف اور سوویت یونین کا ثناخواں تھا، لیکن آج یہی حلقہ امریکہ کو انسانی اور جمہوری حقوق کا علَم بردار سمجھتا ہے، اس کی ”اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کی تحسین کرتا ہے۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاد کہانی کے مصنف نے بجاطور پر اسے بدترین ”فکری بددیانتی“(Intellectual dishonesty) کا نام دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ امریکہ نے اپنے گلوبل مفاد کی خاطر افغان جہاد کی حمایت کی تھی، لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اگر اُس وقت سوویت یونین کی مزاحمت نہ کی جاتی تو سوویت یونین جو اپنی سلطنت کی حدود کابل اور جلال آباد تک وسیع کرچکا تھا، اس کا اگلا قدم لازماً گرم پانیوں تک رسائی یعنی پاکستان تھا۔ جو لوگ اس بات کو بے بنیاد اندیشہ کہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ذرا وقت نکال کر تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو ان کے مغالطے کی ازخود تصحیح ہوجائے گی۔ چوں کہ ہمارا مطالعہ تاریخ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد تک کے کارناموں تک محدود ہے اور ہم وسطی ایشیا کی مسلم دنیا کی شان دار تاریخ اور کارناموں سے آگاہ نہیں۔ خلیفہ ولید کے زمانے میں اس علاقے میں سطوتِ اسلام کا پرچم بلند ہوچکا تھا۔ قتیبہ بن مسلم باہلی وہ عظیم جرنیل تھا، جس نے اسلامی سلطنت کے پھریرے کاشغر تک لہرائے تھے۔ الپ ارسلان اور ملک شاہ سلجوقی اسی سرزمین کے نامور فرزند تھے۔ یہ سوویت یونین ہی تھا جس نے وسطی ایشیا کی ان مسلم ریاستوں کو اپنی سنگینوں تلے لے کر ان پر غاصبانہ تسلط جمایا تھا۔ یہ جہادِ افغانستان ہی کا ثمرہ ہے کہ آج یہ مسلم ریاستیں سوویت یونین کے تسلط سے نجات پاکر آزاد ہوچکی ہیں۔ کابل اور جلال آباد پر تسلط کے بعد سوویت یونین کے پاکستان کی طرف نہ بڑھنے کی بات کرنا ” ایں خیال است و محال است و جنوں“ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

افغانستان کو اپنا لانچنگ پیڈ بنا کر سرخ ریچھ کا اگلا لازمی اور یقینی ہدف پاکستان ہی تھا۔ پاکستان نے اس جہاد میں حصہ لے کر افغان سرزمین کے تحفظ کے ذریعے اپنی بقا کی پیش بندی کی تھی۔ افغان جہاد میں حکومتِ پاکستان اور جماعت اسلامی کی شمولیت کے باعث ”جہاد کہانی“ کی گفتگو کا دائرہ پاکستان، اُس وقت کے پاکستان کے حکمران اور جماعت اسلامی کے ذمہ داران تک پھیل گیا ہے۔ مصنف نے بجا طور پر جنرل ضیا الحق مرحوم کی افغان پالیسی کو سراہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جنرل صاحب کے شخصی اوصاف کا بھی مفصل ذکر کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ اوصاف کا خلاصہ یہ ہے کہ ”ضیاالحق ایک نیک، صالح اور اسلام پسند جنرل تھا اور اس نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں کوئی کوتاہی نہیں برتی“۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ضیاالحق مذہبی رجحان کے حامل جنرل تھے۔ ان کے بعض اقدامات مثلاً قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے، شرعی عدالتوں کے قیام، آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 کے اضافے کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی نظام کی تنفیذ کی بات ہے، تو تمام تر اختیارات کے باوجود معاملہ ان کی مؤثر تقاریر سے آگے نہ بڑھ سکا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل صاحب اول و آخر ایک آمر تھے۔ شخصی اوصاف سے قطع نظر ہر آمر کی تمام تر مساعی کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنے اقتدار کا تحفظ ہوتا ہے، جس کی خاطر وہ اخلاقی و قانونی جواز کے ہر تقاضے سے بے پروا ہوکر بلاتامل آخری حد تک جاتا ہے۔ ضیا صاحب بھی ایک آمر تھے اور اپنے اقتدار کا تحفظ ان کی اولین ترجیح تھی، اور اس اعتبار سے ان میں اور کسی بے دین جنرل میں کوئی فرق نہ تھا۔ اگر وہ حادثے کا شکار نہ ہوتے تو آخری دم تک اپنی آمریت کو مسلط رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضیاالحق نے اپنی مزعومہ صالحیت کے باوجود دین و اخلاق کے تمام ضابطے ایک طرف رکھتے ہوئے وہ تمام اقدامات کرڈالے جس کی توقع بے دین شخص مگر اصول پسند سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے اثر ونفوذ کو ملیامیٹ کرنے کے لیے لسانی تنظیم کی تخلیق اور سرپرستی اُن کا وہ کارنامہ ہے جس کا خمیازہ یہ شہر ضیا صاحب کے انتقال کے 35 برس بعد بھی بھگت رہا ہے۔ لسانی عفریت، بوری بند لاشیں، فرعونی اشاروں پر مارکیٹوں کی بندش، تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور نقل مافیا، کوٹہ سسٹم، پورے شہر میں جا بجا کوڑے کے ڈھیر، ابلتے ہوئے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، چائنا کٹنگ اور بے تحاشا غیر قانونی تعمیرات جس کے نتیجے میں پورا انفرااسٹرکچر ہی تباہ ہوگیا، یہ سب جنرل صاحب مرحوم ہی کا فیضانِ جاریہ ہے۔

کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے صالح نوجوانوں پر بدترین تشدد بھی جنرل صاحب کی صالحیت کا ایک روشن مظہر تھا۔ فاروق صاحب! میری آنکھوں کے سامنے کراچی کے فقیر منش میئر کو جو مجسمہ دیانت وصلاحیت تھے، دن کی روشنی میں سرعام سڑک پر گھسیٹا گیا اور منتخب بلدیہ عظمیٰ توڑ دی گئی۔ یہ کارنامہ ضیا الحق کے اُس لاڈلے کے ہاتھوں انجام پایا جو بیک وقت ہائی کورٹ کا جج بھی تھا اور مارشل لا حکومت کا وزیر بھی۔ پھر جنرل صاحب نے اسے وزیراعلیٰ بنانے کے لیے (صرف اس ایک شخص کی خاطر) قانون ہی بدل ڈالا۔ اسی طرح ایک گمنام تاجر زادے کو تراش خراش کر اولاً صوبائی وزیر اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جو بعد میں تین بار پاکستان کا وزیراعظم بنا۔ ضیا الحق کے ان کارناموں کے بعد جماعت اسلامی ایسے شخص سے عدم تعاون نہ کرتی تو اور کیا کرتی! مصنف نے جماعت اسلامی کو بالفعل چارج شیٹ کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے اپنے امیر میاں طفیل محمد کی رائے کے خلاف ضیاالحق کے ساتھ تعاون نہ کرکے اسلامی نظام کے Cause کو نقصان پہنچایا۔ مصنف کے مؤقف پر کسی تبصرے کے بغیر یہ بات ریکارڈ پر لانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میاں صاحبؒ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں میرے پوچھنے پر دو باتیں بہت واضح طور پر کہیں، اول یہ کہ ضیا الحق کے متعلق ان کی رائے تجربے کی روشنی میں درست ثابت نہیں ہوئی۔ دوسری بات میاں صاحب سے بدسلوکی، جس کا ذکر مصنف نے کیا ہے، اس کے حوالے سے میاں صاحبؒ نے کہا کہ اس واقعے کے بعد میں بھٹو کی درخواست پر ان سے ملنے گیا تو بھٹو میرے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ”میاں صاحب مجھے معاف کردیں، میرا اس واقعے سے دور کا بھی تعلق نہیں، یہ سب حرام زادے کھر کا کیا دھرا ہے“۔ جنرل صاحب کی حمایت میں مصنف نے بڑی دردمندی اور اخلاص کے ساتھ جماعت اسلامی پر بھی خوب تنقید کی ہے۔ بعض جگہ ان کا لہجہ تلخی کی آخری حد کو بھی عبور کرگیا ہے، لیکن اسے ایک مخلص و محب کی دردمندی کے سوا کچھ اور کہنا ممکن نہیں۔ ان کی تنقید ایک بالغ نظر دانشور کی مخلصانہ تنقید ہے جو بہت حد تک منطقی بھی ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ذمہ داران کو ایسی تحاریر پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔

بھٹو صاحب کی پھانسی پر عوامی تاثر یہ رہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے بھٹو صاحب کو جنرل ضیا الحق کے دباؤ پر پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے، جو بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے جج حضرات میں شامل تھے، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں تائیدی بیان دے کر اس تاثر کو ناقابل انکار حقیقت میں بدل دیا۔ ”جہاد کہانی“ کے مصنف نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے پر واقعتاً بڑی لاجواب بحث کی ہے اور منطقی انداز میں یہ ثابت کر ڈالا کہ یہ عدالت کا آزادانہ فیصلہ تھا اور ضیا الحق کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کے اعترافی بیان کو بھی انہوں نے دو اور دو چار کے انداز میں اس طرح غلط ثابت کیا کہ پڑھنے والا لاجواب ہوکر رہ جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مصنف نے اپنا مقدمہ اس طرح پیش کیا کہ بھٹو کے ”عدالتی قتل“ کے بیانیے کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے۔ اس بحث کو پڑھ کر بھٹو صاحب کی پھانسی کو ”عدالتی قتل“ کہنے والے بڑے بڑے قانون دانوں کی رائے اپنی وقعت کھوتی نظر آتی ہے۔ نامی گرامی وکلا جو بھٹو کی پھانسی کو ”عدالتی قتل“ کہتے ہیں،ان پر لازم ہے کہ وہ یہ باب ضرور پڑھیں۔ ”جہاد کہانی“ ایک بسیط تحریر ہے۔

یہ محض افغانستان کی داستان نہیں، بلکہ اس کا دائرہ ان تمام امور اور جزئیات پر محیط ہے جن کا تعلق کسی بھی درجے میں، بالواسطہ یا بلا واسطہ، جہادِ افغانستان سے جڑا ہوا تھا۔ چناں چہ روسی فوجوں کی پسپائی کے بعد مجاہدین کے مابین خونیں تصادم کی تفصیل اور اس تصادم کے نتیجے میں افغان عوام پر گزری قیامت خیز تباہی، طالبان کا ظہور، پاکستانی ایجنسیوں کا کردار اور پرویزمشرف کی پست ہمتی کے ساتھ ساتھ ان کی جانب سے پاکستان کی نظریاتی پہچان کو داغ دار کرکے سیکولرزم کا پرچار کرنا… یہ سارے چشم کشا حقائق اس کتاب کا حصہ ہیں۔ ایک مغربی دانش ورRedly نے Reality and appearence کے عنوان سے ایک طویل بحث رقم کی ہے جس میں اُس نے ثابت کیا ہے کہ کسی شے کی نظر آنے والی کیفیت و ماہیت ایک چیز ہے اور اس کی حقیقتِ شئی دیگر ہے۔ یہ سارا فلسفہ عربی زبان کے ایک کلمہ حکمت میں سمٹ آیا ہے ”الـهـم ارنـى حقيقه الاشياء كما هي“ ترجمہ: ”اے اللہ مجھے اشیا اس طرح دکھا دے جس طرح وہ حقیقت میں ہیں“۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ علامہ اقبال کے خطبات میں اس دعائیہ کو غلطی سے مسنون دعا کے طور پر ذکر کردیا گیا ہے جبکہ پورے ذخیرئہ حدیث میں کہیں اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اسی بات کو مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ، اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے نے اپنی تحریر میں بطور مسنون دعا کے ذکر کیا ہے۔ راقم کی جانب سے مسلسل توجہ دلانے کی طویل مشقت کے بعد کہیں جا کر سہ ماہی”حکمت قرآن“ میں اس غلطی پر اعتذار شائع کیا گیا۔ مصنف نے ایمانی فراست کے ساتھ امریکہ کے کردار اور اس کی پالیسی کے ظاہر (Appearence) اور اصل حقیقت (Reality) کو بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مغربی جمہوریت اور اسلام کے شورائی نظام پر بڑی علمی گفتگو کی ہے۔ یہ بحث فی الواقع ایک خاصے کی چیز ہے۔ یہ مقالہ اس لائق ہے کہ اسے سطر سطر غور کے ساتھ پڑھا جائے۔ پرویزمشرف کے ذکر پر مصنف کی تلخی بجاطور پر اپنی انتہا تک پہنچی نظر آتی ہے، جس کا اندازہ ان کے درج ذیل صرف ایک جملے سے لگایا جاسکتا ہے: ”وہ اولادِابراہیم نہیں، سب سے پہلے پاکستان کی خودغرضانہ چنگھاڑ مارنے والی ذریت نمرود و ہامان ہیں“۔

مذہبی حلقوں کی جانب سے سید مودودیؒ کی مخاصمت کی حقیقت، پر بھی مصنف نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ کہنے کو تو مصنف ماہر علم الارض ہیں لیکن ان کا دینی فہم اس قدر پختہ اور عمیق ہے کہ وہ مدرسہ کے فاضل حضرات سے کہیں زیادہ دینی فہم کے مالک ہیں۔ سید مودودیؒ اور تحریک اسلامی سے متعلق ان کی گفتگو بڑی معلومات افزا ہے۔ سید مودودیؒ کی دینی فکر کی تفہیم کے لیے انہوں نے فکر اسلامی کی روایت Pre-Maudoodi Era اور Post Maudoodi Era کی اصطلاح اختیار کی ہے۔ تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص ارکانِ جماعت کو اسے لازماً پڑھنا چاہیے۔ یہ تحریر تفہیم دین اور اقامتِ دین کی فکر کو مہمیز کرنے کا کام دے گی۔ طوالت کا اندیشہ حارج ہوتا ہے ورنہ دل تو چاہتا ہے کہ اس بحث کا خلاصہ درج کیا جائے۔ اس کتاب میں مختلف حوالوں سے سید مودودیؒ کا تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے، ہر تذکرہ سیاق وسباق کے اعتبار سے اہم اور لائق توجہ ہے۔ برسوں پہلے لکھے گئے ایک نجی خط کو ”فتنہ مودودیت“ کا عنوان دے کر اچانک اس وقت شائع کرنا جب ایک جانب تو جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی تھی، دوسری جانب سید مودودیؒ سمیت جماعت کی ساری قیادت پابندِ سلاسل کردی گئی، اس کرم فرمائی کے پس پردہ کہانی تو مدت ہوئی طشت ازبام ہوچکی ہے۔

اسی طرح کی ایک اور کرم فرمائی کی حقیقت بھی سامنے آئی۔ مصنف نے ایک بڑے شیخ الحدیث کی جانب سے عربی زبان میں ”استاذ المودودی“ کی تصنیف اور اس کے پس پردہ اصل کہانی بھی بیان کی ہے۔ کتاب کے مندرجات پر گفتگو طوالت اختیار کرچکی ہے لیکن مصنف کے بیان کردہ دو لطیف نکات کا بیان ازبس ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سید مودودیؒ نے صحت حدیث کے متعلق کہیں یہ کہہ دیا تھا کہ ”حدیث کے ردو قبول کا جو معیار محدثین نے مقرر کیا ہے، وہ اس باب میں حرفِ آخر ہے لیکن حدیث کے الفاظ ازخود بھی اس کے حدیث ہونے کی صحت کو واضح کرتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کی زبان عربی ادب کا اعلیٰ ترین نمونہ تھی۔ چناں چہ عربی زبان وادب اور قرآن و حدیث کے گہرے مطالعے کے بعد آپ ﷺ کی زبان و اسلوب اور مزاجِ مبارک سے اس درجہ آگاہی ہوجاتی ہے کہ حدیث کے الفاظ اور متن دیکھ کر ایک محدث اس بات کا بخوبی اندازہ لگا لیتا ہے کہ آپ ﷺ سے منسوب قول فی الواقع آپ ﷺ کا قولِ مبارک ہے یا نہیں۔ بس اتنی سی بات پر اہل جبہ و دستار نے غل مچادیا کہ سید مودودیؒ نے حدیث کی جانچ کا اپنا نظریہ ایجاد کرڈالا، اور یہ کہ سید مودودیؒ صاحب ”مزاج شناسِ رسول“ کے دعوے دار ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خوفِ خدا سے عاری زبانوں نے، بات کیا تھی اور کیا بناڈالی۔ اب مصنف کے بیان کی طرف آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایم۔ فل کے مقالے کی تکمیل میں بے حد مصروفیت اور تھکان کے دن تھے، ایک دن ہاسٹل کے ٹی وی روم میں آن بیٹھا۔ ڈرامہ ”بابر“ کی آخری قسط کا آخری منظر تھا جس میں بابر کی قبر کا کتبہ اور اس پر درج دو اشعار پڑھنے میں آرہے تھے۔ یہ اشعار میرے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوگئے۔ میں اکثر و بیشتر ان الفاظ کو مسلسل دہرانے لگا۔ میں نے اس نظم کی تلاش شروع کی لیکن شاعر کا نام معلوم نہ تھا۔ اشعار پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ لب ولہجہ اور انداز تو شاعر مشرق کا معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر ”فرنگ“ کی تلمیح سے اس بات کو مزید تقویت ملی کہ ہو نہ ہو، یہ اقبال کا کلام ہے۔ یہ خیال آتے ہی لائبریری گیا اور اقبال کے فارسی کلام کا مجموعہ’”پس چہ باید کرد“ کھول کر دیکھا تو یہ پوری نظم سامنے آگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کلام اقبال کے ماہر نہ ہونے کے باوجود اقبال کے معمولی مطالعے کے باعث اقبال کے نامعلوم اشعار صرف لب و لہجہ کی بنیاد پر پہچانے جاسکتے ہیں، تو جن حضرات کی زندگی قرآن وحدیث اور عربی زبان کے مطالعے میں گزری ہے ان کے لیے نبی اکرمﷺ کے کلام کو، زبان و بیان سے واقفیت کی بنا پر متنِ حدیث کو دیکھ کر یہ پہچان لینا کیوں کرممکن نہیں کہ پیش نظر حدیث فی الواقع قولِ رسول ﷺ ہے یا نہیں۔ اسی طرح ایک بحث میں مسجد ضرار پر گفتگو کے بعد خلاصے کے طور پر بہت لطیف اور حکیمانہ نکتہ بیان کیا ہے، کہتے ہیں کہ مذہب عیسائیت میں’”راس الحسنات“ یا نیکیوں کی جڑ ”رحم دلی“ ہے۔ یہودیت میں یہی نیکی یا رأس الحسنات ”تشرع یا قانون کی پابندی“ ہے۔ بدھ مت میں بڑی نیکی ”ہمدردی “ہے۔ ہندومت میں ”عجز و انکسار‘‘ ہے۔ لیکن اسلام میں ”راس الحسنات“ یا بڑی نیکی ”اخلاص“ یا نیک نیتی ہے۔

مصنف زبان و بیان کے سلیقے کا ہنر خوب جانتے ہیں، عربی و فارسی سے ان کی واقفیت نے عبارت میں حسن پیدا کردیا ہے، لیکن انگریزی الفاظ کا غیر ضروری استعمال زبان کی ادبیت کے اس حسن کو متاثر کرتا ہے۔ مثلاً 1-سنیارٹی فالو کرنا،2-ایڈوانٹیج،3- فائل کلوز کرنا،4- ریٹیلیشن، 5-فیسیلیٹ،6- میچنگ قالین،7- کانسپیرسی،8- آرڈر ایشو کرنا،9-ایکٹوکلاز وغیرہ۔ کتاب کی حرف چینی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، چناں چہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ اگلے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہوجائے تو کتاب کا حسن دوبالا ہوجائے گا۔ اول کتابت کی غلطیاں (کا، کے، کی، تذکیر وتانیث وغیرہ) جو فی الحقیقت ایسی ہیں جو عبارت اور مفہوم پرتو اثرانداز نہیں ہوتیں لیکن عددی اعتبار سے ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔