یرغمال کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیاں

ایک مخصوص عرصے تک پلاٹ مالکان اگر سوسائٹی سے رابطہ نہیں کرتے تو اُن کا پلاٹ یہ بدکردار انتظامیہ کسی بھی نئے شکار کو الاٹ کردیتی ہے

کم وبیش دو دہائیوں سے کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز کو میں اسٹڈی کررہا ہوں، اور 2018ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کا آنریری سیکریٹری بھی منتخب کرلیا۔ یہاں یہ بات بتانا نہایت ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کا آنریری سیکریٹری مجھے منتخب کیا گیا اُس کے بانی مرحوم رئیس امروہوی صاحب تھے، لیکن اپنے کچھ ساتھیوں کا طرزعمل دیکھ کر آج بھی دل دکھ اور شرم کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہے، اسی لیے اپنی تحریر کا جو خاکہ سامنے آیا وہ عنوان میں لکھ دیا۔
ہمارے ملک میں پچھلی کئی دہائیوں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنا پیسہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگایا ہے، جس کی ایک وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کوئی بھی کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، جبکہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں آپ بہت سے سرکاری مسائل سے آسانی سے بچ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں نے اپنے چلتے ہوئے کاروبارختم کرکے تمام سرمایہ پراپرٹی ایجنٹ کے ذریعے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا دیا، جس کے نتیجے میں آج زمینوں اور پلاٹوں کی قیمتیں تو بڑھ رہی ہیں لیکن ملک میں روزگار مہیا کرنے والی انڈسٹری سُکڑ رہی ہے۔
ایک اور المیہ جس کی نشاندہی ماحولیاتی ماہرین کم از کم تین عشروں سے مسلسل کررہے ہیں وہ یہ کہ دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص اس وقت شدید موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے لیکن مجال ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی باتوں کو سنجیدہ لیا ہو۔ ماحولیاتی ماہرین نے تو چیخ چیخ کر اپنا گلا بٹھا لیا لیکن مجال ہے کہ ہم ٹس سے مس ہوئے ہوں، بلکہ ہم نے اپنے مزاج کے مطابق یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ سائنس دان تو ہوتے ہی پاگل ہیں اور انہیں ہمیں ڈرانے کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔ اس ماحولیاتی تبدیلی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور اہم وجہ ہمارے ملک میں تیزی سے زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیز کا بننا ہے۔ بدقسمتی سے بلڈر مافیا اور ہماری افسر شاہی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہمارے ملک کی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین ہائوسنگ پروجیکٹس کی نذر ہوچکی ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اس کے اثرات مستقبل قریب میں ہم پانی کی قلت اور خوراک کی کمی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی ایک امدادِ باہمی کا ادارہ ہے جس سے طبقے کا ہر فرد… چاہے وہ مڈل کلاس سے ہو، لوئر مڈل کلاس سے ہو یا مزدوری کرکے گھر کا چولہا جلاتا ہو… مستفید ہوسکتا ہے، بشرطیکہ سوسائٹی کو چلانے والی انتظامیہ ایمان دار ہو اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتی ہو۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ آج کل جو شخص بھی ایمان داری اور قانون کی بات کرتا ہے لوگ کہتے ہیں یہ بندہ سٹھیا گیا ہے، ایسے تھوڑی ہوتا ہے۔
آج ہمارے ملک کے حکمرانوں کی 75 سالہ محنت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عام لوگ اگر بچوںکی فیس ادا کرتے ہیں تو بجلی کا بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے، بجلی اور گیس کے بل دیتے ہیں تو والدین کی دوا نہیں خرید سکتے، دوا خریدتے ہیں تو خاندان کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلاسکتے۔ مختصراً اپنا گھر بنانا تو دور کی بات اب ایک عام آدمی کے لیے اپنے کنبے کی بہتر انداز میں دیکھ بھال کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
اپنا گھر ہر شخص کا خواب ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں بلڈر مافیا اور اسٹیٹ ایجنٹ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ایک عام آدمی سے اُس کے گھر کا خواب بھی چھین لیا گیا ہے۔
مجھے یہ حُسنِ ظن تھا کہ اگر آپ اللہ کو گواہ بناکے کوئی عہد لیں تو کوئی بھی مسلمان شخص اللہ کی ناراضی مول نہیں لے گا اور اپنے فرائضِ منصبی انتہائی دیانت داری سے انجام دے گا، لیکن میرا یہ وہم 2019ء میں اُس وقت کرچی کرچیِ ہوگیا جب میری ٹیم کے زیادہ تر ارکان میرے خلاف صرف اس لیے ہوگئے کیونکہ میں سوسائٹی کو قانون کے مطابق چلانا اور سوسائٹی کے تمام پراسس کو ڈیجیٹالائز کردینا چاہ رہا تھا۔ خیر اس کا انجام میرے استعفے کی صورت میں سامنے آیا۔
یقین جانیے مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ لوگوں کی ہوسِ زر اس قدر لامحدود ہے کہ وہ کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کو شفاف طریقے سے چلانے کے بجائے ایک قبرستان کی طرح چلانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں گورکن ایک مخصوص عرصے تک کسی بھی قبر کو نوٹ کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی کچھ عرصہ اُس قبر پر کوئی وارث نہیں آتا، وہ قبر کسی اور کو الاٹ کردی جاتی ہے۔ معذرت کے ساتھ، آج آپ کو پاکستان میں ایسی بہت سی سوسائٹیز مل جائیں گی جو کہ قبرستان کے ماڈل کو فالو کررہی ہیں۔ افسوس !!! اللہ ہم پر رحم کرے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قبرستان ماڈل کو صرف وہ سوسائٹیز فالو کررہی ہیں جن کی انتظامیہ میں اسٹیٹ بروکر (کوآپریٹو کا کورونا وائرس) حضرات موجود ہیں۔ پاکستان میں Conflict of Interest کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل کون کروائے گا؟
مختصر یہ کہ ایک مخصوص عرصے تک پلاٹ مالکان اگر سوسائٹی سے رابطہ نہیں کرتے تو اُن کا پلاٹ یہ بدکردار انتظامیہ کسی بھی نئے شکار کو الاٹ کردیتی ہے۔ ایسا کرنے والوں میں نہ خدا کا خوف ہے، نہ سوسائٹی کی پروا، اور نہ مہنگائی سے بلبلاتے اراکین سے کوئی ہمدردی۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا کرکے یہ لوگ امداد ِ باہمی کے عظیم فلسفے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس لیے انہیں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے… کوئی حیا ہوتی ہے۔
2018ء میں جب راقم کو سوسائٹی کا آنریری سیکریٹری مقرر کیا گیا تو مجھے مختلف اوقات میں بہت سے لوگوں کی طرف سے کچھ ایسی پیشکشیں کی گئیں جن کی مالیت کروڑوں میں بنتی ہے، لیکن میری خاموشی اور ناں نے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔ میں آج بھی حیران ہوں کہ لوگ کس طرح تھوڑے سے مالی فوائد کے لیے عہد شکنی کرتے ہیں!
میری ناقص رائے میں اگر ہم امدادِ باہمی کے کلچر کو فروغ اور عزت دینا چاہتے ہیں تو حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ سوسائٹیز کو پابند کریں کہ وہ سوسائٹی کو پاکستان کے قوانین اور سوسائٹی بائی لاز کے مطابق چلائیں گی اور اپنے تمام پراسس کو کمپیوٹرائز کریں گی۔
آج صرف کراچی میں 800سے زائد کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت قلیل تعداد میں سوسائٹیز اپنے معاملات قانون کے مطابق چلانے پر تیار ہیں۔ زیادہ تر سوسائٹیز اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتی ہیں، اور اُن کی انتظامیہ جی بھر کر ممبران سے بدمعاشی کرتی ہیں اور خوب مال بناتی ہیں، اور نتیجتاً سوسائٹی کو مفلوج اور تباہ کردیتی ہیں، اور اگر یہ لوگ کبھی کسی ادارے کی گرفت میں آبھی جائیں تو ہماری معزز عدالتیں ہیں نا، انہیں ریلیف دینے کے لیے۔
سچی اور کڑوی بات یہ ہے کہ ممبرز بلیک میلروں کے ہاتھ لگ گئے ہیں جو اُن سے سانس لینے تک کا جگا ٹیکس لیتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ممبران ایسی انتظامیہ کو لائیں جو کہ پڑھی لکھی اور دیانت دار ہو، اور سوسائٹی ممبرز انتظامیہ پر ایسا چیک اینڈ بیلنس بھی رکھیں کہ وہ قانون کی پاس داری کرے، اور اگرممبران اس میںکامیاب ہوجاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سوسائٹی ترقی نہ کرسکے۔
میں بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
( جون ایلیا)