ملک نواز احمد اعوان ایک فیض رساں شخصیت

راقم، ملک نواز احمد اعوان صاحب کے نام سے، پہلے پہل، مظفر بیگ کے رسالے ”آئین“ میں ان کی تحریروں کے ذریعے واقف ہوا۔ اُن دنوں وہ کراچی میں رہتے تھے اور کبھی کبھار لاہور آتے۔ لیکن لاہور آتے تو زیادہ تر وقت مظفر بیگ صاحب کے پاس دفترِ” آئین“ میں گزارتے۔ ان سے پہلی ملاقات غالباً بیگ صاحب کے دفتر ہی میں ہوئی۔ وہ تبصرے لکھتے (میری طرح، اُن کا بھی یہ پرانا مشغلہ تھا)۔ کبھی کوئی مضمون لکھ دیتے، یا بیگ صاحب کی فرمائش پر انگریزی سے اُردو ترجمہ کردیتے۔ عربی اور فارسی پر بھی بخوبی دسترس رکھتے تھے۔
ایک بار کراچی جانا ہوا تو محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے اپنے ”شعبہ اسلامی تاریخ“ کے تحت یونی ورسٹی میں تقریبِ ملاقات کا اہتمام کیا۔ میری درخواست پر اُنھوں نے نواز صاحب کو بھی مدعو کیا۔ وہ تشریف لائے اور عرصے کے بعد اُن سے مفصّل اور بھرپور ملاقات رہی۔ معین الدین عقیل صاحب، طاہر مسعود صاحب، خالد جامعی صاحب اور یونی ورسٹی کے بعض دیگر اساتذہ سے بھی تجدیدِ ملاقات ہوئی۔ اُس زمانے میں فرائیڈے اسپیشل میں اُن کے تبصرے رابطے کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔ خطوط کے ذریعے بھی تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔
اعوان صاحب بڑے فیض رساں شخص تھے۔ خود اُن کی شخصیت اگر کہا جائے کہ ہشت پہلو تھی، تو غلط نہ ہوگا۔ مصنّف، مترجم، مبصّر، صحافی، خطاط، ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشنر کے میکینک اور بہت کچھ… چناں چہ اُن سے فیض پانے والوں میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ اساتذہ، مصنّفین، طلبہ اور صحافی وغیرہ۔ میرے دوست پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب نے بتایا کہ ”آئین“ کے ابتدائی زمانے میں بیگ صاحب کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ اعوان صاحب کو اس کا ادراک تھا۔ چناں چہ کراچی میں وہ ”آئین“ کا شمارہ تیار کرکے کتابت کرواتے، ٹائٹل کی خطاطی بھی خود کرتے یا کرواتے، کچھ لوازمے کے پازیٹو بنواتے، (اُس زمانے میں ٹریسنگ کا رواج نہ تھا)، پھر یہ سب چیزیں لے کر رات کی ریل سے سفر کرتے ہوئے علی الصباح لاہور پہنچتے۔ ریلوے اسٹیشن سے نسیم مارکیٹ (دفتر آئین) پہنچتے۔ تیار شدہ پرچہ بیگ صاحب کے حوالے کرتے، دو تین گھنٹے ملاقات، ناشتہ… اور پھر (ممکن ہے بیگ صاحب سے کچھ تحریریں لے کر) واپس ریلوے اسٹیشن اور ریل سے کراچی۔ سلیم صاحب کہتے ہیں: ”یہ عمل اُنھوں نے تقریباً ڈیڑھ برس تک جاری رکھا۔“
برادرِ محترم عبدالرشید بھٹی صاحب فوج میں خطیب تھے۔ جب وہ ریٹائر ہوئے تو اعوان صاحب نے اُن سے کہا: ”آپ باصلاحیت شخص ہیں، لکھنا شروع کیجیے۔“ اُنھیں ہدایت کی کہ عربی زبان سیکھیں۔ بھٹی صاحب بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے مجھے عربی پڑھانا شروع کی۔ جب میں چل نکلا، تو مجھ سے عربی سے اُردو تراجم کروائے۔ قدم قدم پر وہ راہ نمائی کرتے، حوصلہ بڑھاتے، یہاں تک کہ میں عربی سے اُردو ترجمہ کرنے میں طاق ہوگیا۔ اُنھوں نے مجھ سے 36 عربی کتابوں کے ترجمے کرائے اور اُن میں سے بیشتر شائع ہوگئیں۔ میرا بیٹا فرانس میں تھا جہاں سے اُس نے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ اعوان صاحب کو پتا چلا، تو اُنھوں نے فرانسیسی کتابیں بھیجنا شروع کیں کہ بیٹے سے ترجمہ کرائیں۔
چند برس پہلے ایک روز خبر ملی کہ اعوان صاحب کراچی سے لاہور منتقل ہوگئے ہیں۔ رابطہ ہوا تو بتانے لگے کہ بچّوں نے لاہور آنے کا فیصلہ کیا، مجھے بھی آنا پڑا (میرا اندازہ ہے کہ وہ کراچی میں زیادہ خوش تھے۔ وہاں اُنھیں دوست احباب سے میل ملاقات اور تبادلۂ خیالات کے جو مواقع میسر تھے، لاہور میں اُنھیں وہ بات نظر نہ آئی)- بہرحال وہ تقریباً ہر ہفتے منصورہ آتے، دفتر ”ترجمان القرآن“ میں رکتے، ڈاک بھی وہ ترجمان القرآن کے دفتر کے پتے پر ہی منگواتے۔ عموماً ظہر کی نماز میں اُن سے ملاقات ہوجاتی۔
کوئی بہت اچھی کتاب اُن کی نظر سے گزرتی، تو وہ چاہتے کہ اسے صاحبانِ ذوق بھی پڑھیں۔ چند نسخے خرید کر دوستوں کو بھیجتے کہ مطالعہ فرمائیں۔ میرے دوست ڈاکٹر تحسین فراقی نے بتایا کہ کوئی دو ہفتے قبل اُنھوں نے مجلسِ ترقی ادب لاہور کا شائع کردہ ”صحیفہ“ کا مکاتیب نمبر 3 خرید کر مجھے مطالعے کے لیے بھیجا۔
اعوان صاحب راقم کو (اور اسی طرح دوسرے دوست احباب کو) تصنیف و تالیف اور مضمون نویسی پر اُکساتے، مثلاً میں نے بتایا کہ تقریباً 30 سے 35 شخصیات (زیادہ تر مرحومین) پر مضامین لکھ رکھے ہیں۔ کہنے لگے:”بس انھیں کتاب بنا دیجیے، شائع کردیجیے۔ میری مدد کی ضرورت ہو تو بتائیے۔“ راقم مضامین پر نظرِثانی کرنا چاہتا تھا، دوسرے کاموں میں مصروفیت کے سبب موقع نہیں ملتا تھا (اور ابھی تک موقع نہیں ملا)۔ تین چار کتابیں زیرِ تکمیل تھیں، اُن کا ذکر کیا تو اعوان صاحب نے پروف ریڈنگ کی پیش کش کردی اور بڑی مستعدی سے چار کتابوں کی پروف خوانی کردی۔ ایک کتاب تو دو بار پڑھی، چند مشورے دیے اور بعض الفاظ و عبارات کو بہتر بنانے کے لیے متبادل صورت بھی بتائی۔ بعض اوقات وہ کہتے کہ اپنے مصنّف دوستوں کو فرائیڈے اسپیشل میں برائے تبصرہ کتابیں بھجوانے کے لیے توجہ دلائیے۔ اعوان صاحب کے تبصرے مصنّفین کا دل بڑھانے والے ہوتے۔ بالعموم غلطیوں کو نظرانداز کردیتے۔ کوئی بہت ہی سخت نظریاتی یا فکری غلطی ہوتی تو اُس کی نشان دہی کرتے اور گرفت بھی۔
نمازِ جنازہ میں مرحوم کے اعزہ کے علاوہ ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ لوگ شامل تھے۔ جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، سبھی اُن کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جنھوں نے اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور فیض پانے کا اعتراف کیا۔ باری تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے، اور آخرت میں اُن سے معاملہ آسان فرمائے، آمین۔