تحریک آزادی کشمیر کے غیر متنازع قائد سید علی گیلانی کی پہلی برسی

دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کے لیے قابل ِتقلید مثال، آزادیِ کشمیر کے بے تیغ مجاہد، الحاقِ پاکستان کے بے لوث سپاہی، جماعت اسلامی کا قیمتی اثاثہ اور مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما جناب سید علی گیلانی کی پہلی برسی (یکم ستمبر 2022ء) پر حکومتِ آزا دکشمیر نے ہر سال علی گیلانی کے یومِ وفات کو یومِ تحریکِ تکمیلِ پاکستان کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کا نام سید علی گیلانی یونیورسٹی رکھ دیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے جدوجہدِ آزادی کے لیے علی گیلانی کی خدمات اور قربانیوں پر انھیں زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ دنیا بھر میں کشمیریوں اور آزادی کے علَم برداروں نے تقریبات منعقد کرکے ان کی یاد کو تازہ کیا ہے، لیکن حکومتِ پاکستان اس موقع پر بے حسی کی تصویر بنی ر ہی۔

سید علی گیلانی 92برس کی عمر پاکر اپنے رب کی طرف لوٹے۔ ان کی 92 سالہ زندگی بہت سوں کی 92 صدیوں کی زندگی سے زیادہ متحرک اور سرگرم تھی۔ ان کی موت پر اہلِ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں دنیا بھر کے ہر مسلمان کی آنکھ نم ہوئی اور پوری دنیا میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر مسلموں نے بھی اسے اپنا نقصان جانا تھا۔

14 سال بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں گزارنے والے اس مردِ جری کی موت بھی حالتِ نظربندی میں ہوئی اور تدفین بھی سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں۔ ہر بار قابض و جابر بھارتی حکومت اور اس کی کٹھ پتلی ریاستی حکومت کے لگائے ہوئے کرفیو اور دوسری پابندیوں کو موت کی پروا کیے بغیر توڑنے والا یہ بہادر بوڑھا شیر بہت عرصے سے اپنے گھر میں نظربند تھا، لیکن اِس بار اس کی صحت کی حالت یہ تھی کہ پابندی توڑنے کے لیے دروازے تک جانے کی بھی اس کے ناتواں جسم میں سکت نہ تھی۔ وہ ہفتوں سے بستر پر تھا۔ اس حالت میں رب کی طرف سے بلاوا آگیا اور وہ موت کے فرشتے کے ساتھ کسی حیل و حجت کے بغیر اس طرح چل پڑا جس طرح وہ بیسیوں بار بھارتی فوج اور ریاستی پولیس کو کسی مزاحمت کے بغیر گرفتاری دے کر ان کے ساتھ چل پڑتا تھا۔ پہلے ریاستی پولیس یا بھارتی فوج کے بزدل سپاہی انہیںکسی خفیہ پناہ گاہ، کسی پبلک مقام یا حیدر پورہ میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کرکے لے جاتے تھے اور اسے اپنی کامیابی کہتے تھے، لیکن اِس بار قدرت نے بھارتی فوج اور ریاستی پولیس کے سورماؤں کو اس اعزاز سے محروم رکھا کہ یہ بدبخت، زندہ علی گیلانی کو تو گرفتار کرکے نہیں لے جا سکے البتہ اس جری شیر کی میت کو اٹھا لے گئے۔ اس کام میں ان سورماؤں نے علی گیلانی کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی، خواتین اور بچوں کو دھکے بھی دیئے، اور پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی ان کی میت زبردستی چھین کر لے گئے۔ دنیا کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ انسانی حقوق کی کسی تنظیم اور عالمی سطح کے کسی ادارے نے اس عمل کی زبانی کلامی بھی مذمت نہیں کی، حالانکہ کسی میت کو زبردستی چھیننے، ورثا کے ساتھ تشدد آمیز رویہ اپنانے اور غم زدہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ہاتھ پائی کرنے کی کوئی انسانی معاشرہ اجازت نہیں دیتا، اور عالمی سطح پر اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، بچوں اور خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے، لیکن سید علی گیلانی کا اعزاز دیکھیے کہ دن کے اجالے میں ان کا جنازہ ہوتا تو پورا کشمیر نمازِ جنازہ میں امڈ آتا، بھارتی سورماؤں نے رات کے اندھیرے میں انہیں دفنا دیا۔ گویا بھارتی پولیس اور فوج اپنے سورماؤں کو جس طرح پولیس اور فوج کی نگرانی میں دفن کرتی ہے اسی فوج اور پولیس نے یہ ’’اعزاز‘‘ ازخود سید علی گیلانی کی میت کو دے ڈالا۔

سید علی گیلانی اسلامی انقلاب اور آزادی کے نقیب تو تھے ہی، ساتھ ہی وہ منجھے ہوئے سیاست دان، شعلہ بیان مقرر اور روحِ دین پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت بھی تھے۔ وہ 29 ستمبر 1929ء کو زوری منز تحصیل بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول بوٹنگو سوپور اور گورنمنٹ ہائی اسکول سوپور سے حاصل کی۔ اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم، اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کیا۔ 1949ء میں اسکول ٹیچر بھرتی ہوئے اور بحیثیت سرکاری استاد 12 سال تک وادی کے مختلف اسکولوں میں خدمات انجام دیں۔ 1953ء میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ پہلی بار 28 اگست 1962ء کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے جیل میں رہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے زندگی کے 14 سال بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ریاست اور ریاست کے باہر مختلف جیلوں میں گزارے، مگر اپنے بنیادی اور اصولی مؤقف پر چٹان کی طرح جمے رہے۔ سید علی گیلانی 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ ریاستی اسمبلی کے لیے 1972ء، 1977ء اور 1987ء میں سوپور سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے۔ 30 اگست 1989ء کو بھارتی مظالم کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قیم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 7 اگست2004ء کو تحریک حریت کے چیئرمین اور ساتھ ہی حریت کانفرنس کے چیئرمین ہوگئے۔ علی گیلانی رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے اور تیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’رودادِ قفس‘‘، ’’قصۂ درد‘‘، ’’صدائے درد‘‘، ’’مقتل سے واپسی‘‘، ’’دید و شنید‘‘، فکرِ اقبال پر شاہکار کتاب ’’روح دین کا شناسا‘‘ اول و دوم، ’’پیام آخریں‘‘، ’’نوائے حریت‘‘، ’’بھارت کے استعماری حربے‘‘، ’’عیدین‘‘، ’’سفر محمود میں ذکر مظلوم‘‘، ’’ملتِ مظلوم‘‘، ’’تُو باقی نہیں‘‘، “What Should be done”، ’’پس چہ باید کرد‘‘، ’’پیام آخرین و اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں‘‘، ’’ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا‘‘، ’’تحریک حریت کے تین اہداف‘‘، ’’معراج کا پیغام نوجوانانِ ملت کے نام‘‘، ’’دستور تحریکِ حریت‘‘ اور ’’ولر کنارے‘‘ اول دوم قابل ذکر ہیں۔

علی گیلانی مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا رہے۔ انہیں پیس میکر لگا ہوا تھا۔ جسم بغیر گال بلیڈر کے تھا۔ پہلے ایک گردہ نکالا گیا اور پھر دوسرے گردے کا 1/3 حصہ بھی آپریشن کرکے نکال دیا گیا۔ وہ تمام زندگی اس مظلوم ملت کو بھارت کے جابرانہ قبضے سے نجات دلانے میں مصروفِ جدوجہد رہے۔ اس دوران ان پر ایک درجن سے زیادہ قاتلانہ حملے کیے گئے۔

مجھے اس مردِ حر کی زیارت کا شرف حاصل ہوسکا، نہ ہی میرے ہونٹ اس مجاہدِ عظیم کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کرسکے، لیکن مجھے ایک بار اُن سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا اعزاز ضرور حاصل ہوا جو میرے لیے کسی اثاثے سے کم نہیں ہے۔ ہم لاہور پریس کلب میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس (دستور) کی جانب سے میٹ دی پریس کے عنوان سے ایک پروگرام کرتے تھے، میں اُن دنوں اس یونین کا صدر تھا اور غالباً حامد ریاض ڈوگر جنرل سیکرٹری۔ اس پروگرام میں ہم نے سید علی گیلانی کو ٹیلی فونک خطاب کے لیے مدعو کیا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے متحرک رہنما اورشعبہ تعلقاتِ عالمی کے سربراہ جناب صفدر چودھری مرحوم نے اس معاملے میں ہماری مدد کی اور سید علی گیلانی سے رابطہ کرکے وقت بھی لے لیا، اور ٹیلی فونک رابطے کے لیے تکنیکی معاونت بھی فراہم کردی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی پریس کلب کا نثارعثمانی آڈیٹوریم صحافیوں سے بھر گیا۔ سید علی گیلانی مقررہ وقت پر لائن پر آگئے۔ انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں میڈیا کی ذمہ داریوں، پاکستان سے کشمیریوں کی محبت اور کشمیری مسلمانوں کی مشکلات کو پاکستانی صحافیوں کے سامنے رکھا، اور پھر صحافیوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ سوال و جواب کے سیشن کے دوران ٹیلی فونک رابطہ بار بار منقطع ہوتا رہا جو یقیناً بھارتی حکومت ہی کا ’’کارنامہ‘‘ تھا۔ میں چونکہ اس پروگرام کو کنڈکٹ کررہا تھا، اس پر ابتدائی اور اختتامی گفتگو کے علاوہ سوالات بھی علی گیلانی کے سامنے پیش کررہا تھا، اس لیے مجھے تقریباً دو گھنٹے اُن کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں انتہائی متحمل، جرأت مند، باخبر اور ابلاغیات کے فن کا شناسا پایا۔ یہی تاثر دوسرے صحافیوں کا بھی تھا۔ یہ دو گھنٹے کی گفتگو مجھے آج بھی یاد ہے اور میرے لیے اعزاز کا درجہ رکھتی ہے۔

سید علی گیلانی نے تقریباً 68 سال مظلوم و محکوم کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ یہ جنگ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے علاوہ عالمی سطح پر اپنے مضامین اور کتابوں کے ذریعے لڑی۔ اس جدوجہد کے دوران جلد ہی انہیں قائدانہ کردار مل گیا۔ چنانچہ وہ تین بار ریاستی اسمبلی میں منتخب ہوکر وہاں بھی بھارتی حکمرانوں کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ ان کی مخلصانہ جدوجہد، دیانت دارانہ قیادت اور جرأت مندانہ کردار کے باعث مقبوضہ کشمیر کی دیگر جماعتوں نے بھی ان کی قیادت کو بہت جلد تسلیم کرلیا، چنانچہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والی جماعتوں کے متفقہ لیڈر بن گئے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں سے وہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے غیر متنازع لیڈر کی حیثیت اختیار کرچکے تھے اور حالتِ نظربندی میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ اپنی بوڑھی آنکھوں سے کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکے، لیکن کشمیر جب بھی بھارتی تسلط سے نکلے گا اور آزادی کا پرچم اس سرزمین پر لہرائے گا، کشمیری عوام اور ان کی آئندہ نسلیں سید علی گیلانی کی جرأت مندانہ قیادت اور قربانیوں کو سلام عقیدت ضرور پیش کریں گی۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں