مسلم اندلس کے دنیا پر احسانات

مسلم حکمران متحد تھے تو دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی دنیا کے کمانڈر دنیا کے بیشتر ممالک کو فتح کرتے چلے گئے۔ ایشیا میں چین تک پہنچ گئے، افریقہ ان کے زیرنگیں تھا اور یورپ ان کے قدموں کی زد میں تھا۔
لگتا تھا پہلی صدی ہجری میں ساری دنیا پر اسلامی پرچم لہرانے لگے گا، لیکن برا ہو اختلاف و انتشار کا، کہ دشمنانِ دین و اسلام کے مقابلے میں صف آرا فوج آپس میں ایک دوسرے کے گریبانوں سے زور آزمائی کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے واپس بلالی گئی اور بھائی بھائی کے مقابلے میں شیر بن بیٹھا۔
اندلس یورپ کا ایک متمدن ملک تھا۔ سنہ 711ء میں موسیٰ بن نصیر (640ء۔716ء) کے جنرل طارق بن زیاد (670ء۔720ء) نے چھ سات ہزار کی فوج کو لے کر چڑھائی کردی اور تاریخی فتح حاصل کی۔ اندلس کے مسلم حکمرانوں نے دنیا والوں اور خصوصاً اقوام یورپ کو کیا کیا دیا، سکھایا، اس کی ایک جھلک پروفیسر زکریا ورک (کینیڈا) نے اپنے مضمون میں پیش کی ہے۔ مسلمانوں کی خانہ جنگی کے سبب تقریباً آٹھ سو سال بعد سقوطِ اندلس (1492ء) تاریخ کا ایک بڑا المیہ ثابت ہوا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ذہن میں تازہ فرمالیں:
اے گلستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
سر زمینِ اندلس کی سیاسی تاریخ سے تو ہر کوئی واقف ہے، مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بغداد کی طرح سرزمینِ اندلس نے بھی بہت سے عالم اور دانش ور جنم دیے، جن کے علمی اور فکر ی کام سے یورپ میں جہالت کی گھٹا چھٹی اور علم کے نور سے یہ خطۂ زمین منور ہوا۔ اسلامی اسپین میں جب مسلمانوں کا عروج تھا اُس وقت یہاں کا دارالخلافہ قرطبہ ایک چمکتے ہوئے ہیرے کی مانند تھا۔ یہاں کے شاہی محلات میں دنیا کا ہر قسم کا عیش و عشرت، موسیقی، قیمتی جواہر کا سامان موجود تھا، ہاں مگر اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ یہاں علم کی پرورش کے ساتھ دانش وروں اور عالموں کی قدر کی جاتی تھی۔
……٭٭٭……
پروفیسر زکریا ورک رقم طراز ہیں کہ اسلامی اندلس کے اس ترقی یافتہ دور یعنی آٹھویں سے تیرہویں صدی میں ہر وہ چیز جس کا تعلق علم سے تھا جیسے کتابوں کا ذخیرہ، کاتبوں کی بھرمار، کاغذکے انبار، قلم اور ذہنی پرورش کے لیے مناسب مواقع اور فضا مہیا کی جاتی تھی۔ یہاں کا خلیفہ الحکم الثانی خود بہت بڑا عالم اور دانش ور تھا۔ اس کی لائبریری میں چار لاکھ کتابیں تھیں جس کی صرف کیٹلاگ چالیس جلدوں میں تھی۔ لائبریری میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے خلیفہ الحکم ان کے حاشیے میں خود نوٹ لکھا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اس عروس البلاد کے امراء بھی کتابیں جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ متمول لوگوں کی ذاتی لا ئبریریوں میں پانچ ہزار سے دس ہزار کتابوں کا ذخیرہ ہوتا تھا۔
آیئے دیکھتے ہیں اس بارے میں امریکہ کا صفِ اول کا مصنف واشنگٹن ارونگ (Irving) کیا کہتا ہے :
Spain was a region light amid Christian Europe, externally a warrior power fighting for existence; internally a realm devoted to literature, science and the arts, (Alhamara, 1983 edition, page 255, Boston)
ذرا غور فرمائیں سرزمینِ اندلس میں پہلی بار کسی انسان نے گلائیڈر سے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی، اندلس سے ہی عربی ہندسوں کا تعارف یورپ میں ہوا، کاغذ کا تعارف بھی یورپ میں یہاں سے ہوا، دنیا کی سب سے بڑی لائبریری یہاں پر تھی، تقابلی مطالعۂ ادیانِ عالم پر سب سے پہلی کتاب یہاں پر لکھی گئی، سرجیکل انسٹرومنٹس یہاں پر سب سے پہلی بار بنائے گئے، ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ یہاں پر ایجاد ہوئے، وہ طبیب جس نے پہلی بار آنکھ کے retina کا صحیح سائنسی فنکشن بیان کیا وہ قرطبہ کا قاضی اور طبیب ابن رشد تھا، اور وہ اندلس کا طبیب ابن الخطیب ہی تھا جس نے پہلی بار طاعون کے وبائی ہونے کا ذکر اپنی کتاب میں کیا تھا۔
آٹھویں صدی سے تیرہویں صدی تک اسلامی تہذیب دنیا کی سب سے روشن اور ترقی یافتہ تہذیب تھی، جس کے مقابلے میں یورپ اپنے دورِ جہالت سے گزر رہا تھا۔ قرطبہ پانچ سو سال تک یورپ کا علمی، ثقافتی اور سیاسی مرکز رہا۔ شہر کے اندر 37 کتب خانے تھے، لاتعداد کتب فروش، آٹھ سو پبلک حمام، اور چھ سو مسجدیں تھیں۔ نیز یہاں 150 اسپتال، 600 سرائے، 80 ہزار دکانیں، ایک لاکھ 30 ہزار مکان اور 10 ہزار عالی شان عمارتیں تھیں۔ یورپ میں قرطبہ پہلا شہر تھا جہاں سڑکوں پر روشنی کا انتظام اتنا اچھا تھا کہ رات کے وقت انسان دس میل تک بڑے آرام سے چہل قدمی کرسکتا تھا۔ یہ دسویں صدی کی بات ہے، جبکہ لندن میں سات سو سال بعد سڑکوں پر روشنی کے لیمپ لگائے گئے تھے اور پیرس میں لوگ کیچڑ میں چلا کرتے تھے۔
خلیفہ الحکم الثانی نے قرطبہ میں 27 فری اسکول کھول رکھے تھے، یہاں کی یونیورسٹی میں اس نے چیئر قائم کی تھیں جن کے لیے پروفیسر مشرق کے اسلامی ممالک سے لائے جاتے تھے۔ خلیفہ کی کتابوں کی الماریاں خوشبودار لکڑی کی تھیں، جبکہ اس کا فرش سنگِ مرمر کا تھا، اس کی دیواریں alabaster کی تھیں۔ کتابوں کے وسیع ہال کے ساتھ والے کمرے میں کاتب کتابت کا کام کرتے تھے، جن کے ساتھ جلدساز اور جاذب نظر، عمدہ اور رنگین سیاہی میں سرورق بنانے والے تھے۔ کاتب اچھی کوالٹی کے کاغذ پر کتابت کرتے تھے۔ اس کے چیف لائبریرین کا نام تالید تھا، جبکہ اس کی معاون ایک خاتون لبنیٰ تھی۔ ایک خاتون فا طمہ خود اچھی قلمکار تھی اور اعلیٰ وعمدہ کتابوں کی تلاش میں لمبے لمبے سفر کیا کرتی تھی۔ شہر میں ایک خاتون عائشہ نام کی تھی جس کا اپنے گھر میں ذاتی کتب خانہ تھا۔
خلیفہ الحکم الثانی کی لائبریری کا مقابلہ یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کینٹر بری سے کریں جہاں پانچ ہزار کتابیں، اور فرانس کے شہر کلونی (Cluny) کی لائبریری میں 570 کتابیں تھیں۔ قرطبہ کی کتابوں کی دکانوں میں عورتیں بھی کتابت کرتی تھیں۔ ہر سال یہاں 70,000 کتابوں کی کتابت کی جاتی تھی۔ شہر میں کاغذ کی متعدد ملیں تھیں جن میں اعلیٰ معیار کا کاغذ بنایا جاتا تھا۔ امیر لوگوں کے ذاتی کاتب ہوا کرتے تھے۔ کتابوں کے بازار اور دکانیں جامع مسجد کے آس پاس تھیں۔
مشہور مصنف فلپ ہٹی کے مطابق خلیفہ ہشام کے وزیراعظم محمد ابن ابی عامر کے حکم پر فلاسفی اور علم نجوم کی کتابیں جن کو علماء نے غیر اسلامی قرار دیا تھا، نذرِ آتش کردی گئیں۔ ایک اور مصنف کے مطابق ملکہ ازابیلا کے عیسائی مشیر Cisneros کے حکم پر 18 دسمبر 1499ء کو قرآن پاک کے علاوہ ستّر ہزار اسلامی کتب کو غرناطہ کے ایک چوک میں نذرِ آتش کیا گیا۔
راقمِ مضمون نے آکسفورڈ کی باڈلین لائبریری میں ابن سینا، الرازی، ابوالقاسم زہراوی اور دیگر مصنفین کی دستی کتابوں کا آج سے بیس سال قبل مطالعہ کیا تھا۔ یہاں پین یا پینسل لانے کی اجازت نہ تھی۔ جن کتابوں کا مطالعہ مقصود تھا جہازی سائز کی کیٹلاگ سے ان کوریڈنگ روم میں منگوایا جا سکتا تھا۔
اندلس کے علماء ایک سے زیادہ مضمون کے ماہر ہوا کرتے تھے، چنانچہ ایک عالم جو پیشے کے اعتبار سے قاضی تھا وہ طبیب، شاعر، فلاسفر، اور مترجم بھی تھا۔ ایک عالم ابن الخلیل نے گیارہ سو کتابیں، اور ابن حزم نے 400 کتابیں تصنیف کیں۔ مصر کے عالم طبیب ابن نفیس نے طب کے موضوع پر تین سو جلدیں تیارکرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ صرف 80 شائع کرسکا۔
(dictionary of scientific biography vol 9, page 603)
عربی زبان اُس وقت بین الاقوامی زبان تھی۔ سائنس، فلسفہ، طب، کامرس، ادویہ، لٹریچر کی تمام کتب عربی میں لکھی جاتی تھیں۔ یورپ میں جو شخص عربی بول سکتا تھا اسے دانش ور سمجھا جاتا تھا۔ عربی زبان کی فرہنگ بھی بہت وسیع تھی، جس عالم کی کتاب عربی میں منظرعام پر آجاتی اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہوگی۔
اندلس کے کئی شہروں میں یونیورسٹیاں تھیں جیسے قرطبہ، اشبیلیہ، طلیطلہ اور غرناطہ۔ یونیورسٹی آف قرطبہ کی بنیاد خلیفہ عبدالرحمٰن سوم نے رکھی تھی۔ یہ دسویں اور گیارہویں صدی میں شہرۂ آفاق جامعہ تھی۔ اس کے کئی شعبہ جات تھے، جیسے: اسٹرانومی، ریاضی، طب، تاریخ، ادب، عربی، قرآن، دینیات اور قانون۔ یہ قرطبہ کی جامع مسجد کے اندر واقع تھی جہاں دس ہزار طالب علم تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مشرق کے اسلامی ممالک کے کئی پروفیسر یہاں مدرس تھے۔
یونیورسٹی آف غرناطہ کی بنیاد امیر یوسف ابوالحجاج نے 1340ء میں رکھی۔ اس کی عمارت کے بڑے گیٹ کے سامنے سیمنٹ کے شیر بنے ہوئے تھے۔ یہاں میڈیسن، اسٹرانومی، فلاسفی اور تھیالوجی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کا ایک منتظم مشہور عالم، شاعراور مصنف لسان الدین خطیب (1313۔ 1374ء) تھا جس نے ساٹھ کتابیں تصنیف کی تھیں۔ ایک عمارت کے بڑے گیٹ پر لکھا ہوا تھا:
’’دنیا چار چیزوں کے سہارے زندہ ہے: عالموں کے علم سے، بڑے لوگوں کے انصاف سے، نیک لوگوں کی دعائوں سے، اور بہادروں کی بہادری سے“۔
یورپ میں کوئی عام کرنسی نہیں تھی جبکہ اندلس میں دینار (سونے کا) اور درہم (چاندی کا) عام استعمال ہوتے تھے۔ یورپ میں جب سکوں کا رواج شروع ہوا تو انہوں نے اپنے سکوں پر اندلس کے سکوں کے نقش و نگار دو سو سال تک استعمال کیے۔ اٹلی میں جو سب سے پہلا سکہ رائج ہوا اس کا نام Byzantini Saracenati تھا۔ یہاں دوسرے لفظ کے معنی مسلمان کے ہیں، اس کے اوپر عربی میں حروف تھے، قرآن کی آیت، رسول پاکﷺ کا نام اور سن ہجری میں تاریخ لکھی ہوئی تھی۔
پھر برطانوی عجائب گھر میں نمائش کے لیے ایک سکہ رکھا ہوا ہے جو اینگلو سیکسن کنگ اوفا ریکس (Offa Rex 757-796) نے بنا یا تھا۔ یہ سکہ 1841 ء میں دریافت ہوا تھا جو دینار کی مکمل نقل ہے۔ اس کے درمیان لا الٰہ الا اللہ، الم یکن لہ احد لکھا ہے۔ سکہ کے اردگرد محمد رسول اللہ لکھا ہے، سکہ کے پچھلی طرف درمیان میں لکھا ہے محمد رسول اللہ، اور کنگ اوفاریکس اس کے اردگرد لکھا ہے بسم اللہ، 157 ہجری میں بنایا گیا جو کہ 773ء عیسوی بنتا ہے۔
طلیطلہ، اشبیلیہ اور قرطبہ میں کشادہ سڑکیں، اسٹریٹ لائٹ اور پانی کے نکاس کا عمدہ انتظام تھا، جبکہ لندن اور پیرس میں کچی سڑکیں تھیں۔ مسلمان تو کئی صدیوں سے صابن استعمال کرتے آرہے تھے مگریورپ میں لوگوں نے اسے چودھویں صدی میں استعمال کرنا شروع کیا۔
دماغوں کو جِلا بخشنے والے اس علمی ماحول میں اندلس میں کئی نامور ماہرینِ علم نجوم (البطروجی، ابن افلاح، الزرقالی، المجریطی)، طبیب حاذق (ابن ظہر، الزہراوی)، فلاسفر (ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد)، جغرافیہ دان (البقری)، بوٹانسٹ (ابن بیطار)، تاریخ دان (ابن خلدون) پیدا ہوئے جو اپنے اپنے میدان میں سکہ بند عالم تھے۔ یاد رہے کہ اسلامی اسپین میں کئی شہروں میں رصدگاہیں تھیں جیسے الزرقالی نے ٹولیڈو کی رصدگاہ میں ٹولیڈن ٹیبلز تیار کیے جس کو عربی میں زج کہا جاتا ہے۔ جبکہ جابر ابن فلاح نے اشبیلیہ کی جامع مسجد کے مینار کو رصدگاہ کے طور پر استعمال کیا جو اب Giralda Tower کہلاتا ہے۔ راقم السطور نے اس مینار کو 1999ء میں اسپین کی سیاحت کے دوران دیکھا تھا۔ تین سو فٹ اونچے مینار کے اندر شروع ہی میں دیوار پر عربی زبان میں تختی آویزاں ہے جس پر اس کی مختصر تاریخ کندہ کی ہوئی ہے۔ مینار کے اندر سیڑھیاں نہیں بلکہ Ramp ہے تاکہ موذن گھوڑے پر سوار ہوکر اوپر جاکر اذان دے سکے۔ اُس وقت تک دریافت شدہ سیاروں کی مناسبت سے اس میں سات کمرے تھے۔
……٭٭٭……
جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جمود کو اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد، اور ملّت کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے تو صدیاں یوں ہی گم ہوجاتی ہیں۔
(’’آوازِ دوست‘‘، از مختار مسعود۔ ص: 24،25)