ڈینگی سے کیسے بچا جائے؟

”صرف ایک دن میں اتنے پلیٹ لیٹس (Platelets) کم ہوجاتے ہیں ڈاکٹر صاحب، حیرت ہے! مطلب، ایک دن میں ہی…؟“
”جی ہاں، ایسا ہی ہوتا ہے۔“
”نئی نئی باتیں سننے میں آرہی ہیں آج کل تو“۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائیں۔
تیز بخار، سر میں درد، آنکھوں کے ڈھیلوں کے پیچھے درد…اگر یہ علامات ہیں تو ڈینگی سے متعلق ضرور سوچنا شروع کردیں۔
گرم مرطوب موسم اور بارشوں کے فوراً بعد تقریباً آدھی دنیا ڈینگی کی زد میں آجاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 10 کروڑ سے 40 کروڑ کے درمیان انسان ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈینگی وائرس کے مریضوں کی 70 فیصد تعداد ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان بھی ڈینگی وائرس کے علاقے میں شامل ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو، چند سال پہلے لاہور ڈینگی کی شدید لہر سے متاثر ہوا تھا۔
ڈینگی ایک وائرس ہے اور مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ مچھر بھی مادہ مچھر… جی ہاں، ملیریا میں بھی مادہ مچھر اور ڈینگی میں بھی… اب یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
صاف پانی پر پلنے والے یہ مچھر دن کے اوقات میں انسانوں کا خون پینے کے لیے کاٹتے ہیں، اور ان کے پسندیدہ اوقات ہیں صبح سویرے اور سورج ڈوبنے کا وقت۔
مچھر کے کاٹنے کے بعد ضروری نہیں کہ آپ ڈینگی کا شکار ہوجائیں۔ کبھی کبھی صرف ہلکا سا بخار اور جسم میں درد ہوتا ہے جو خودبخود ایک آدھ دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت سارے لوگوں کو تو پتا بھی نہیں چلتا، اور خون پینے کے لیے مچھر اُن کو دوبارہ کاٹ لے تو وہ افراد انجانے میں ڈینگی پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں، جس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔
مچھر کے کاٹنے کے بعد اگر آپ کو تیز بخار ہو، الٹیاں ہوں، سر میں درد ہو اور خاص طور پر آنکھوں میں…تو یقیناً ڈینگی وائرس کا سوچیں۔ یہ علامات مچھر کے کاٹنے کے تین تا سات دن بعد محسوس ہوتی ہیں اور کچھ دن بعد بخار اتر جاتا ہے، مگر تھکن محسوس ہوتی ہے۔ ڈینگی کے دوران اگر خون کا ٹیسٹ کروائیں تو پلیٹ لیٹس بعض اوقات کم نظر آتے ہیں۔ اور اگر بہت کم ہوں تو ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یکایک پلیٹ لیٹس کی شدید کمی عام طور پر بخار اترنے کے بعد ہی ملتی ہے، اور مریض بخار نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کی بات پر توجہ نہیں دیتے۔ اور اگر پلیٹ لیٹس بہت کم ہوجائیں تو جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے جو یقیناً ایک تشویشناک بات ہے، اور اس کو ہی ڈینگی ہیمرجک فیور (Dengue Hemorrhagic fever) کہا جاتا ہے، جس میں خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی کے ساتھ ساتھ خون کی نالیوں سے پانی باہر نکل کر جسم میں سوجن پیدا کردیتا ہے، یعنی Leaky Vessels… اور مریض شاک (Shock) میں چلا جاتا ہے۔ پھر آئی سی یو کیئر، شاک کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈاکٹروں کی جدوجہد، بار بار پلیٹ لیٹس لگانے کی ضرورت، پلازما وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہت کم لوگ ڈینگی کی وجہ سے شاک میں جاتے ہیں، مگر جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں سے چند موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عام طور پر ڈینگی وائرس سے لوگ دو ہفتے میں تندرست ہوجاتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے، بلکہ یہ خود ہی ٹھیک ہوجانے والی بیماری ہے، مگر وہ دس بارہ دن شدید تکلیف اور مشکل کے ہوتے ہیں، اس لیے اس مرض کو کنٹرول کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
بخار اور درد کے لیے پیراسٹامول ہی استعمال کی جانی چاہیے، اور ڈینگی میں بروفن اور اس قبیل کی دیگر ادویہ بالکل استعمال نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ ڈینگی میں ویسے ہی پلیٹ لیٹس کم ہوجاتے ہیں، اور درد کی وہ دوائیں جو NSAID ( بروفن، پونسٹان) وغیرہ ہیں، پلیٹ لیٹس کے فنکشن کو متاثر کرتی ہیں، اس لیے ان کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔
جسم میں پانی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، اس لیے پانی کے ساتھ ساتھ پھلوں کے رس کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ڈینگی وائرس کی 4 اقسام انسانوں کو متاثر کرتی ہیں، اور ایک بار جس قسم کے ڈینگی سے متاثر ہوجائیں اس سے زندگی بھر کے لیے حفاظت مگر باقی 3 سے متاثر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ اور اگر دوسری بار ہو تو شدت زیادہ ہوتی ہے۔
متاثرین میں نومولود بچوں سے لے کر مرد و عورت کی تمیز کے بغیر کسی بھی عمر کا کوئی انسان شامل ہوسکتا ہے۔
ماں اگر ڈینگی سے متاثرہ ہو تو بچے میں بھی آنول کے ذریعے یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔
بخار چڑھنے سے دو دن پہلے اور دودن بعد تک متاثرہ انسان دوسرے انسانوں میں اسے پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس لیے مریض جب تک مکمل طور پر صحت مند نہ ہو جائےڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے اُسے مچھر دانی کے اندر ہی رہنا چاہیے۔
ماحولیاتی بچاؤ کے لیے صاف پانی کے برتنوں کو ڈھانک کر رکھیں۔گملوں اور دیگر جگہوں یعنی ٹائروں وغیرہ وغیرہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، خاص طور پر بارش کے بعد۔ کچرے اور دیگر اس طرح کی جگہوں کو مچھر مار اسپرے سے صاف کرتے رہیں۔
مادہ مچھر ایک مرتبہ خون چوسنے کے بعد انڈے دینے تک کئی مرتبہ خون چوستی ہے اور انڈے کئی دنوں تک محفوظ رہتے ہیں جب تک ان کا پانی سے رابطہ نہ ہو جائے۔ پانی سے رابطہ ہونے پر وہ انڈے نئے مچھر بن جاتے ہیں۔ اس لیے خاص طور پر بارشوں کے بعدبار بار اسپرے مہم ضروری ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ڈینگی ایک وائرل بیماری ہے، تو اس کے لیے کسی اینٹی بایوٹک دوا کی بالکل ضرورت نہیں۔
آپ بخار، سر درد وغیرہ وغیرہ کی علامات کو علامتی علاج سے درست کریں اور صرف پیراسیٹامول ہی استعمال کریں۔ جسم میں پانی کی مقدار کا خیال رکھیں، اور فریش جوسز کا استعمال کریں۔
ڈاکٹر کے مشورے سے خون کے ٹیسٹ کرواکر ڈینگی کنفرم کریں، جس میں اوّلین دنوں میں ڈینگی NS1 ،اور کچھ دنوں کے بعد ڈینگی سیرولوجی Ig M اور I g G کیے جاسکتے ہیں۔
اس بیماری سے بچاؤ کے لیے صفائی، صاف پانی کے برتنوں کو ڈھانک کر رکھنا اور پانی جمع نہ ہونے دینا ہے۔ جسم کو کپڑوں سے مکمل ڈھانک کر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا کرم فرمائیں، آمین۔