وزیراعظم شہباز شریف کی بے بسی کا اعتراف

جیسی سیاسی قیادت ہمیں میسر ہے وہ غیروں کا محتاج ہی رکھے گی

مستحکم، مربوط اور مضبوط پاکستان ہم سب کی خواہش ہے۔ لیکن اس کا حصول محض خواہشات پیدا کرنے سے ممکن نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ایک واضح سوچ، فکر، وژن رکھنا، اور عملی جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم مستحکم پاکستان بنانے کی خواہش رکھتے ہیں مگر ہمارا انداز خواہشات، جذبات، نعرے بازی یا مصنوعی انداز میں اختیار کی جانے والی مختلف حکمت عملیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ہم کوئی مضبوط قومی تشخص قائم کرسکے اور نہ خود کو معاشی میدان میں خودکفیل بناسکے۔ آج جب ہم پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی بحران کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں بنیادی نکتہ مستحکم پاکستان کی بحث ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارا بحران محض سیاسی نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہم ایک بڑے ریاستی بحران سے دوچار ہیں۔ بحران کی یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر مسائل کا حل نہ تو سیاسی تنہائی میں ممکن ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک فریق مسائل حل کرسکتا ہے۔ یہ کام اجتماعی حکمت عملی سے جڑا ہے جو تمام فریقین کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔

وزیراعظم شہبازشریف کے بقول میرے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور میں ایک چھینک بھی آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتا۔ اُن کے بقول بطور وزیراعظم میں بے بس ہوں اور میرے پاس اپنے فیصلے کرنے کی کوئی طاقت نہیں ہے، اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ملک کیسے اپنے فیصلے کرسکتا ہے! شہبازشریف کی یہ کہانی بے بسی کی کہانی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ جب دنیا میں ہم خود کو بھکاری کے طور پر پیش کرتے ہیں تو پھر دنیا بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جیسے ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل حکمران طبقے نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر خوشی کے شادیانے بجائے، اور اب یہ گلہ کہ ہم اُن کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ باتیں اپنی قیادت کی کوتاہی یا کمزوری کو بھی نمایاں کرتی ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ایک بنیادی نکتہ یہی ہے کہ اگر ہمیں واقعی اپنی حیثیت کو منوانا ہے تو پہلے اپنی داخلی ساکھ یا اس سے جڑے مسائل یا معاملات کو ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔ کیونکہ داخلی سیاسی اور معاشی استحکام کے بغیر ہم دنیا کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ ایک طرف سیاسی کمزوری، اور دوسری طرف بدترین معاشی کیفیت میں ہم کو بند گلی میں ہی جانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجوہات میں خارجی معاملات سے ہٹ کر ہماری اپنی داخلی پالیسیاں یا ہمارا اپنا طرزعمل کیا ہے؟ کیونکہ اپنی غلطیوں کوتسلیم نہ کرنا اور دوسروں یا عالمی برادری کو خرابی کا ذمہ دار قرار دینا درست حکمت عملی نہیں، اور نہ ہی اس عمل سے ہم بہتری کا راستہ تلاش کرسکیں گے۔ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ معاشی ترقی ہی ہماری کامیابی کی کنجی ہے اور اسی نکتہ پر ہماری توجہ بھی ہونی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا معاشی ترقی کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہوسکتی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہوگا، کیونکہ معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں سب سے زیادہ توجہ اپنے سیاسی اور ادارہ جاتی نظام پر ہی دینا ہوگی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جمہوری نظام وہ ضروری اصلاحات کرنے سے قاصر ہے جو اس وقت قومی ضرورت کے زمرے میں آتی ہیں۔ جب بھی ہم نے سخت اصلاحات کرنے کی کوشش کی، اور ان اصلاحات میں طاقت ور طبقوں پر زور ڈالنے کی کوشش کی تو ہم سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارا کمزور سا سیاسی اور جمہوری نظام اصلاحات کے بغیر چل رہا ہے، اور جو اصلاحات ہورہی ہیں وہ بھی نمائشی زیادہ ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے سے کون روک رہا ہے اور وہ کون سی قوتیں ہیں جو ہمیں اپنے فیصلے کرنے سے روک رہی ہیں؟ اصل میں یہاں طاقت کے جو مراکز ہیں جو سیاست سمیت تمام شعبوں میں موجود ہیں وہ کسی بڑی تبدیلی… جس میں اُن کو بھی قربانی دینی پڑے گی… کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جو ہمیں ریاستی اور حکومتی سطح پر درپیش ہے۔ جو لوگ بہتر تبدیلی کا خاکہ رکھتے ہیں یا کچھ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ریاست اور حکمران طبقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں، اور ان کے مقابلے میں ایسے لوگ جو اپنے مفادات کے ساتھ طاقت ور قوتوں کے مفادات کو بھی تحفظ دے سکتے ہیں، وہی اقتدار کی سیاست میں غالب نظر آتے ہیں۔ ہماری قومی قیادت میں یہ سوچ موجود ہے کہ ہم کیڑے مکوڑے ہیں اور ہماری کوئی حیثیت نہیں، وہ کبھی بھی ہمیں اوپر لے کر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس طرز کی قیادت ہمیشہ ہمیں غیروں کا محتاج ہی بنائے گی۔

پاکستان کو سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی اور قانونی محاذ پر بہت کچھ بدلنا ہے اور ایسے کڑوے فیصلے کرنے ہیں جو آج کے حالات میں ناگزیر ہوگئے ہیں۔ ان سخت اقدامات کو نظرانداز کرکے ہم کینسر جیسے مرض کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں خود کو بھی طاقت ور بنانا ہے اور عوام کو بھی یہ امید اورطاقت دینی ہے کہ ہم برے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اچھے حالات پیدا کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل روایتی حکمت عملیوں سے ممکن نہیں۔ ہمیں بڑے بڑے پلازہ، شاپنگ مال، موٹر ویز، اورنج ٹرین جیسے مہنگے منصوبے نہیں بلکہ قومی سطح پر بڑی تعداد میں چھوٹی یا درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ اپنی نوجوان نسل کو اس معاشی جنگ میں چھوٹی صنعتوں کی مدد سے آگے لے کر چلنا ہے اور اپنی تعلیم کو ہنر اور صنعت کے ساتھ جوڑنا ہے۔ اس کے لیے ملک میں مختلف شعبہ جات کے حوالے سے طویل مدتی، وسط مدتی اور چھوٹی مدت کی منصوبہ بندی یا واضح روڈمیپ درکار ہے۔ بدقسمتی سے یہاں فیصلہ ساز افراد یا اداروں کی ترجیحات میں اور ملکی ترجیحات میں فرق ہے۔ جو ہمیں قومی سطح پر درکار ہے اس کی ہم نفی کرتے ہیں، اورجو ہمیں نہیں کرنا چاہیے اس کو کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ جس کی بنیاد پر ریاست کی رٹ قائم ہوتی ہے یا اس پر عمل درآمد ممکن ہوتا ہے، خود اپنے نظام میں ایک بڑی سرجری کا تقاضا کرتا ہے۔

ایک ایسا پاکستان جو سیاسی اورجمہوری ہو، اور جس میں فلاحی ریاست کے پہلو نمایاں ہوں اور لوگوں کو وہ اپنی تنظیم سازی کی مدد سے قانون کی حکمرانی کے تصور کو مضبوط دکھا سکے۔ سیاسی اورمعاشی نظام جس میں اولین فوقیت عوامی مفادات ہوں، اس کو کیسے اپنی سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ جو طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جو طاقت ور لوگوں کے مفادات کے گرد گھومتا ہے اس میں ملک میں موجود ایک بڑی تعداد کے حقیقی مسائل کا حل موجود نہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے، پیسوں کی وصولی یا عالمی امداد کا کھیل ہمارے جیسے ملکوں میں طاقت ور طبقوں کی عیاشی کا کھیل بن گیا ہے۔

کیونکہ اگر اس پوری عالمی امداد کے کھیل میں عام طبقوںکے حالات کو بدلنا مقصود نہیں تو پھر اس طرح کی عالمی مالیاتی امداد پاکستان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے گی۔ یہ سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی کہ ہم آج کے حالات میں عالمی معاشی جکڑ بندی کے متبادل کس نظام کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں، اور ایسا ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہم پر مالیاتی اداروں کا دبائو کم ہو اور ہم اپنے فیصلے آزادانہ بنیادوں پر کرسکیں۔

یہ بات ہر سطح پر تسلیم کی جانی چاہیے کہ اگر پاکستان کو مثبت طور پر آگے بڑھنا ہے تو ایسا موجودہ نظام اور حکمت عملی کے تحت نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان میں جو غیر معمولی حالات ہیں ان کا حل بھی غیر معمولی اقدامات کی مدد سے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح اپنی سیاست اور جمہوریت کو عوامی یا ریاستی مفادات کے پیش نظر اہمیت دینا ہوگی۔ افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی، اور ترقی کے عمل میں معاشرے میں موجود کمزور لوگوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہی مہذب معاشروں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ معاشرہ جو بڑی تیزی سے ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہوگیا ہے اس کا علاج سب کو مل کر ڈھونڈنا ہوگا۔ نوجوان نسل میں مستقبل کے حوالے سے جو مایوسی اور غیر یقینی ہے اس کا علاج تلاش کرکے ان میں امید، ترقی اور خوشحالی کی کرنوں کو پیدا کرنا ہی ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہماری ساکھ کو قائم کرسکے گا۔