کراچی میں پھر ڈاکو راج

منظم جرائم کے دور کی واپسی ،زہزنی کی وارداتوں میں 14 سال سے کم عمر بچے ملوث پائے گئے ہیں جو زیادہ تشویش ناک بات ہے

کراچی ایک بار پھر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہے، شہر ناپرساں میں اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ بھتا مافیا بھی سرگرم ہورہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں منظم جرائم کا دور واپس آرہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں رینجرز اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک بار پھر شہر میں جرائم پر نظر رکھنے میں ناکام ہیں۔ پولیس اتنی ناکام ہے کہ چند دنوں میں دورانِ ڈکیتی مزاحمت پر 8افراد قتل ہوئے، یہاں تک کہ اب شہر میں بنے ریسٹورنٹس میں لوگ کھانا کھانے اور بینک سے پیسے لے کر گھر جانے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں منور چورنگی گلستان جوہر کا واقعہ اندوہناک ہے۔ ذیشان افضل دو بچوں کے باپ تھے اور اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ گھر سے آئس کریم کھانے باہر نکلے تھے کہ نامعلوم مسلح افراد نے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو لوٹنے کی کوشش کی۔ اہلِ خانہ کے مطابق ذیشان افضل ایک پڑھے لکھے شخص تھے جنہوں نے برطانیہ سے ڈبل ایم اے کیا تھا اور کچھ عرصہ قبل ہی کراچی منتقل ہوئے تھے۔ وہ کراچی میں کڈنی سینٹر میں ملازمت کرتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈکیتی کرنے کے لیے آنے والے کمسن بچے تھے۔ اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے، اس سے قبل کئی وارداتوں میں 14سال سے کم عمر بچے ملوث پائے گئے ہیں  جو زیادہ تشویش ناک پہلو ہے۔ اگر یہ نسل خراب ماحول، بے روزگاری یا کسی بھی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ گئی تو شہر کا آئندہ کیا منظر ہوگا؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ کورنگی میں پیش آیا جہاں گھر کی دہلیز پر17 سالہ طلحہ ولد محمد اسلم نامی نوجوان کو قتل کردیا گیا۔ مقتول طلحہ کے بھائی ذوہیب علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے بھائی رات کا کھانا کھاکر موبائل فون لے کر گھر سے باہر نکلے تھے کہ رات پونے نو بجے گھر کے باہر گولی چلنے کی آواز آئی۔ ”میں گھر سے باہر نکلا تو چھوٹا بھائی طلحہ زخمی تھا جو اسپتال لے جاتے ہوئے فوت ہوگیا۔“ ذوہیب علی کو اہلِ محلہ نے بتایا کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے طلحہ سے موبائل فون چھینا، مزاحمت پر اسے گولی ماری اور فرار ہوگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ڈکیتی میں بھی کمسن بچے ملوث تھے۔ کورنگی میں مقامی صحافی کے ہلاک ہونے کے بعد سیکورٹی بڑھانے کے دعوے کیے گئے تھے، اور اگلے ہی روز کراچی کے علاقے کورنگی کاز وے پر ڈاکوؤں نے ناکہ لگاکر لوٹ مار کی، درجنوں شہریوں سے موبائل فون، نقدی اور زیورات چھین لیے گئے۔ اسی طرح ابھی حال کی بات ہے کہ عوامی کالونی کے نجی بینک سے 70 لاکھ روپے لوٹ لیے گئے تھے۔ شہر میں رواں  ہفتے یہ خبر بھی گردش کرتی رہی کہ ایک نیا ڈکیت گروپ بھی متحرک ہوا، جسے چڈا گروپ کے نام سے جانا جارہا ہے۔ یہ چڈا گروپ کھلے عام مصروف ترین شاہراہوں پر ٹریفک اور رش کے دوران بھی بلاخوف و خطر لوٹ مار میں مصروف رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نئے چڈا گروپ کی وارداتوں کی وڈیوز بھی وائرل ہوئیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار 2 کارندے نارتھ ناظم آباد بلاک اے کے کمرشل علاقے میں بینک کے عین سامنے دن دہاڑے اسلحہ کے زور پر شہری سے لوٹ مار کررہے ہیں۔ واردات کی وڈیو ایک شہری کی جانب سے بنائی گئی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ایک دوسری سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسلحہ کے زور پر ایک شہری کو لوٹنے کی کوشش دیکھی جا سکتی ہے، تاہم شہری اپنی ہوشیاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ نئے چڈا گروپ کے متحرک ہونے پر شہریوں میں خوف و ہراس پھیلا رہا، بہت شور مچنے اور سوشل میڈیا پر کراچی پولیس پر بہت تنقید ہوئی تو اب خبر آئی ہے کہ شاہراہ نورجہاں پولیس نے لوٹ مار کرنے والے ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور ملزم کی شناخت سہیل مسیح ولد مورس مسیح کے نام سے ظاہر کی ہے، جب کہ ملزم کا دوسرا ساتھی عدنان شہزاد عرف عدنان البرٹ ابھی تک فرار ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال میں اب تک 60 سے زائد افراد کو دورانِ ڈکیتی قتل کیا گیا جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد کو ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے زخمی کیا۔ اس کے ساتھ گھروں میں ڈکیتی کی 183 جبکہ فیکٹریوں، دفتروں اور دکانوں میں 424 وارداتیں الگ ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کی رپورٹڈ وارداتوں کی تعداد 2043 ہے۔ اِس سال اب تک 11 ہزار 749 شہریوں سے موبائل فون چھینے جا چکے ہیں، 69 گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں ہوچکی ہیں اور چوری ہونے والی گاڑیوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو رواں سال اب تک 19 ہزار 832 موٹرسائیکلیں چھیننے کی وارداتیں رپورٹ ہوچکی ہیں جبکہ موٹرسائیکل چوری کی 1854 وارداتیں ہوئی ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز میں مستقل اضافہ ہورہا ہے جس کا اعتراف جولائی میں ایک پریس کانفرنس میں پولیس کے سربراہ جاوید اوڈھو کرچکے ہیں۔ اور یہ تو وہ وارداتیں ہیں جن کا ذکر اس لیے آجاتا ہے کہ یہ کسی نہ کسی طرح رپورٹ ہوگئی ہیں، ہر مہینے درجن سے زیادہ لوگوں کا تو صرف مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے موبائل چھین لیا گیا، کسی سے نقدی چھین لی گئی، ڈکیت اتنے آزاد ہیں کہ سرجانی ٹائون میں چنگ چی پر بیٹھے لوگوں کو بھی لوٹ رہے ہیں۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں ایک شہری کوچنگ سینٹر میں پڑھانے کے بعد چنگ چی پر گھر جارہا تھا، دو لوگ اس کے برابر میں آکر بیٹھ گئے اور 7 ہزار روپے چھین لیے، اور اسے اس بات پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا کہ اس کے پاس موبائل کیوں نہیں ہے۔
سٹی پولیس کے سربراہ جاوید اوڈھو یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں سے کراچی کی طرف نقل مکانی بھی جرائم میں اضافے کا ایک اہم عنصر ہے کیونکہ وہ یہاں ذاتی دشمنیاں بھی طے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ہتھیاروں اور منشیات کی آسانی سے دستیابی بھی ان عوامل میں سے ایک ہے۔ ”منشیات اور جرائم کے سنڈیکیٹس کے دستانے میں ہاتھ ہیں“۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی کراچی کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ”سندھ حکومت نے کراچی کے عوام کو مسلح ڈکیتوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، چار دنوں میں مسلح ڈکیتی کی وارداتوں میں 8 نوجوان قتل کردیئے گئے جو لمحہ فکریہ اور سندھ حکومت، محکمہ پولیس و متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ لوٹ مار کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ پولیس وزراء کے پروٹوکول میں لگا ہوا ہے۔ سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں نے اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو جماعت اسلامی عوام کے ساتھ مل کر تھانوں کا گھیراؤ کرے گی۔“
اس وقت شہر یتیم ہے اور یہاں ڈاکو راج ہے، انتظامیہ نام کی کوئی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملتی، پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے اور یہ سوال زبان زدِ عام ہے کہ اس صورتِ حال پر کون قابو پائے گا؟ ایک بڑے بجٹ کے ساتھ رینجرز فورس اس شہر میں موجود ہے، وہ کیا کررہی ہے؟کیا کراچی اور کراچی کے تین کروڑ سے زیادہ شہریوں کا مقدر یہی ہے کہ وہ اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر اپنی قیمتی اشیا اور جانیں قربان کرتے رہیں؟اور جو بچ جائیں وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی نااہلی اور عدم توجہ کے باعث ڈینگی مچھر کا شکار ہوجائیں؟