ہم ڈوبے نہیں،ڈبوئے گئے ہیں:تباہ کن سیلابی ریلے

سندھ کے 24 اضلاع میں شدید تباہی

حقیقت اور غیب کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے، لیکن تمام سیلاب متاثرین، اہلِ سندھ کی اکثریت، اہلِ دانش و بینش، سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر لگ بھگ متفق ہیں کہ حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے سندھ کے 24 اضلاع میں جو شدید تباہی آئی ہے، سیلابی ریلوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ بے گھر اور دربدری کی زندگی سے دوچار ہوئے ہیں اس کی سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کی نااہلی، نالائقی، بے حسی اور بدعنوانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک عام رائے بن چکی ہے کہ ’’ہم ڈوبے نہیں بلکہ ڈبوئے گئے ہیں‘‘۔ اگر حکومتی ادارے اور مقامی انتظامیہ پیشگی اطلاعات کے باوجود تباہ کن سیلابی ریلوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اس کی صرف اور صرف واحد وجہ یہی قرار دی جارہی ہے کہ ہر سال حکومتِ سندھ کی جانب سے نہروں کی صفائی، سیم نالوں کی تعمیر و مرمت اور بندوں کے پشتوں کی مضبوطی کے لیے ہر ضلع کے لیے جو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم مختص کی جاتی ہے اسے ضلعی انتظامیہ کے افسران، محکمہ آب پاشی کے حکام اور منتخب عوامی نمائندے باہم ملی بھگت سے کھاپی لیتے ہیں۔ امورِ آب پاشی کے ماہرین کے مطابق سندھ بھر میں زیادہ نہیں بلکہ ہر سال کے بجائے صرف اس سال ہی جب پیشگی طور پر سیلاب یا شدید بارشوں کی محکمہ موسمیات کی جانب سے اطلاع سامنے آچکی ہو تو 20 تا 25 ارب روپے نہروں اور بندوں کے پشتوں کی مضبوطی، صفائی اور تعمیر و مرمت کے لیے خرچ کردیئے جائیں تو ہرگز ہرگز اتنی ہولناک تباہی و بربادی کا اہلِ سندھ کو سامنا نہ کرنا پڑے، جتنا زیادہ وہ اس وقت کرنے پر مجبور ہیں، اور قبل ازیں 2010ء اور 2011ء میں بھی اسی طرح سے کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود صوبہ سندھ کے اقتدار پر گزشتہ 15 برس سے براجمان پیپلز پارٹی کی قیادت، صوبائی حکومت اور ماضی میں متاثرہ اضلاع کے موجودہ متعلقہ ضلعی افسران نے کوئی سبق لینا بالکل گوارا نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس ان کی ہوسِ شکم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ متاثرینِ بارش و سیلاب اور عوام بجاطور پر یہ تنقید کررہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت میں قائم کردہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کام محض آفاتِ ارضی و سماوی کی اطلاع دینے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے اعداد و شمار پیش کرنے تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ دوسری جانب ہر ضلع اور تحصیل میں تمام تر وسائل اور سہولیات سے بہرہ ور بیورو کریٹس کا کام بھی صرف اسی حد تک دکھائی دیتا ہے کہ جس شہر یا علاقے میں سیلابی ریلوں کے آنے کا خطرہ ہوتا ہے وہ اس ایریا میں اچانک ہی شہر خالی کرنے کا اعلان کرانے میں لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور وہ افراتفری کے عالم میں مع اہلِ خانہ محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے لگ جاتے ہیں، جس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرانسپورٹرز خوف زدہ عوام کو خوب بلیک میل کرتے ہیں، وہ من مانے اور معمول سے بہت زیادہ کرائے وصول کرتے ہیں، لیکن اس موقع پر مقامی متعلقہ انتظامیہ کے ذمہ داران کا دور دور تک کوئی نام و نشان یا اتاپتا نہیں ہوتا۔ حالیہ ایام میں سندھ کے سیلاب سے متاثرہ تمام اضلاع، شہروں اور قصبات میں یہی کچھ ہوا ہے۔ خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ، جوہی ہو یا پھر نوشہروفیروز، شکارپور، کندھ کوٹ، کشمور، خیرپور میرس، گھوٹکی وغیرہ کے متاثرہ علاقے… یا پھر سیلابی ریلوں سے متاثرہ دیگر مقامات… ہر جگہ حکومتِ سندھ اور ضلعی افسران کی بے حسی، ڈھٹائی، بے حمیتی، اور غفلت شعاری کے بہت واضح بدنما مظاہر متاثرین، عوام اور میڈیا کو دیکھنے کے لیے میسر آئے ہیں۔ سندھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شدید تنقید بھی کی گئی ہے، لیکن وہ حکومتِ سندھ اور ضلعی بیوروکریسی کے افسران ہی کیا جو کسی طور پر اپنی اصلاح کرلیں اور متاثرینِ سیلاب کی حالتِ زار کو دیکھ کر اپنے دل میں رحم اور جذبۂ ہمدردی کو بیدار کرلیں۔ بس سب کے سب ذمہ داران ہوسِ زر میں مبتلا ہیں، وگرنہ متاثرہ علاقوں کے باشندوں کو نقل مکانی کے لیے سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ مہیا کردی جاتی تو وہ اتنے زیادہ خوف زدہ اور ہراساں ہوتے اور نہ ہی ٹرانسپورٹرز انہیں بلیک میل کرنے کی ہمت و جسارت کرپاتے۔ یوں لگتا ہے کہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت سے حکمران ہی نہیں ہمارا تاجر طبقہ بھی یکسر بے نیاز اور لاپروا ہوچکا ہے۔ سندھ کے متاثرہ اضلاع میں حکومتی رٹ نہ ہونے اور انتظامی غفلت کی وجہ سے روزمرہ اشیائے صرف سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں ہول سیل ڈیلرز اور ریٹیلرز (تھوک فروش اور خوردہ فروش تاجران) نے من مانے طور پر اضافہ کردیا ہے یا انہیں مستقبل میں مزید مہنگا کرکے فروخت کرنے کی خاطر ضروری اشیا کی بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ شروع کرلیا ہے۔ قانون کی عمل داری نہ ہونے کی بنا پر ہر منافع خور خوب کھل کھیل رہا ہے کیوں کہ اسے بہ خوبی علم ہے کہ اس پر گرفت کرنے والے تو خود ’’کرپشن، کرپشن‘‘ کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں جو افراد اپنے متاثرہ گھروں کی تعمیر و مرمت کرانا چاہتے ہیں وہ یہ جان کر مایوس اور حیران رہ جاتے ہیں کہ پہلے تو تعمیراتی سامان مارکیٹ میں موجود ہی نہیں ہے، اور اگر اسے بلیک مارکیٹ سے خریدا جائے تو سیمنٹ فی بوری 2 ہزار روپے، وائٹ سیمنٹ 5 ہزار روپے فی بوری، اینٹ فی ہزار 8 تا 10 ہزار روپے مل پاتی ہے اور وہ بھی بڑی تلاش و جستجو اور تحقیق کے بعد، بسااوقات دکاندار یا ڈیلر کی منت سماجت کرکے۔ یہ تو وہ چند اور گنے چنے مسائل اور پہلو ہیں جن کا اس رپورٹ میں ذکر کیا جارہا ہے، ورنہ درحقیقت سیلابی ریلوں اور شدید بارشوں سے متاثرہ سندھ کے اضلاع کے باشندے اس وقت اور بھی بہت سارے مسائل، تکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ ہر ضلع میں متاثرینِ سیلاب کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جو امدادی سامان (راشن، خیمے، مچھر دانیاں وغیرہ) آیا تھا ہولناک بارشوں کے سلسلے کے باوصف ہر ضلع کے خوفِ خدا سے عاری افسران نے اسے اپنے مخصوص کردہ مقامات پر ذخیرہ کیا۔ راقم کے ضلع کے ایک متعلقہ افسر کے بارے میں ایک انتہائی معتبر اور مؤقر ذریعے نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے ہاں آنے والے خیموں کو ایک مختص کردہ مقام پر محفوظ کرکے رکھ چھوڑا ہے اور اس افسر کا اندازہ ہے کہ ان خیموں کے اسے کم از کم 40 لاکھ روپے فروخت کرنے کی صورت میں بآسانی مل جائیں گے۔ یہ تو محض ایک بدنما مثال ہے، ورنہ مزید پہلوئوں پر لکھا جائے تو صفحات کم پڑ جائیں۔ بدانتظامی، بدعنوانی، بے حسی اور دانستہ غفلت شعاری… آخر ہمارے ہاں کا نظام کب اور کس طرح سے سدھرے گا؟ اصلاحِ احوال کب ممکن ہوسکے گی؟ کیا یہ آزمائش ہمارے اعمالِ بدکی بدولت آگے چل کر عذاب کی صورت میں تو ہمیں اپنی گرفت میں نہیں لے لے گی؟ سوچ سوچ کر ذہن مائوف ہونے لگتا ہے۔ ظالم طبقہ جان لے کہ
حذر! اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں