سیلاب کی تباہ کاری اور موسمیاتی تبدیلی خوراک کے بحران کا خطرہ

اصل سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے ماحولیاتی جرائم کی سزا پاکستان جیسے ملک کیوں بھگتیں؟

حالیہ تباہ کن سیلابوں نے تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر یا بے گھر کیا ہے، دس لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے علاوہ بالائی علاقوں میں پلوں، سڑکوں، شاہراہوں، کمرشل جائداد کی تباہی اور سندھ بلوچستان میں ریل کی پٹری کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اشیا کی نقل وحمل میں خلل واقع ہوا ہے۔ معیشت کو ہونے والے نقصان کا اصل تخمینہ ابھی لگایا جارہا ہے۔ اربوں ڈالر کا نقصان ہمارے کمزور اقتصادی حالات کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔ یہ سب کچھ انتہائی شدید موسم کے باعث ہوا ہے اور یہ واقعات ہمیں مستقبل میں بھی پیش آسکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات ہمارے پانی، خوراک اور توانائی کے ذخائر پر سنگین منفی اثرات لائیں گے۔

جغرافیائی ماحول کا ہی جائزہ لیا جائے تو پاکستان دس ارضیاتی خطے رکھتا ہے جن میں سندھ کا ڈیلٹا، پنجاب میں میدانی اور پوٹھوہاری اور روہی خطہ، نہری علاقے، ریگستان، پہاڑی علاقے اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان کے 160اضلاع کے مخصوص اور مختلف خدوخال اور ماحولیاتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے ایک جیسا بندوبست کارآمد نہیں ہے۔ مسائل کے حل کے لیے بہترین لوکل گورنمنٹ نظام بنیادی شرط ہے۔ 2022ء کا ایکٹ کہتا ہے کہ کونسل، کارپوریشن ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی معاونت کریں گی، لیکن اس میں بھی مکمل وضاحت موجود نہیں ہے کہ بچائو، امداد، تقسیم اور پھر بحالی کی سرگرمیوں کا نگران کون ہوگا؟ حالیہ سیلاب قدرتی آفت سے زیادہ انسانوں کے ہاتھوں کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت دنیا ماحولیاتی تباہی کا سامنا کررہی ہے اور پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس تباہ کن چیلنج سے نمٹنے کی ہماری ریاستی مشینری اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ سرکاری ادارے کسی وژن، منصوبے اور باہمی ربط کے بغیر کام کررہے ہیں۔

دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے، ایک وہ حصہ جو گرین ہائوس گیسوں کا سبب ہے اور دوسرا جسے ان کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے۔ یہ قدرتی نہیں بلکہ انسان کے ہاتھوں انسانوں کی تباہی کا دور ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور نفع خور ملٹی نیشنل ادارے ایک جانب، اور پس ماندہ اقوام دوسری جانب کھڑی ہیں۔ ملک میں اِس سال مارچ اپریل میں گرم ترین موسم تھا، درجہ حرارت 53 درجے تک جاپہنچا تھا جس کے بعد نمی کے اضافے سے بارشوں کو سیلاب لانا ہی تھا۔ اس سال سندھ میں 784 فیصد اور بلوچستان میں 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے۔ کوہِ سلیمان کے برساتی ریلوں نے جنوب مغربی پنجاب، شمالی بلوچستان اور جنوبی پختون خوا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ گلیشیر پگھلے تو گلگت بلتستان متاثر ہوا، چترال اور سوات میں تباہی ہوئی۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ آبی گزرگاہوں پر تعمیرات نہیں ہوں گی جو سیلابی پانی کے قدرتی بہائو کو روکیں۔ لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ فیڈرل فلڈ کمیشن نے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان پر کام شروع کیا تھا۔ ایک پلان مرتب کیا گیا جس پر 332 ارب روپے لاگت آنی تھی، اس کا ابتدائی منصوبہ بھی تیار ہوا، لیکن نوکر شاہی اور بدعنوان عناصر نے عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ ملک میں اس وقتNDMA، NDMC، NFRCC، فیڈرل فلڈ ریلیف کمیشن کام کررہے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ ریسکیو جیسے تیسے مکمل ہوگیا ہے، اب ریلیف کا کام شروع ہوا ہے۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی اپیل پر 131 ارب روپے جمع ہوئے ہیں، دوست ممالک اور عالمی این جی اوز مدد کو آرہی ہیں، لیکن اتنے پیسے نہیں کہ تباہ حالوں کی دادرسی کی جاسکے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے ماحولیاتی جرائم کی سزا پاکستان جیسے ملک کیوں بھگتیں؟ حالیہ سیلاب سے تقریباً 10ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

اسی سال مصر میں کانفرنس آف پارٹیز 27 منعقد ہورہی ہے، وزیر خارجہ بلاول اس میں شریک ہوں گے، اُن کے پاس تعمیر نو کا بہترین منصوبہ ہونا چاہیے، آئی ایم ایف سے بھی مفتاح اسماعیل کو الگ سے ریلیف پیکیج پر بات چیت کرنی چاہیے کہ ملک بھر میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، بارشوں اور سیلاب سے رابطہ سڑکیں تباہ ہوئیں جبکہ شمالی میں کم اور جنوبی علاقوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں، جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں پانچ سو گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ کچھ علاقوں میں بارش 1500ملی میٹر ہوئی۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکوں کا بڑ احصہ متاثر ہوا، بارشوں اور سیلاب سے دس لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔ پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے تباہی ہوئی۔ آبادی، فصلوں اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچا۔ پاک آرمی اور نیوی کے ہیلی کاپٹر امدادی کارروائیوں کے لیے زیراستعمال ہیں۔ ملک بھر میں آرمی کے 147 ریلیف کیمپ قائم ہیں، پاک فضائیہ نے سیلاب سے متاثرہ 1521 افراد کو ریسکیو کیا، جبکہ پاکستان نیوی نے 10ہزار سیلاب متاثرین کو ریسکیو کیا ہے اور ریسکیو کی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں۔

حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 1265 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں فصلوں کی تباہی نے کسانوں پر قیامت ڈھائی ہوئی ہے، اور جو کسان اس تباہی سے بچ گئے ہیں، بھارت سے زرعی تجارت سے اُن کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیلاب متاثرین کے لیے بھارت سے سبزیاں درآمد کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، لیکن وزیر خزانہ بھارت کے ساتھ تجارت کھلنے کے امکانات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ملک میں ٹماٹر اور پیاز کی فصلوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب سے پیاز کی فصل اپریل سے جون میں آ جاتی ہے، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیاز کی پہلی فصل تیاری کے مراحل میں تھی، جسے شدید نقصان پہنچا ہے، اس لیے پیاز کی اگلی فصل کی تیاری میں بھی تاخیر ہوگی۔ اسی طرح ٹماٹر کی پیداوار خیبرپختون خوا میں زیادہ ہے۔ اسے بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پیاز اور ٹماٹر درآمد کیے جانے چاہئیں۔ حکومت نے ایران اور افغانستان سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات کی اجازت دی ہے لیکن یہ پاکستان کی ضرورت سے کم ہے۔ حکومت نے متحدہ عرب امارات سے 13 ہزار ٹن پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے کے پرمٹ جاری کردیے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے جو پیاز اور ٹماٹر درآمد کیے جائیں گے وہ دراصل بھارت سے متحدہ عرب امارات پہنچیں گے اور پھر انہیں پاکستان لایا جائے گا۔ اس طریقے سے درآمدات کرنے میں زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور ڈالر کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان اوربھارت کے درمیان تجارت کبھی رکی ہی نہیں۔ صرف یہ فرق پڑا ہے کہ پہلے جو سامان پاکستان اور بھارت بارڈر کے ذریعے پاکستان آتا تھا اب وہ متحدہ عرب امارات کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ پاکستانی سپر اسٹورز پر بھارتی برانڈ کی اشیا کی موجودگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے تقریباً 10 ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے، جس میں 1.36 ارب ڈالر کی درآمدات اور 8.66 ارب ڈالر کی برآمدات شامل ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے جو اشیا درآمد کرتا ہے ان میں تقریباً 90 فیصد کا تعلق بھارت سے ہے۔ ادارہ برائے شماریات کے مطابق جولائی 2021ء سے مارچ 2022ء تک بھارت نے پاکستان کو 0.0021 ملین ڈالر کی ادویہ، فارماسوٹیکل سامان اور قیمتی پتھر برآمد کیے ہیں، اور پاکستان نے اسی دورانیے میں بھارت کو 28 کروڑ ڈالر کی برآمدات کی ہیں، جن میں کیمیکلز اور ادویہ کا سامان سرفہرست ہے۔ اگر ان اشیا کی تجارت کی جا سکتی ہے تو دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی تجارت کی بھی اجازت دی جانی چاہیے۔ سیلاب سے چاول کی فصل اور گودام بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور آنے والے دنوں میں پاکستان کو ہائبرڈ چاولوں کی کمی کا سامنا ہوگا۔ بھارت سے تجارت کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اسے برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ بھارت ہمارے ڈالر اپنے ملک میں لے جاتا رہے اور پاکستان سے اس کے بدلے برابر کی ایکسپورٹ نہ کرے۔

ملک بھر میں جاری حالیہ بارشوں اور سیلاب سے چاول اور کپاس سمیت موسم گرما کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کے بعد مون سون کے موسم کے اختتام پر ملک میں خوراک کے بحران کا امکان ہے۔ سیلاب سے موجودہ فصلوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ آنے والے مہینوں میں گندم کی بوائی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جون میں مون سون کے آغاز سے لے کر اب تک طوفانی بارشوں سے ملک کی زیادہ تر زرعی زمین اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ بارشوں اور سیلاب نے دیگر سبزیوں کے ساتھ کپاس، چاول، کیلے اور پیاز کی فصلیں بھی تباہ کردی ہیں۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ صرف سندھ میں زراعت کے شعبے کو ہونے والا نقصان 500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس صورتِ حال سے ملک کی فوڈ سیکورٹی کو بھی سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوںمیں زیادہ تر زرعی زمینیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جسے مکمل طور پر نکالنے میں تقریباً تین سے چار ماہ لگیں گے۔ حکومت کو اس پانی کی نکاسی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ اس کے بعد اگلی گندم کی فصل کی بوائی کرنی ہے۔ چاول کی فصل کو نقصان اور گندم کی بوائی سے متعلق غیر یقینی صورت حال پاکستان کی فوڈ سیکورٹی کے لیے ممکنہ خطرات ہیں۔ تقریباً 45 فیصد کپاس بھی سیلاب کی نذر ہوگئی ہے، تخمینہ ہے کہ کپاس کی 40 سے 45 فیصد فصل کو اس غیر متوقع سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے فصلوں کے نقصان کا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے کیوں کہ کچھ اضلاع میں فصلیں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں۔ اگلے ماہ رپورٹ میں کپاس کو ہونے والے نقصان کے درست اعداد و شمار سامنے آئیں گے۔ تاہم پنجاب میں حکام کی جانب سے شیئر کیے گئے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 36 لاکھ 70 ہزار ایکڑ پر کپاس کی بوائی کی گئی تھی جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے حکام سے ڈیٹا طلب کیا گیا ہے۔ نقصان کا درست اندازہ لگانے کے لیے اجلاس اگلے ماہ متوقع ہے۔ سندھ میں کپاس کی فصل بڑے پیمانے پر تباہ ہوگئی ہے۔ کپاس کی مقامی پیداوار کو پہنچنے والے نقصان سے اِس سال درآمدی دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا، اس سے ہمارے درآمدی بل پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ سیلابوں کے بعد بیرونِ ملک سے کپاس کی 20 لاکھ مزید گانٹھیں منگوانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، مقامی مارکیٹ میں کپاس کی سپلائی میں تقریباً 32 فیصد کمی کا امکان ہے جس سے اجناس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔ زرعی نقصانات کے علاوہ مون سون کے موسم میں ملک کے لائیو اسٹاک کے شعبے کو بھی نقصان پہنچا ہے جس میں صرف سندھ میں 9,197 مویشی ہلاک اور اس شعبے سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کا 6.4 ارب روپے کا نقصان شامل ہے۔ بلاشبہ اس وقت صورت حال سنگین سے سنگین تر ہے اور حالیہ قومی سنگین اقتصادی اور سیاسی بحران میں شدت آتی جارہی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔