طے ہوا تھا کہ ان کالموں کے مطلوب قارئین ہماری دنیائے ابلاغیات کے نَو بالغ مبلغین ہوں گے۔ شک ہوا تھا کہ شاید صرف یہی طبقہ اِن کالموں کو نہیں پڑھتا۔ مگر پچھلے دنوں اس شک میں شبہ پڑگیا۔ ہم اپنے کمرۂ مطالعہ میں کسمسا رہے تھے کہ جناب عطاء الرحمٰن چوہان کا فون آگیا۔ صدر، تحریکِ نفاذِ اردو پاکستان کا۔ ’’حضور! فیصلہ ہوا ہے کہ مجلس مذاکرہ کی صدارت کے لیے آپ کو زحمت دی جائے‘‘۔ ہم دنگ رہ گئے: ’’بھائی! کون سی مجلسِ مذاکرہ؟ کس کا فیصلہ؟ کیسی زحمت؟ صدارت تو ہم ملک کی بھی کرنے کو تیار ہیں، کہ کرنا کچھ نہیں ہوتا۔ ہینگ یا پھٹکری لگائے بغیر بھی رنگ چوکھا ہی آتا ہے۔ مگر یہ کیسی صدارت؟ جس میں ہمیں زحمت بھی پڑے گی!‘‘
معلوم ہوا کہ یہ بھی قیامِ پاکستان کے جشنِ الماسی کا سلسلہ ہے۔ راولپنڈی/ اسلام آباد ایڈیٹرز کونسل، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں17 اگست کو صحافیوں، کالم نگاروں، ادیبوں اور شاعروںکا ایک مجمع اکٹھا کررہی ہے۔ جمع کرتے ہیں وہ رقیبوں کو۔ اس مجمع کے آگے ہمیں پیش کیا جائے گا کہ ایسے ہوتے ہیں پاکستان کی قومی زبان لکھنے، پڑھنے اور بولنے والے جنونی۔ دیکھو ’اِنھیں‘ جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو!
محفل میں محترم مظہر برلاس، محترم نیر سرحدی، محترمہ فہمیدہ بٹ، محترم نجف شیرازی اور محترم فدا حسنین شیرازی سمیت ورقی و برقی ابلاغیات سے متعلق بہت سے خواتین و حضرات جمع تھے۔ بات تھی ذریعۂ ابلاغ اُردو کی۔ سو، ہمارا تو وہی حال ہوا جو شبنم رومانی کا ہوا ہوگا:
وہ بھی تھے، ذکر بھی تھا رنگِ غزل کا شبنمؔ
پھر تو میں نے سرِ محفل وہ گُل افشانی کی
بات یوں شروع کی کہ جناب! آپ نے جب بھی اور جو بات بھی کہی وہ ’ہونٹوں نکلی اور کوٹھوں چڑھی‘۔ اِدھرکہی اُدھر زباں زدِ خاص و عام ہوگئی۔ جو اصطلاح استعمال کی، رائج ہوئی۔ آپ نے جو الفاظ برتے، عوام بھی انھیں برتنے لگے۔ آپ کے قارئین و ناظرین آپ کے کہے پر ایمان کی حد تک ایقان رکھتے ہیں۔ آپ جو خبر دے دیں وہ پتھر پر لکیر بن جاتی ہے۔ خواہ کوئی جعلی بصریہ ہی تازہ خبرکہہ کر چوبیس گھنٹے متواتر ذرائع ابلاغ پر کیوں نہ چلاتے رہیں۔ وہ بصریہ جس میں چالیس کوڑے کھائی ہوئی لڑکی اُٹھے اور پُھدر پُھدردوڑتی چلی جائے۔ جعل ثابت ہوجانے کے باوجود لوگ آج بھی اس جھوٹی خبر پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ پیش قدمی کرتے ہیں اور رائے عامہ آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ آپ ہی ہیں جو اس قوم کی رائے بناتے بھی ہیں اور بگاڑتے بھی۔ سو، آپ سے خطاب کرکے بڑی خوشی ہورہی ہے۔
قبل ازیںجب دوسرے لوگ بات کررہے تھے تو ہم نے محترم نیرؔ سرحدی صاحب سے ایک کاغذ طلب کرکے ’غلطی ہائے مضامین‘ کے کچھ نکات نوٹ کرلیے تھے۔ اللہ نے لاج رکھی (صحافیوں کی) کہ عین ہمارے خطاب سے چند ثانیے پہلے وہ کاغذ اُڑ کر مجلسِ مذاکرہ کی لمبی میز تلے جاگھسا۔ مرد و زن اُسے ڈھونڈا کیے مگر نہیں ملا۔ مجبوراً ہمیں اُن کی خامیوں کے بجائے خوبیوں ہی پر خطاب کرنا پڑا۔
خیر، جو باتیں وہاں نہ کہہ سکے یہاں کہے دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارے قومی ادارے قومی زبان سے قطع تعلق کو قابلیت کی علامت جانتے ہیں۔ بھلا ’ایڈیٹرز کونسل‘ کو ’مجلسِ مدیران‘ کہنے میں کیا حرج تھا؟ ’نیشنل پریس کلب‘ کو ’قومی ایوانِ ابلاغ‘ کہا جائے تو کیا قوم برا مان جائے گی؟جامعات کے جن جدید شعبوں میں ماہرینِ ابلاغیات تیار کیے جاتے ہیں اگر اُن کو ’ڈپارٹمنٹ آف میڈیا سائنسز‘ کے بجائے ’شعبہ علومِ ابلاغیات‘ کہیں تو کیا فرق پڑے گا؟ فرق یہ پڑے گا کہ قوم تک ابلاغ کا فریضہ سر انجام دینے والوں کا رشتہ قوم اور قومی زبان سے مضبوط ہوجائے گا۔ اب عملاً سب تسلیم کرچکے ہیں کہ اس قوم تک اپنے خیالات کے مؤثر ابلاغ کا ذریعہ قومی زبان ہے، انگریزی زبان نہیں۔ ذہن و زبان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار ہوں یا نہ ہوں، مگر انگریزی نشریات کو اس قوم نے قبول کیا نہ انگریزی چینل یہاں چل سکے۔ آخر ہمارے بچوں کو وہ مضامین انگریزی میں کیوں پڑھائے جارہے ہیں جن کا عملی استعمال اُردو میں ہے۔
ہمارے قومی ادارے قوم سے قطع تعلق کرکے کچھ ہوائی قلعوں میں معلق ہوگئے ہیں۔ ان قلعوں کی دُنیا ایک بند دُنیا ہے۔ قلعوں کے اندر کی دنیا اور ہے باہر کی دنیا اور۔ باہر کھڑی قوم کو اندر کی زبان سمجھ میں نہیں آتی۔ اندر بسنے والے ان قلعوں سے باہر والوں کی بات نہیں سمجھ پاتے۔ دونوں کے درمیان ایک ’لسانی باڑ‘ حائل ہے۔ ہمارے بچے ہمارے ’تعلیمی قلعوں‘ میں جو کچھ پڑھتے ہیں وہ باہر نکل کر بیان نہیں کرسکتے۔ کون سمجھے گا؟ ہمارے انتظامی دفاتر کی زبان، ہمارے تعلیمی اداروں کی زبان، قانون سازی کی زبان اور عدالتی فیصلوں کی زبان اس قوم اور اس ملک کی زبان نہیں۔ جو زبان ہے وہ عوام کی سمجھ سے باہر ہے، کیوں کہ یہ باہر کی زبان ہے، بہت باہر کی۔ اس پورے خطے سے باہر کی۔ یہ سات سمندر پار کی زبان ہے۔ اس زبان کا اس زمین سے کوئی رشتہ نہیں۔ آخر اسے ملک پر مسلط کیے رکھنے کا کیا جواز ہے؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اُن استعماری آقاؤں کی زبان ہے جنھوں نے دوصدیوں تک ہمیں غلام بنائے رکھا۔ جن سے آزادی کا ’جشنِ الماسی‘ ہم منا رہے ہیں۔ ہمارے قومی اداروں میں ہماری قومی زبان کا گزر نہیں۔ ایسے میں کیسے مان لیا جائے کہ یہ ہمارے ’قومی ادارے‘ ہیں۔
قومی اداروںکو قوم سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ قومی جذبات سے، قومی احساسات سے اور قومی زبان سے… تب ہی انھیں قوم کی حقیقی حمایت حاصل ہوسکے گی۔ ایسا ہوجائے تو پوری قوم اپنے اداروں کی پشت پر ہوگی، احساسِ اپنائیت اور احساسِ ملکیت کے ساتھ۔ ورنہ اگر آج ہم اپنے کسی انتظامی یا تعلیمی ادارے میں چلے جائیں تو وہاں چسپاں اعلانات، دفتری کاغذات اور در و دیوار پر لگی ہوئی تختیوں کی زبان دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی غیر ملک میں آگئے ہیں۔ دنیا کے جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، اُن کے قومی اور تعلیمی اداروں کی زبان وہی ہوتی ہے جو اُن کی قومی زبان ہے۔ اُن کی قوم کو اپنے قومی یا تعلیمی اداروں میں کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ایک سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر اُن کی قومی زبان ایک ہی ہوتی ہے۔ وہی زبان جو پوری قوم کے باہمی رابطے کی زبان ہوتی ہے۔
قومی اداروں سے قوم کی ہم آہنگی کے لیے لسانی ہم آہنگی ضروری ہے۔ یک دلی پیدا کرنے میں یک زبانی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمیں بدیسی زبان سے نجات حاصل کرکے دیسی زبانوں کو فروغ دینا چاہیے۔ گلی گلی انگریزی سکھانے والے اداروں کے بجائے ہمیں پاکستانی زبانیں سکھانے والے ادارے درکار ہیں۔ سات سمندر پار کی پرائی زبان رٹنے والے بچوں کو بلوچی، سندھی، پشتو اور پنجابی زبانیں نہیں آتیں۔ اس وجہ سے اپنی زبانیں اُنھیں پرائی زبانیں لگتی ہیں۔ قومی زبان اُردو، قوم میں مختلف زبانیں بولنے والوں کو ایک دوسرے کی زبان سکھانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اُردو سندھی بول چال، اُردو پشتو بول چال اور اُردو بلوچی بول چال وغیرہ پر مشتمل مختصر تعلیمی نصاب پوری قوم کو، پوری قوم کی زبان سکھا سکتا ہے۔ قومی زبان اور تمام پاکستانی زبانوں میں مشترک الفاظ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اُردو اور پنجابی کا اچھا خاصا ذخیرۂ الفاظ مشترک ہے۔ ہمارے نشریاتی ادارے اپنے سامعین و ناظرین کو پاکستانی زبانیں سکھانے کا کام بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان ہی دیگر پاکستانی زبانوں کو ملک میں فروغ دے گی۔ انگریزی زبان اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی۔انگریزی کا کام ہمیں ایک دوسرے سے کاٹنا تھا، وہ اپنا کام کرچکی۔ اُردو کا کام ہمیں جوڑنا ہے سو یہ کام وہ سرکاری سرپرستی کے بغیر ہی کررہی ہے۔