اعجاز سید المرسلین فی تذکرۃ زین العابدین

زینت عابدین و اتقیا، امام زین العابدین علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (36ھ۔ 94ھ) رضی اللہ عنہم اہلِ بیت کی ممتاز شخصیات میں سرفہرست ہیں۔ آپ روئے زمین پر موجود جمیع حسینی سادات کے جدِ اعلیٰ بھی ہیں۔ پیش نظر کتاب ”اعجاز سید المرسلین فی تذکرۃ زین العابدین“ المعروف ”امام زین العابدین“ کی حیات و افکار پر مشتمل مفتی اعجاز بشیر صاحب کا تازہ علمی وتحقیقی شاہکار ہے۔
مذکورہ بالا کتاب 15ابواب پر مشتمل اور 800 صفحات پر محیط ہے، جس میں امام زین العابدین کی حیات و افکار کے تمام گوشوں کا بخوبی احاطہ کرنے کی ایک نہایت کامیاب سعی کی گئی ہے۔ کتاب کے موضوعات میں امام زین العابدین کا نام و نسب، پیدائش، حلیہ مبارک، لباس، مشائخ و اساتذہ، تلامذہ و فیض یافتگان، حصولِ علم کا ذوق، حدیث و فقہ میں مقام، عبادات، خوفِ الٰہی، اوصاف، مناجات و دعائیں، دیگر معمولات، وفات و تدفین، ازواج و اولاد، منسوب تالیفات، فرامین و ملفوظات، کرامات، علم قرأت، تفسیر اور فقہی آراء و اقوال، متفرقات، امام زین العابدین کے منتخب قصائد و اشعار، امام زین العابدین اور مناقبِ خلفائے راشدین، واقعۂ کربلا اور امام زین العابدین اورقصیدہ فرزدق وغیرہ شامل ہیں۔
فاضل مؤلف و محقق نے اس کتاب کی تالیف و تحقیق میں بیشتر انحصار متقدمین ائمہ و کبار مؤرخین کے بیانات پر کیا ہے۔ یعنی اپنی تحقیق کی بنیاد مصادرِ اصلیہ (Primary Sources) پر رکھی ہے اور پھر مصادرِ ثانویہ سے استفادہ کیا ہے۔ اکابرین کے بیانات کو بھی حقائق و شواہد کے تجزیے کے بعد قبول یا رد کیا گیا ہے۔ اہل ِتشیّع کی روایات کو ان کے معتمد مصادر سے نقل کیا ہے اور اپنی تحقیق کے نتیجے میں عیاں ہونے والی موضوع روایات اور واقعات سے کلیۃً اعراض کیا ہے۔ اگر کہیں کسی ضعیف روایت کو درج کیا ہے تو اس کی علمی کیفیت بھی بیان کردی ہے۔
مفتی اعجاز صاحب نے اپنی اس کتاب کی تالیف و تحقیق میں روایات ہی کو پیش نظر نہیں رکھا ہے بلکہ درایت سے بھی خوب کام لیا ہے۔ اور بنیادی طور پر معروضی و تجزیاتی اسلوب اختیار کیا ہے۔ انھوں نے بیشتر اختلافی و تنقیدی مقامات پر غیر جانب دار اسلوب میں مضبوط دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ مثلاً امام زین العابدین کی پیدائش کے حوالے سے 23 تا 38 ہجری تک کے مختلف اقوال ملتے ہیں۔ جمہور محدثین کی رائے 38 ہجری کے حق میں ہے، جب کہ مفتی صاحب نے روایت و درایت کی بنیاد پر 36 ہجری کو ترجیح دی ہے۔ اسی طرح بعض روایات بہت مشہور ہیں لیکن درایتاً درست نہیں ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مفتی اعجاز صاحب اس کتاب میں پہلی بار امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ کے بارے میں تفصیلی تحقیق منظر عام پر لے کر آئے ہیں۔
فاضل مؤلف نے امام زین العابدین کے مشائخ و تلامذہ کی ایک جامع تحقیقی فہرست مرتب کی ہے، جو اب تک کی سب سے بڑی اور مدلل فہرست ہے ۔ مزید یہ کہ ان افراد کا قدرے مفصل تذکرہ بھی زیبِ قرطاس کیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ اساتذہ کا مختصر اور جامع تعارف اور تلامذہ کی نسبتِ تلمذ کو بیان کرنے کے ساتھ ہی محدثین کے نزدیک ان کی علمی و استنادی حیثیت پر بھی کلام کیا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر اس سے پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ مزید برآں امام زین العابدین کی ازواج اور نسلِ مبارک کے بارے میں نئے زاویوں کے ساتھ کچھ مزید تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں۔
پانچویں باب میں امام زین العابدین کی تحصیلِ علم کے مختلف نظائر اور واقعات کو مناسب ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد ”فقہائے مدینہ“ میں آپ کی شمولیت کے گوشے کو پہلی مرتبہ مفصل تحقیق اور ائمہ کی تائیدات کے ساتھ اجاگر کرتے ہوئے فاضل محقق نے واضح کیا ہے کہ محدثین کے نزدیک قرونِ اولیٰ کے فقہا میں امام زین العابدین بھی شامل تھے۔
ساتویں باب ”زین العابدین اور مناقبِ خلفائے راشدین“ میں آپ کے اقوال کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ امام زین العابدین کے دل میں خلفائے راشدین کی کیسی محبت اور احترام جاگزیں تھا کہ آپ خلفائے راشدین کے بارے میں کسی قسم کی نازیبا گفتگو تک کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ امام زین العابدین اور خلفائے راشدین سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ مختصر باب بالخصوص قابلِ توجہ ہے۔
دسویں باب میں امام زین العابدین کی وفات و تدفین کے بارے میں مفصل گفتگو کی گئی ہے اور اس ضمن میں پائی جانے والی چند اہم غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر آپ سے منسوب مزارات کی حقیقت پر بھی خاصی بحث کی گئی ہے۔ کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں مختلف جداول(Tables) بنائے گئے ہیں جن سے اختلافی امور کو سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ پھر ہر باب کے آخر میں خلاصہ ٔ بحث اور مؤلف کا نقطہ ٔنظر بھی قابلِ مطالعہ ہے۔
ایک باب امام زین العابدین کے منتخب فرامین و ملفوظات پر مشتمل ہے، منتخب ملفوظات کو عربی متن، اردو ترجمے اور مکمل حوالے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن فرامین و ملفوظات کو محض نقل ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کے مضامین پر سیر حاصل بحث بھی کی گئی ہے جو فائدے سے خالی نہیں۔ اس ضخیم کتاب کا سب سے مختصر باب ’’کرامات‘‘ کا ہے۔ فاضل محقق نے امام زین العابدین کی چند ہی کرامات کا ذکر کیا ہے اور بہت سی ایسی روایات کا، جو نقل در نقل ہوتی چلی آرہی تھیں، روایتاً اور درایتاً جائزہ لیتے ہوئے ان سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
چودھواں باب امام زین العابدین کے علم قرأت، تفسیر اور فقہی آرا و اقوال سے متعلق ہے۔ اس باب میں پہلے علم قرأت کے بارے میں معتمد اقوال کو ترتیب وار جمع کیا گیا ہے، اس کے بعد قرآن مجید کی مختلف آیات کے بارے میں آپ کے تفسیری نکات و فرامین کو ترتیب قرآنی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔ آخر میں فقہی امور سے متعلق آپ کی چند مستند آراء کو سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں عرب کے مشہور شاعر فرزدق کا شہرئہ آفاق قصیدہ (جو امام زین العابدین اور اہل بیت کی مدحت پر مشتمل ہے) مکمل تحقیق اور تجزیے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ (باقی صفحہ 33)
مفتی اعجاز صاحب نے اس کتاب میں امام زین العابدین سے متعلق جتنی اور جیسی مستند معلومات فراہم کردی ہیں ان میں اضافہ کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ سماجی علوم کے طلبہ بالخصوص علومِ اسلامیہ کے ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کے طلبہ کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ روایات کا تجزیہ اور ان پر نقد کس طرح کیا جاتا ہے اور یہ کہ اپنے نقطہ ٔنظر کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہوئے خلاصۂ بحث کو کس طرح پیش کیا جانا چاہیے۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ تحقیقی مقالہ ہے جو عام طور پر پی ایچ۔ ڈی کی سند کے لیے لکھے جانے والے مقالوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
مفتی اعجاز صاحب دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں اور تصنیف و تالیف سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ اس سے قبل بھی متعدد اہم موضوعات پر کتب و رسائل تصنیف و تالیف کرچکے ہیں۔ قرآن مجید، سیرتِ طیبہﷺ، احادیثِ نبویہ اور اہلِ بیتِ اطہار آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔ اہل بیتِ اطہار کے حوالے سےآپ کی متعدد کاوشیں منصہ ٔشہود پر آچکی ہیں جن میں: امام علی رضا، امام موسیٰ کاظم، اہلِ بیت کے امام شامل ہیں۔
اس عمدہ علمی و تحقیقی کتاب کی تالیف و اشاعت پر مفتی صاحب لائقِ تحسین و قابلِ صد ستائش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین