جہات الاسلام ششماہی تحقیقی مجلہ

پاکستان میں صوری اور معنوی لحاظ سے خوب صورت ترین مجلات میں سرفہرست مجلہ ’’جہات الاسلا‘‘م ہے، ہم جہات الاسلام کے شماروں کا تعارف کراتے رہے ہیں، یہ تازہ ترین شمارہ ہے، جنوری، جون 2020ء کا۔ مدیرہ شاہدہ پروین تحریر کرتی ہیں:
’’الحمدللہ جہات الاسلام کا جنوری، جون/جولائی 2020ء کا شمارہ پیش خدمت ہے۔ یہ حسب سابق اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں محققین کی کاوشوں پر مشتمل ہے۔ شمارے میں شامل مضامین کا انتخاب ماہرینِ فن کی آرا و جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔ تیرہ اردو، پانچ عربی اور پانچ انگریزی کے مقالات شامل کیے گئے ہیں۔
عصر حاضر میں انسانی تحقیق و ترقی ثریا تک جاپہنچی ہے اور ذرے کا جگر چیر کر نئی نئی ایجادات انسانی حیرت و آسائش میں اضافے کا موجب بن رہی ہیں۔ انسان ستاروں پر کمندیں ڈال کر مریخ اور چاند پر پلاٹوں کے نقشے ترتیب دے رہا تھا کہ موجودہ صدی نے انسان کو ہلا کر رکھ دیا اور Covid-19 کی وبا نے انسان کو باور کرادیا کہ ترقی کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اتنا ہی بے بس ہے جتنا ماضیِ بعید میں تھا۔ اللہ تعالیٰ اس وبا میں ہمیں اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔
افکار تازہ کا یہ جہاں جو اس وقت پیش خدمت ہے اس میں پہلے نمبر پر تحقیقی مقالہ میں عبدالسلام اور ڈاکٹر انس نضر نے ’’اوقافِ قرآنیہ پر قرأت کے اثرات‘‘ کے عنوان سے اوقاف کے قرأت پر اثرات کو بیان کیا ہے۔ مولانا محمد جونا گڑھی اور حافظ عبدالسلام بھٹوی ماضیِ قریب کے معروف مفسرین ہیں۔ مقصود احمد اور ڈاکٹر فرحت نسیم علوی نے اپنے مقالے میں مولانا محمد جونا گڑھی اور حافظ عبدالسلام بھٹوی کے ترجمہ قرآن مجید کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر صائمہ فاروق اور ڈاکٹر زاہدہ شبنم نے احادیثِ مبارکہ میں مواقع کے اعتبار سے الفاظ و تراکیب کے استعمال اور ان کی معنویت پر اپنا مقالہ قلم بند کیا ہے۔ کسی بھی ریاست میں معاشی صورت حال اور دیگر ریاستوں سے معاشی تعلقات اہمیت رکھتے ہیں۔ ’’حضرت محمدؐ کے غیر مسلموں سے معاشی تعلقات کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد عاطف اسلم رائو اور محمد مسلم نے ریاست مدینہ کے دیگر ریاستوں سے معاشی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔
فقہ الجنایات کے حوالے سے ڈاکٹر حافظ محمد یونس میو اور ڈاکٹر حافظ عبدالباسط خان نے ’’ڈی این اے ٹیسٹ سے حدود و قصاص کا اثبات اور عصری اجتہادات‘‘ پر تجزیاتی مقالہ پیش کیا ہے۔
دور حاضر میں سائنسی ترقی نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں مختلف مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ آن لائن معاملات میں مختلف قسم کے جرائم بھی سامنے آئے ہیں۔ اس موضوع پر حافظ سمیع اللہ اور ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے سائبر کرائمز کی مختلف اقسام کا شرعی نصوص کی روشنی میں تجزیاتی جائزہ لیا ہے اور اسے تحقیقی مقالے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ متعلقاتِ سیرت میں ایک اہم موضوع ان الکنہ کا تعارف و تفصیل پیش کرنا ہے، جہاں جہاں نبی کریمؐ کا گزر ہوا، یا وہاں پر نبی کریمؐ نے دعوتِ دین کا کام انجام دیا۔ متعلقاتِ سیرت میں طائف ایک اہم شہر ہے، ڈاکٹر محمد افضل نے اہلِ طائف کی برصغیر میں خدمات پر اپنا مقالہ پیش کیا ہے۔
تشدد کسی صورت بھی درست نہیں، البتہ شریعتِ اسلامی نے تادیب کی مختلف صورتوں کی اجازت دی ہے۔ ڈاکٹر فریدہ یوسف اور ڈاکٹر نسیم اختر نے اسلامی تعلیمات کے تناظر میں تادیب و تشدد کی مروجہ صورتوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔
کسی بھی ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے وہاں امن و سلامتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک اہم عنصر مذہی برداشت بھی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے درپیش چیلنجز اور اس کی اہمیت پر ڈاکٹر محمد ریاض محمود اور ڈاکٹر احسان الرحمٰن غوری نے تجزیہ پیش کیا ہے۔
استشراق ایک اہم موضوع ہے لیکن موجودہ دور میں اس میں آنے والی تبدیلیوں اور رجحانات پر کم لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر مستفیض احمد علوی نے اپنے مقالے میں موجودہ مغرب میں مطالعہ اسلام کے حوالے سے مابعد استشراق رونما ہونے والی تبدیلیوں اور رجحانات کو بیان کیا ہے۔ تجدیدِ دین ہر صدی کی ضرورت رہی ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد سعیدی اور حافظ محمد عمران نے ’’تجدیدِ دین: عصری ضرورتیں اور تقاضے (بیسویں صدی برصغیر کے تناظر میں)‘‘ کے عنوان سے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے۔
فرقہ معتزلہ اسلامی تاریخ کا اہم گروہ رہا ہے اور اس نے تفسیر کے حوالے سے اپنے اثرات بھی چھوڑے ہیں۔ حافظ ذوالفقار علی اور ڈاکٹر محمد فاروق حیدر نے اپنے تحقیقی مقالے میں ائمہ معتزلہ کے تفسیر قرآن میں لغت سے استدلال کے اسلوب کا مطالعہ کیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو مختلف اسلامی مسائل اور معاملات پر اپنی رائے اور سفارشات دیتا ہے۔ عصرِ حاضر میں جنایتی مسائل کے حوالے سے اس ادارے کی بہت سی سفارشات سامنے آئی ہیں۔ جرم و سزائے ارتداد کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں جن کا جائزہ آصف جاوید اور ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ بنتِ شاطی خاتون مفسرہ ہیں اور ان کی تفسیر مشہور بھی ہے۔ جمیل اختر اور ابوالوفا محمود نے اپنے مقالے میں ڈاکٹر عائشہ بنتِ شاطی کے ’’قسم اور مقسم بہ‘‘ کے حوالے سے مؤقف کا جائزہ لیا ہے۔ دوسرے عربی مقالے میں خواجہ سیف الرحمٰن اور ڈاکٹر حافظ نصراللہ خان نے تفسیر فہم القرآن کا منہج و اسلوب پیش کیا ہے۔
تیسرے مقالے میں ڈاکٹر ابوبکر نے زین بن عمرو بن نفیل کے اشعار میں عقیدہ توحید سے متعلق اشعار کا تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔
چوتھے مقالے میں متقدمین و متاخرین کے نزدیک حدیثِ حسن کی تعبیر و تشریح کو موضوع بنایا گیا ہے اور اسے ڈاکٹر محمد حماد اور ڈاکٹر حامد حماد نے پیش کیا ہے۔ پانچویں مقالے میں خولہ حافظ عبدالوحید فتح نے نصرانیت میں تحریف کے حوالے سے پولس کے کردار اور اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔انگریزی مقالات میں سے پہلے مقالے میں مقالہ نگاران نے ایک مثالی اسلامی ادارے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اسلامی یونیورسٹی ملائشیا کا جائزہ لیا ہے۔ دوسرے مقالے میں اسلامی فیمینزم اور اس کی جہات و طریقہ کار پر بحث پیش کی گئی ہے۔ تیسرے مقالے میں مسلم ریاست کے اہم منصب پر غیر مسلموں کی تقرری پر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ چوتھے مقالے میں پانچ اہم قواعدِ فقہیہ کی مسلم کرمنل لا میں تطبیقات کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں مقالے میں کووڈ۔19 کی موجودہ صورت حال میں تدفین کے حوالے سے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ان کا حل تجویز کیا گیا ہے۔مجلہ سفید کاغذیت بہت خوب صورت طبع کیا گیا ہے۔