(تیسرا اور آخری حصہ)
ایک دفعہ سیکریٹری خزانہ ملک غلام محمد (جو بعد ازاں ملک کے گورنر جنرل بنے۔ والد محترم سے قریبی تعلق رکھتے تھے) کا حکم نازل ہوا کہ وہ ایم اے جی کے افسران اور اسٹاف سے سالانہ تقریب میں خطاب کریں گے۔ والد صاحب نے وقتِ مقررہ پر اپنے سینئر افسران کو ان کے خیرمقدم کے لیے دروازے پر بھیج دیا۔ مگر جب ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد وہ تشریف نہیں لائے تو تقریب کا آغاز کردیا گیا اور ان افسران کو دروازے سے واپس بلوالیا گیا۔ جب ایک گھنٹہ تاخیر کے بعد موصوف تشریف لائے تو دروازے پر تعینات سیکورٹی اسٹاف نے جو اُن سے ناواقف تھا، کہا کہ اپنی شناخت کرائیں، جس پر وہ انتہائی طیش میں آگئے اور بحالتِ مجبوری تقریب میں شرکت تو کی مگر اس واقعے سے ناراض ہوکر والد صاحب کا تبادلہ بطور سزا مشرقی پاکستان کردیا، جس کو بعد ازاں ان کے مشترکہ دوست اور اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین نے منسوخ کرایا۔
مجھے سب سے زیادہ مزا اُس وقت آتا تھا جب والدِ محترم کے قریبی دوست اور ممتاز عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی کراچی سے اُن کے ساتھ راولپنڈی تشریف لاتے تھے۔ وہ آمدورفت کے لیے اپنی گاڑی اور ڈرائیور استعمال کرتے تھے اور ان کے ناشتے دان کی تین منزلیں ہوتی تھیں جس میں مختلف اقسام کے کھانے بہت وافر مقدار میں ہوتے تھے، اور وہ بڑے ذوق و شوق سے خود بھی یہ کھانا تناول کرتے اور ہمیں بھی کھلاکے خوش ہوتے تھے۔
قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد والد صاحب نے مجھے پانچویں کلاس میں اپنے مدرسہ اسکول میں داخلہ دلایا جب کہ میری بنیادی تعلیم ہی نہیں ہوئی تھی۔ ماسٹر حضرات والد محترم کے ڈر کی وجہ سے مجھے ہر سال پاس کردیا کرتے تھے تاکہ ان پر کوئی حرف نہ آئے۔ الحمدللہ! میں نے دس برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا تھا، لیکن اُس دور کے مختلف عالم حضرات (جن میں اکثریت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے علماء کی تھی) کی مارپیٹ اور ذہنی اذیتوں کی بدولت قرآن شریف اس لگن سے یاد نہیں کرسکا جس کا مجھے تاحیات افسوس رہے گا۔ میں نے اس دوران کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کی مسجد میں نماز تراویح بھی پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔ حافظِ قرآن ہونے کے بعد والد محترم مجھے مزید دینی تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند (ہندوستان) بھیجنے کے خواہش مند تھے، لیکن میرے تایا فصاحت علی صدیقی مرحوم (جن کی بات والد صاحب کبھی رد نہیں کرتے تھے) کی زبردست مخالفت کے باعث ان کی یہ خواہش پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائی۔
والد محترم کی عمر کے آخری حصے میں وہ سختی نہیں رہی تھی۔ ایک دن دریافت کیا کہ آخر مجھے ہی اس فریضے کے لیے کیوں منتخب کیا؟ تو انہوں نے ایک حدیث سنائی جس کے مطابق: ایک حافظِ قرآن اپنے ساتھ پانچ لوگوں کو دوزخ سے جنت کی طرف لے جانے کا استحقاق رکھتا ہے۔ یہ یقیناً قرآن شریف کا زندہ معجزہ تھا کہ میں کبھی زندگی کے کسی امتحان میں فیل نہیں ہوا۔ میرا حافظہ اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ ایک دفعہ پڑھنے کے بعد وہ ذہن نشین ہوجاتا تھا، اور اس کے نتیجے میں1967ء میں گریڈ 17کی اپنی پہلی سرکاری نوکری کا آغاز کرکے وفاقی حکومت کے ایک محکمے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) کے ڈائریکٹر جنرل کے گریڈ20 عہدے تک کا سفر کامیابی سے طے کیا۔ دورانِ ملازمت مجھ پر جب بھی کٹھن لمحات یا تبادلہ، ترقی میں مشکلات آتی تھیں تو مجھے غیب سے مدد آپہنچتی تھی جس کا ادراک میرے لیے حیرت کا باعث بنتا تھا، جو میرے نیک سیرت ماں باپ کی دعائوں اور ان کی اچھی تربیت کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔ اسی طرح میرے دیگر بھائی بھی اپنے اپنے شعبوں میں کمالِ عروج پر پہنچ کر ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
قبلہ والد صاحب کئی کتابوں کے مصنف تھے، جن میں ان کی معرکہ آرا تصنیف ”پبلک فنانس ان اسلام“، جس کا حال ہی میں اردو ترجمہ ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘ میرے برادر بزرگ کیپٹن (ریٹائرڈ) اشرف رشید صدیقی، صدر ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری ٹرسٹ، اسلام آباد نے کیا ہے۔ یہ کتاب کراچی یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے نصاب میں رائج ہے۔ اس کے علاوہ ایک کتاب تقسیم ہند کی ایک مکمل دستاویز پر مبنی تھی جس کا عنوان ’’کاروانِ سخت جان‘‘ تھا۔ والد صاحب نے کچھ اور کتابوں کے ترجمے اور تدوین بھی کی تھی۔
بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ غالب کی شاعری کو مغربی دنیا میں روشناس کرانے والے محقق، تنقید نگار، اور ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری اور غالب کی شاعرانہ عظمت پر معرکۃ الآرا کتاب ”محاسن کلام غالب“ کے خالق کی دو صاحب زادیاں میرے والد محترم کے عقد میں رہی تھیں۔ ایک صاحب زادی کا انتقال جوانی میں ہوگیا تھا اور دوسری صاحب زادی یعنی میری والدہ سردار بیگم طبعی عمر تک پہنچیں۔ کیونکہ والد صاحب کا رجحان دین کی طرف بہت شدت سے ہوگیا تھا اس لیے وہ شعر و شاعری کو بھی وقت کا ضیاع اور دین اسلام سے متصادم سمجھتے تھے۔ میں نے ان کی تحریروں اور بات چیت میں کبھی ڈاکٹر بجنوری کے متعلق تذکرہ نہیں سنا۔ وہ آیاتِ ربانی کے مصداق سمجھتے تھے کہ شاعری کی باتیں محض تخیلات ہوتی ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ شعراء کو تحقیق سے لگائو نہیں ہوتا، اس لیے ان کی باتوں سے بجز جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت نہیں ہوتی، یعنی مضمون پکڑ لیا تو اس کو بڑھاتے چلے گئے۔ کسی کی تعریف کی تو آسمان پر چڑھادیا۔ مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کردئیے۔ غرض جھوٹ، مبالغہ اور تخیل کے جنگل میں نکل گئے، پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔
ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری پر ریسرچ اور ان کی کتاب ”محاسن کلام غالب“ کی نئے سرے سے اشاعت کی اور ان کے مختلف مضامین، خطوط وغیرہ کا مجموعہ ’’مقالاتِ بجنوری‘‘ کی صورت میں شائع کیا۔ خصوصیت سے ان کے جرمن زبان میں ڈاکٹریٹ کے تھیسسJurisprudence Islam کا انگریزی ترجمہ شائع کرنے کے لیے اسلام آباد میں ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جو میرے برادرِ بزرگ اشرف رشید صدیقی کے زیر سرپرستی بہت عمدہ کام انجام دے رہا ہے اور سیکڑوں نادار مگر ذہین لڑکیوں کے لیے ’’ٹیلنٹڈ گرلز اسٹوڈنٹس ٹرسٹ‘‘ کے ذریعے وظائف بھی جاری کیے ہوئے ہیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے میرے والد محترم سید شجاعت علی صدیقی کی وفات پر ایک خط میں کہا تھا کہ مرحوم شجاعت علی صدیقی پر کچھ لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ جب کبھی اس عزیز کا خیال آتا ہے تو دل پر عجیب کیفیت گزرتی ہے جو بیان میں نہیں آسکی۔ یہ ہماری قوم کے ان نوجوانوں میں تھا جنہوں نے یورپ کی تعلیم سے صحیح معنوں میں استفادہ کیا تھا، جس سے فائدہ اٹھا کر بے شمار خواتین اپنی زندگیوں میں بہتری لاچکی ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ یہ عظیم کام کسی تشہیر اور میڈیا میں بیانات کے بغیر خاموشی سے انجام دیا جارہا ہے جس کے صلے اور ستائش کی کبھی تمنا نہیں کی گئی۔
الحاج سید شجاعت علی صدیقی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد پبلک اکائونٹس کمیٹی کے صدر اور زکوٰۃ کمیشن کے چیئرمین بھی رہے، لیکن ان کی شخصیت کبھی بھی ان عہدوں کی محتاج نہیں رہی، بلکہ انہوں نے ہر حیثیت میں یہ ثابت کر دکھایا کہ کس طرح کام کرنا چاہیے کہ ان عہدوں کی عظمت میں اضافہ ہو۔ تمام لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کرسکتے تھے کیونکہ وہ ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ لیکن وہ کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے تھے۔ وہ سیاست کی مصلحت کوشیوں کے قائل نہ تھے۔ وہ زہر ہلاہل کو قند کہنے پر تیار نہ تھے۔ وہ کسی غلط بات اور غلط حکم کو کبھی نہ مانتے۔ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا سمیت کئی اعلیٰ شخصیات اُس دور میں پاکستان میں سیاہ و سفید کی مالک تھیں، اگرچہ آپ کے اُن کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے، لیکن نہ صرف یہ کہ اُن سے کبھی کسی بات کی تمنا نہیں کی بلکہ ان کی غلط باتوں اور کوتاہیوں پر نہ صرف ان کو ٹوکا بلکہ اکثر ناراضی بھی مول لی۔ کیونکہ وہ مومن ہی کیا جو نقصان کے ڈر سے سچ بات نہ کہہ سکے!
دراصل سید شجاعت علی قیام پاکستان کے اصل مقاصد پر کامل یقین اور مکمل ایمان رکھتے تھے۔ وہ دل سے اس بات کے خواہاں تھے کہ پاکستان میں جو معاشرت تعمیر ہو اس کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر مبنی ہو۔ لہٰذا جب وہ راولپنڈی میں کنٹرولر جنرل ملٹری اکائونٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے فوراً ہی ذاتی طور پر اس مقصد کے حصول کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ وہ ملک کے اعلیٰ سرکاری افسران میں پہلے شخص تھے جس نے دفتر میں نماز باجماعت کا انتظام کیا۔ نہ صرف اپنے دفتر میں مسجد تعمیر کرائی بلکہ اپنے محکمے کے ذیلی دفاتر میں بھی مساجد کی تعمیر کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ راولپنڈی صدر میں کامران مارکیٹ کی جامع مسجد کی تعمیر میں آپ کا بنیادی کردار تھا، اور یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ اُس دور کی حکومتیں ان کے نیک کاموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں۔ لیکن اس مردِ مومن نے ہر مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان باطل قوتوں کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔
مرحوم شجاعت علی صدیقی صاحب کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ سرکاری دفاتر اور محفلوں میں قرآن کلاسوں کا آغاز کیا تھا۔ اسے کارنامہ یوں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ چراغ تھا جس سے بعد ازاں بے شمار چراغ روشن ہوئے، اور آج بھی راولپنڈی ہی میں بے شمار گھروں میں قرآن کلاسیں منعقد ہوتی ہیں، اور صرف راولپنڈی ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا صدیقی صاحب کو اگر قرآن کلاسوں کا سرسید کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ حالانکہ بہت سے لوگ جو آج کل قرآن کلاسوں یا درس قرآن کا اہتمام کرتے ہیں وہ شجاعت علی صدیقی صاحب کے نام سے بھی واقف نہ ہوں گے اور یہ بھی نہ جانتے ہوں گے کہ یہ چراغ سب سے پہلے کس نے روشن کیا تھا۔ لیکن حقیقی مومن کبھی اپنے نام و نمود کا محتاج نہیں ہوتا۔
آپ نہ صرف سادگی کے نظریاتی طور پر قائل تھے بلکہ عملی زندگی میں بھی ان اصولوں کی مکمل طور سے پابندی کی۔ آپ کا لباس، خوراک، طرزِ بودو باش غرضیکہ زندگی کا ہر پہلو مکمل سادگی کا نمونہ تھا۔ اسی اصولِ سادگی کا ایک مظہر یہ تھا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اہلکار بھی بغیر کسی پیشگی وقت کے آپ کے پاس پہنچ سکتا تھا۔ ان کے دفتر اور گھر کے دروازے ہر ایک کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ تبلیغ اسلام بھی کرتے رہتے تھے۔ جو شخص بھی ان کے پاس آتا وہ اسے نماز پڑھنے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور قومی لباس اختیار کرنے کی تلقین ضرور کرتے۔
ملک کی اساس اور نظریہ پاکستان کے ضمن میں آپ کی خدمات بے پایاں ہیں۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور اس قرارداد کا انگریزی متن انھی کا تحریر کردہ تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب سے آپ کے بڑے قریبی تعلقات تھے۔ قراردادِ مقاصد پر غور و خوض کے لیے تمام علمائے کرام آپ کے گھر پر جمع ہوتے اور تبادلہ خیال ہوتا، اور آخرکار علماء کی کوششوں سے وہ قراردادِ مقاصد اسمبلی نے منظور کی۔ دینی علوم پر بھی آپ کی گہری نظر تھی، یہی وجہ تھی کہ صدر ایوب نے جو زکوٰۃ کمیشن مقرر کیا اُس کی سربراہی کے لیے ان سے درخواست کی۔ اس سلسلے میں شجاعت صدیقی صاحب نے ایک جامع اور مستند رپورٹ تیار کی، لیکن اُس وقت کے اربابِ اختیار کو وہ رپورٹ پسند نہ آئی، اور نتیجتاً شجاعت صدیقی صاحب نے اس منصب سے استعفیٰ دے دیا۔
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے ایک پندرہ روزہ جریدہ ’’وفاق‘‘ کا اجراء کیا، جس کا واحد مقصد خدمتِ اسلام تھا اور اکثر لوگوں کو وہ پرچہ مفت ہی پہنچتا تھا۔ آپ کی پینشن کا خاصا حصہ اس دینی پرچے کی نذر ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ بھٹو دور میں اس پرچے کا وجود حکومتِ وقت کو اتنا گراں گزرا کہ اس کا ڈکلیریشن ہی منسوخ کردیا گیا، حالانکہ وہ کوئی سیاسی پرچہ نہ تھا، حق کا ترجمان ضرور تھا۔
آپ کی جرأت مندانہ اور بے باک تنقید سے تقریباً تمام حکمراں ہی ناراض رہے، لیکن آپ کی پیشہ ورانہ قابلیت، دیانت داری اور سچائی کے سبھی معترف تھے۔ مثال کے طور پر ملک غلام محمد نے اپنے انتقال سے کچھ دن پہلے شجاعت صدیقی صاحب سے اپنی دیرینہ دوستی کا واسطہ دے کر اور شدید اصرار کرکے آپ کی جائے نماز اور تسبیح بطور یادگار لے لی۔ یہ بات اس گہری عقیدت اور احترام کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے نظریاتی مخالفین کو بھی ان سے تھی۔
آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی کابڑا اہتمام اور پابندی کرتے تھے۔ تمام عمر میں آپ کی صرف تین نمازیں قضا ہوئیں اور قیام پاکستان کے بعد تو آپ چاشت، اشراق اور تہجد بھی تواتر سے پڑھتے رہے۔ لیکن آپ کو اپنے انکسار اور عجز کی وجہ سے اپنے روحانی مدارج اور بزرگی کا احساس نہ تھا، یا یوں کہیے کہ آپ اس کے دکھاوے کو ناپسند کرتے تھے۔ لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ آپ کس پایہ کے نیک اور پرہیزگار بزرگ اور اعلیٰ انسان تھے۔ بارگاہِ خداوندی میں آپ کو کس قدر شرفِ قبولیت حاصل تھا۔ آپ کے سانحہ ارتحال کے بعد معلوم ہوا کہ بہت سے اہلِ قلب و نظر تو آپ کو منصبِ ولایت پر فائز سمجھتے تھے۔ آپ کو کشف القبور حاصل تھا، اگرچہ عام طور پر تعویذ وغیرہ نہیں دیتے تھے لیکن جب آپ کسی کو تعویذ دیتے تو وہ اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہتا۔
آپ نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ حالتِ نماز میں گزارا، اور آپ کا انتقال بھی دورانِ وضو ہوا۔ اپنے خالقِ حقیقی سے ملتے وقت آپ کے دونوں ہاتھ سینے پراس طرح رکھے ہوئے تھے جیسے حالتِ نماز میں ہوتے تھے۔ چہرے پر وہ تازگی اور طمانیت تھی جیسے خوابیدہ ہوں۔ اللہ ہم سب کو ایسی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ کراچی کے طارق روڈ قبرستان میں آسودئہ خاک ہیں۔