ہم اپنے بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں کی زرخیز زمینیں سونا اُگلتی ہیں، پہاڑوں کے دامن قدرتی معدنیات سے بھرے پڑے ہیں، گلیشیرز ہمارے ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی ہیں۔ ندی، نالے، نہریں اور دریا فصلوں کو سیراب کرکے ہماری غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ مویشی دودھ اور گوشت کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمد کرکے زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ یہاں کے جنگلات کی قیمتی لکڑی ملکی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ قدرتی گیس ایک اضافی نعمت ہے، اور تیل اور کوئلے کی تلاش کا کام تیزی سے کیا جائے تو بجلی اور توانائی کی ضروریات باآسانی پوری کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات ہر سیاسی جماعت ہر دور میں کہتی آئی ہے۔ مرکزی سیاسی قائدین کے علاوہ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتیں بھی یہ باتیں کرکے عوام کا خون گرماتی رہتی ہیں، لیکن عمران خان نے یہ بات زیادہ شدومد اور تسلسل کے ساتھ کہی ہے، ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے خود لوٹ مار میں لگی رہی۔
مجھے اس بات کی صداقت کا یقین دو ہفتے قبل اُس وقت ہوا جب لاہور سے خنجراب تک سفر کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ ایک نجی ٹور تھا لیکن اس کے دوران بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سربستہ راز سمجھنے کا موقع ملا۔ ایبٹ آباد سے چین کی سرحد تک پھیلی ہوئی زمین، بہتے ہوئے جھرنے، تیز رفتار شوریدہ سر دریا اور ایستادہ پہاڑ اپنی کہانی اپنی زبان سے بیان کررہے تھے۔ دریائوں کے بہتے پانی کو چھوتے ہوئے ہوٹل اور پلازے بتارہے تھے کہ ان کی تعمیر کی اجازت متعلقہ اداروں نے محض اپنی آمدنی کا حجم بڑھانے کے لیے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کو دی ہے، یا پھر متعلقہ عملے اور بااثر افراد نے رشوت لے کر یہ اجازت دی ہے۔ بعض ہوٹل ایسے بھی تھے جن کی دیواروں کو چھوتا ہوا پانی ایک دلکش منظر تو ضرور دیتا ہے لیکن کسی نے اُن خدشات کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی کہ یہ کسی وقت بھی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ عمارات اُن آبی گزرگاہوں میں بنائی گئی ہیں جہاں سردست پانی نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر دریائی گزرگاہ میں پتھر اور کنکریٹ ڈال کر اُن پر کئی کئی منزلہ عمارات کھڑی کردی گئی ہیں۔ حالیہ سیلاب کے باعث ایسے بیشتر ہوٹل اور عمارات زمین بوس ہوچکی ہیں، جس سے کئی قیمتی جانیں بھی گئی ہیں اور مالی نقصان تو کروڑوں نہیں اربوں کا ہوا ہے، لیکن اب بھی کوئی نہیں جو دریائی گزرگاہوں کی ممنوعہ زمین پر عمارات بنانے کی زبانی یا تحریری اجازت دینے والے اداروں سے کوئی بازپرس کرسکے۔ جن کی کروڑوں کی بلڈنگز دریا کی نذر ہوئی ہیں اُن میں ہمت ہی نہیں کہ آواز اٹھا سکیں، کیوں کہ انہوں نے تو خود عملے یا مؤثر افراد کی مدد سے یہ غیر قانونی کام کیے تھے۔
ایبٹ آباد سے خنجراب تک لاکھوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے یہ پہاڑ کسی صحرا کا منظر پیش کررہے ہیں۔ ان پر کوئی درخت تھے نہ فصل… عمران خان کے دس ارب درختوں میں سے یہاں تو دس درجن بھی درخت نظر نہیں آئے۔ حالانکہ یہاں ماہرین کے مشورے سے لاکھوں نہیں کروڑوں درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ درخت پھل دار ہوں تو آمدنی کا ذریعہ بن سکتے ہیں کہ یہاں پانی کی فراوانی ہے، بارشیں بھی کثرت سے ہوتی ہیں۔ صرف ہنزہ اور اُس کے قریبی علاقوں میں کچھ درخت اور فصلیں نظر آئیں جو مقامی لوگوں نے پہاڑوں میں بڑی بڑی کیاریوں کی شکل میں اُگائی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہاں تھوڑی بہت فصلیں ہوسکتی ہیں تو ایبٹ آباد سے خنجراب تک ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ دراصل یہاں کاشت کے لیے جدید مشینری کی ضرورت ہے اور حکومتوں کی اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ اگر یہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ترجیح بن پائیں تو بہت جلد یہاں درخت اور فصلیں لہلہاتی نظر آئیں گی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہیں، لیکن ہمیں تو کسی جگہ بھی معدنیات کی تلاش کے لیے کام ہوتا نظر نہیں آیا۔ یا تو یہ کام ہو ہی نہیں رہا، یا اتنا تھوڑا ہے کہ تلاش کرنے سے بھی نظر نہیں آتا۔
ہمیں سڑک کے کنارے سیکڑوں ایسے مقامات ملے جہاں پہاڑوں سے آنے والا صاف اور میٹھا پانی شرشر گررہا ہے مگر یہ سب نالیوں اور نالوں کے ذریعے دریا میں گر کر ضائع ہورہا ہے۔ یہ پانی قدرتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے اور انتہائی شفاف اور خوش ذائقہ ہے۔ پوری قوم غیر ملکی کمپنیوں کا بوتلوں میں فراہم کردہ منرل واٹر روزانہ ٹنوں کے حساب سے پیتی ہے جس سے یہ کمپنیاں اربوں روپے کماتی ہیں، مگر کسی مقامی کمپنی یا صنعت کار کو یہ توفیق نہ ہوئی نہ کسی حکومت نے اس پر کام کیا کہ اس قیمتی پانی کو سائنسی بنیادوں پر پراسس کرکے ملک بھر میں سپلائی کردیا جائے۔
ان پہاڑوں پر آپ کو جابجا ایسے لاکھوں پتھر نظر آئیں گے جن کا حجم دو تین انچ سے سو دو سو مکعب فٹ تک ہے۔ کالے، بھورے، سفید اور ملگجے سرخ رنگ کے یہ پتھر ضائع ہورہے ہیں یا حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔ حالانکہ اس پتھر کو یہاں صنعتیں لگا کر عمارات کی خوبصورتی اور زیبائش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان ہی پتھروں سے بجری بنا کر پورے ملک کی تعمیری ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ یہاں انڈسٹری لگانا مشکل اور ٹرانسپورٹیشن کا کام مہنگا ہے لیکن حکومت توجہ اور اس انڈسٹری سے وابستہ کاروباری مراعات دے کر مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے لیے بے پناہ مواقع پیدا کرسکتی ہے اور سستی ٹرانسپورٹیشن کا بھی حکومت کوئی بندوبست کرسکتی ہے بشرطیکہ کرنا چاہے۔
پہاڑوں پر رہنے والوں کا عمومی روزگار مویشی پالنا ہوتا ہے، لیکن یہاں اس تعداد میں جانور بھی نظر نہیں آتے جتنے ہونے چاہئیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں حکومت گلہ بانی کے لیے کوئی رہنمائی یا مدد فراہم نہیں کرتی۔ حکومت یا کاروباری حضرات یہاں بڑے پیمانے پر کیٹل فارمز بناسکتے ہیں کیونکہ پہاڑوں کے اوپر چراگاہیں موجود ہیں۔
ایک ضمنی بات یہ کہ سیاح اور مقامی لوگ ان علاقوںکو گندا اور دریائوں کو آلودہ کررہے ہیں۔ یہاں آپ کو جگہ جگہ پانی کی بوتلیں، کھانے پینے کی اشیا کے باکس، بسکٹوں اور چپس کے ریپرز، کاغذ اور دوسری اشیا بکھری نظر آئیں گی۔ حکومتوں نے یہاں ہوٹل اور ریسٹورنٹس بنانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ حکومت صفائی کا انتظام کرے اور سیاح بھی اسے صاف ستھرا رکھیں، ورنہ کچھ عرصے کے بعد ملک اور بیرونِ ملک سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت کم یا بالکل ختم ہوجائے گی۔
اس پورے علاقے کے مشاہدے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے 75 سال میں ان علاقوں میں کوئی کام نہیں کیا۔ جو کچھ کیا وہ مالی مفادات کے تحت کیا۔ اگر اب بھی مندرجہ بالا معاملات پر کام کرلیا جائے تویہ علاقے تادیر سیاحوں کی دلچسپی کے مراکز رہیں گے اور مقامی لوگوں کو بھی معقول روزگار مل جائے گا۔ اب تو یہاں زلزلوں اور سیلاب کے سدباب کے لیے بھی فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔