شہر بھر کے معروف صنعت کار، وکلا، تاجر، کرکٹر، بینکار، ماہرین ِ تعلیم، صحافی، اینکر، ڈاکٹر، انجینئر، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت
معروف سماجی رہنما، عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری ایک متحرک اور پُرجوش انداز میں کام کرنے والے آدمی ہیں۔ نئے نئے آئیڈیاز پر کام کرنا اور ہر مشکل وقت میں شہری اور قومی ایشوز پر کھڑے ہونا اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ان کا خاصہ ہے۔
ابھی حال ہی میں ان کی جانب سے Ask Me Anything کے عنوان سے مقامی ہوٹل میں کراچی کے مسائل کے پس منظر میں ایک فورم کا انعقاد کیا گیا جو اصل میں شہر کے مخصوص کلیدی لوگوں کے ساتھ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی سوال و جواب کی ایک منفرد اور اہم نشست تھی، جس میں شہر بھر کے معروف صنعت کاروں، وکلاء، تاجروں، کرکٹر، بینکار، ماہرین تعلیم، صحافیوں، اینکر، ڈاکٹر، انجینئر، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر کراچی کے معروف کرکٹرز سابق کپتان یونس خان، شعیب محمد اور توصیف احمد نے کراچی میں جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ترازو کے حق میں فیصلہ دیا۔ تقریب میں مبصر یحییٰ حسینی، ماجد بھٹی اور دیگر نامور کرکٹرز اور کھیل سے متعلق شخصیات نے بھی شرکت کی۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جماعتِ اسلامی ہی شہر کی تعمیر و ترقی کرسکتی ہے، ہمارا ماضی اس پر گواہ ہے، مختلف سیاسی و جماعتی وابستگیوں کے باوجود عوام کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر دیکھنا چاہتے ہیں، آج جماعت اسلامی اہلِ کراچی کی ایک مؤثر اور توانا آواز بن چکی ہے اور ہر زبان پر ”حل صرف جماعت اسلامی“ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں (منظور ہونے والے) سندھ لوکل باڈیز ایکٹ میں ایم کیو ایم نے خود شہری ادارے اور اختیارات پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو دے دیئے، ایم کیو ایم 35سال تک کراچی کی سیاست اور ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی، لیکن اب کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست ختم ہوچکی، ایم کیو ایم نے جو بویا وہ آج کاٹ رہی ہے، جماعت اسلامی کا موجودہ حکومت میں کوئی وزیر اور مشیر نہیں ہے لیکن جب بھی شہریوں کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے جماعت اسلامی اس پر آواز اٹھاتی ہے اور عوام کے ساتھ مل کر مسائل حل کرواتی ہے۔
جماعت اسلامی نے بلاتفریقِ رنگ و نسل سب کی خدمت کی اور مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور بلوچستان کے علاقے سیلاب زدہ ہیں لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں، اور نہ ہی ان کے لیے کوئی آواز اٹھا رہا ہے، اس صورت حال میں حکمران بجائے تباہ حال عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے، سیاسی مخالفین سے الجھنے میں مصروف ہیں، جبکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی قیادت میں الخدمت کے رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جماعت اسلامی بلدیاتی حکومت میں آنے کے بعد اختیارات کا رونا نہیں روئے گی بلکہ ہم جتنے اختیارات ہوں گے اس سے بڑھ کر کام کریں گے اور مزید اختیارات کے حصول کے لیے جدوجہد بھی کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایسے دسیوں الیکشن ہار سکتی ہے لیکن اب شہر اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ الیکشن ہارے۔
عوام کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو وہ انتخابات کے دن گھروں سے نکل کر کراچی کو ازسر نو تعمیر کرنے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور ترازو پر مہر لگائیں۔ اب عوام کو سوچنا ہے کہ وہ گھر بیٹھے رہنا چاہتے ہیں یا کراچی کے مستقبل کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام میں سے دو کروڑ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور اس وقت نوجوان طبقہ جماعت اسلامی کی انتخابی مہم کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ شہر میں پھر سے تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہو۔ شہر میں بڑا پوٹینشل موجود ہے، 2020ء میں کووڈ سے دنیا میں معیشت کو بہت نقصان ہوا لیکن کراچی واحد شہر ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو سنبھالے رکھا اور گئے گزرے حالات میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اس سال 42فیصد زائد ٹیکس ادا کیا۔
جماعت اسلامی جب بغیر کسی اختیارات کے کراچی کے مسائل حل کروا سکتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد اس سے زیادہ کام کرسکتی ہے، جماعت اسلامی ہی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے اور کراچی کو ایک بار پھر سے تعمیر کرے۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے، اس میں شامل ہونے کے لیے کسی کو کوئی رکاوٹ نہیں۔
کراچی کا کوئی بھی شہری بلاجھجک جماعت اسلامی میں شامل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں 40فیصد نشستوں پر ایسے افراد نامزد ہیں جن کا پہلے جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ وہ افراد ہیں جن کی اکثریت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں سے وابستہ تھی، اب جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد ان کی سوچ اور فکر میں بھی تبدیلی آئی ہے، اسی طرح کراچی کے عوام کی سوچ بھی تبدیل ہوئی ہے، خصوصاً پی ٹی آئی کے وہ کارکنان جو قومی اسمبلی میں عمران خان کی سپورٹ کررہے ہیں وہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کراچی میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جماعت موجود نہیں جو اس شہر کو اون کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کبھی بھی کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے، کراچی میں جتنے بھی منصوبے وفاق کے تحت ہیں اُن میں کبھی بھی وفاق نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ نشتر روڈ، منگھوپیر روڈ، گرین لائن، پانی کا ”کے فور“ منصوبہ.. یہ تمام منصوبے وفاق کے تحت ہیں۔ وفاق کراچی سے سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس تو وصول کرتا ہے لیکن کراچی کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پورے ملک کو پالنے والا کراچی آج لاوارث ہے، لیکن آج بھی سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے اُس نے اپنا دل کھول رکھا ہے، اور کراچی کے شہری بڑی تعداد میں اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، اور انہوں نے ایک بار پھر زلزلہ زدگان کی مدد کی تاریخ کو دہرایا ہے۔ اس وقت پورے ملک کی طرح سندھ بھی مشکل میں ہے، این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بارشوں سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ 46 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی متاثر ہوچکی ہے۔
سب سے زیادہ اموات سندھ میں 53 رپورٹ ہوئیں، اسی دوران خیبر پختون خوا میں 16، گلگت بلتستان میں 5، بلوچستان میں 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی نے زرعی شعبے کو سیلاب و بارشوں سے پہنچنے والے نقصان کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے۔ زراعت میں سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا ہے۔ دستاویز کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے پاکستان کی زراعت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ زرعی شعبے کو 536 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
اس وقت سندھ کے مختلف حصوں میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کراچی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور صوبائی حکومت کے اندازے کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ لوگ پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے کئی آفت زدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر سیلاب سے متاثرہ 3 سے 4 ہزار افراد شہر پہنچ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور الخدمت پورے ملک کی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں متحرک ہے۔
اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ الخدمت کراچی سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرچکی ہے، امدادی سامان جس میں غذائی اجناس، خیمے اور دیگر ضروری اشیا شامل ہیں، ان کی متاثرہ علاقوں کے لیے روزانہ روانگی کا سلسلہ جاری ہے، شہر بھر میں 150امدادی کیمپ قائم ہیں جن میں اہلِ کراچی بلا تفریق تعاون کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے تمام کارکنان الخدمت کے رضا کار کے طور پر کام کررہے ہیں، متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کے ساتھ ساتھ اب متاثرین کی بحالی اور آباد کاری کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور متاثرین کو ایک کمرے اور کچن پر مشتمل مکانات تعمیر کرکے دیئے جائیں گے جن کے لیے اہلِ خیر سے فی مکان 50 ہزار روپے عطیہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
مزید تفصیلات میں حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سکھر میں الخدمت میگا کچن سمیت اندرون سندھ 15کچن مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور متاثرین کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جارہا ہے، جس میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دبئی کا تعاون حاصل ہے۔ ہم ایک بار پھر کراچی میں اہلِ خیر افراد، تاجروں، صنعت کاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے الخدمت سے بھرپور تعاون کریں، کراچی کے نوجوان جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ساتھ الخدمت کے رضا کار بنیں۔ ادارہ نورحق میں قائم مرکزی امدادی کیمپ میں شہر بھر سے امدادی سامان روزانہ آرہا ہے اور متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ کیا جارہا ہے۔
نوجوان یہاں آئیں۔ مائیں، بہنیں بھی اس کام میں شریک ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے شہر کھنڈر بن گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، شہر میں کوئی بہتر ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ اس صورت حال کے ساتھ کے الیکٹرک کے بھاری بلوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور جگہ جگہ کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے باوجود اہلِ کراچی نے ہمیشہ کی طرح اپنے مسائل اور مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیلاب زدگان کی دل کھول کر مدد کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ متاثرین کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی نااہلی و کرپشن ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔ سندھ حکومت لسانی سیاست کرنے کے اپنے پرانے وتیرے پر چل رہی ہے اور اس میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو لسانی سیاست کرکے ہی اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سب سے پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور کے پی کے کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، متاثرین سے ملاقاتیں کیں اور ان کی دادرسی کی۔
جماعت اسلامی اپنے محدود وسائل کے ساتھ متاثرین کی خدمت، امداد اور بحالی کے لیے کوشاں ہے، ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ قوم نے جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کو کل تک 45کروڑ روپے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیے ہیں، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر امداد متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو غیر ملکی این جی اوز کے سہارے چھوڑنے کے بجائے اچھی شہرت کی حامل مقامی تنظیموں اور رفاہی اداروں کو بروقت امداد پہنچائیں۔
اس وقت جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے 15ہزار سے زائد رضاکار سیلابی علاقوں میں فلاحی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں جن میں ڈاکٹرز، اساتذہ، انجینئرز سمیت ہر طبقہ ہائے فکر کے مرد و خواتین شامل ہیں۔ یہ وقت جہاں مصیبت زدہ افراد کے لیے امتحان کا ہے وہیں قدرتی آفت سے محفوظ لوگوں کے لیے بھی آزمائش ہے جنھیں بڑھ چڑھ کر مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔