مولانا سید جلال الد ین عمری کی رحلت ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ

مولانا سید جلال الدین عمری (ولادت 1935ء) کا 88 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
مولانا عمری کا شمار عالم اسلام کے اُن چند ممتاز علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ اسلام کی دعوت، عقائد، عبادات، معاشرت، معاملات اور سیاست پر آپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
مولانا نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954ء میں سندِ فضیلت حاصل کی، مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے تھے۔ آپ نے وہاں کے اصحابِ علم سے آزادانہ استفادہ کیا، پھر 1956ء میں جماعت کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔
یہ شعبہ 1970ء میں رام پور سے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ء تک اس کے سیکریٹری، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے۔ آپ ادارے کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔
یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40سال پورے کرچکا ہے۔ اسی دوران میں آپ نے پانچ سال (1986ء تا 1990ء) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ ”زندگی نو“ نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے۔
ملک کی متنوع دینی، ملّی، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلسِ نمائندگان اور مجلسِ شوریٰ کے معزز رکن رہے۔ 1990ء سے مارچ 2007ء تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے۔
اس کے بعد مارچ 2019ء تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھائی۔ موجودہ میقات میں وہ جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت و مدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اور سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کا تعلق تھا۔
مولانا عمری کو دورِ طالب علمی سے ہی مضمون نویسی سے دل چسپی تھی۔ آپ کا مزاج تحقیقی تھا۔ مختلف موضوعات پر آپ کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن، اوراقِ سیرت، معروف و منکر، غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں، احکامِ ہجرت و جہاد، انسان اور اس کے مسائل، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، انفاق فی سبیل اللہ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، کم زور اور مظلوم اسلام کے سائے میں، غیر اسلامی ریاست اور مسلمان، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہیں۔
اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اور اسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔
آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اور بیرونِ ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔
مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، کنڑ، تیلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ موضوعات کا تنوع، استدلال کی قوت، عقلی اپیل، فقہی توسع، زبان وبیان کی شگفتگی اور اعلیٰ تحقیقی معیار آپ کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔