جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاست دان اور ہر اعتبار سے مختلف امریکی صدر تھے۔ حساس قومی معلومات اور دستاویزات کے معاملے میں ٹرمپ صاحب کا رویہ بہت ہی عجیب سا تھا۔ ان کے سابق مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ ”ڈونلڈ ٹرمپ حساس معلومات کو محفوظ رکھنے میں بہت سست اور غیر ذمہ دار تھے، اور ہم اس حوالے سے مسلسل پریشان رہتے تھے“۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ نے تقرر کے صرف ایک سال بعد جناب بولٹن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں سبکدوش کردیا تھا، اور ان کی برطرفی کا اعلان صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ سے کیا جو دراصل بصد سامانِ رسوائی کا مظہر تھا۔ اس اعتبار سے جناب بولٹن کے بیان کو ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اپنے اقتدار کی مدت کی تکمیل کے بعد سے جناب ڈونلڈ ٹرمپ بہت سی تحقیقات بھگت رہے ہیں۔ ان پر امریکی صدارتی انتخاب کے لیے کلیہ انتخاب (Electoral College)کے ووٹوں کی گنتی کے دوران امریکی مقننہ پر حملے کی منصوبہ بندی، سرپرستی اور ”بغاوت“ کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔
صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست جارجیا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ (ریاستی وزیراعلیٰ) پر دبائو ڈالا کہ جارجیا کے نتائج کو تبدیل کرکے سابق صدر کی برتری ظاہر کی جائے۔ اس ضمن میں ان کی فون گفتگو کا پورا ریکارڈ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے پاس موجود ہے۔ امریکی قانون کے تحت انتخابی نتائج سے ”چھیڑ چھاڑ“ ایک سنگین جرم ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
سابق صدر پر نیویارک میں واقع اپنی جائداد کی قیمت کم ظاہر کرنے اور ریاستی ٹیکس بچانے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام بھی ہے۔ جناب ٹرمپ کو نیویارک کی اٹارنی جنرل محترمہ لٹیٹاجیمز نے اصالتاً طلب کیا۔ 10 اگست کو پیشی کے دوران سابق صدر نے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا سہارا لے کر مکمل خاموشی اختیار کی۔ اس ترمیم کے تحت تحقیقات کے دوران ملزم کو سوال و جواب کے دوران خاموش رہنے کی اجازت ہے، اس لیے کہ ادا کیا ہوا ہر جملہ ملزم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے، چنانچہ ملزمان تحقیقاتی افسر سے انفرادی ملاقات کے دوران خاموش رہ سکتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اس ملاقات میں سابق صدر نے صرف ایک سوال کا جواب دیا اور وہ یہ تھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ باقی ہر سوال کے جواب میں وہ فرماتے Madam, I take 5 یعنی ”محترمہ پانچویں ترمیم کے تحت ملنے والے تحفظ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں خاموشی اختیار کررہا ہوں“۔ اب ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی جائے گی، جس کی سنگینی کے پیش نظر پروانہ گرفتاری کا اجرا بھی خارج از امکان نہیں۔
ان تمام الزامات کے ساتھ سب سے سنگین معاملہ حساس سرکاری دستاویزات کے ساتھ اُن کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ امریکہ کے جاسوسی ایکٹ مجریہ 1917 کے تحت حساس مواد کی تصویر لینا، اہم معلومات کی نقل بنانا اور امریکی دفاع سے متعلق معلومات کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے جس کی کم ازکم سزا دس سال قید ہے۔ امریکی صحافیوں کی تنظیمیں اور آزادیِ اظہارِ رائے کی انجمنیں اس قانون کو پسند نہیں کرتیں، ان کا خیال ہے کہ اس دفعہ کا سہارا لے کر کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ گزشتہ 105 سال کے دوران جاسوسی ایکٹ کے تحت 1000 افراد کو سزا ہوچکی ہے۔ اسی بناپر 1920ء میں ایک ترمیم کے ذریعے ایک خاص مدت کے بعد خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے کی ہدایت کی گئی، لیکن یہ صدر کے صوابدیدی اختیار سے مشروط ہے۔ صدر اوباما نے اس قانون کے تحت 8 اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 صحافیوں پر فردِ جرم عائد کی۔
قصرِ مرمریں کے ذرائع کہتے ہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں صدر ٹرمپ بہت سی سرکاری فائلیں اور دستاویزات اپنے ساتھ گھر لے جاتے تھے اور ان کاغذات میں خفیہ یا کلاسیفائیڈ مواد بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ وہ 9 سے 5 بجے تک کام کرنے والے کلرک نہیں بلکہ امریکہ کے ہمہ وقتی صدر ہیں لہٰذا وہ بہت سی فائلیں رات کا کھانا کھاکر فرصت کے اوقات میں گھر پر دیکھتے ہیں۔ بادی النظر میں صدر کا مؤقف بہت معقول ہے کہ بحیثیت صدر انتہائی خفیہ یا عام… ہر قسم کی دستاویزات تک انھیں رسائی حاصل تھی، اور اگر وہ مطالعے کے لیے کچھ دستاویزات گھر لے گئے تو کیا برائی ہے! تاہم اس میں ایک آئینی سقم ہے۔ امریکی قانون کے تحت خفیہ دستاویزات کو ٓمحفوظات یا Archive سے باہر لے جانے سے پہلے ان کا مکمل اندراج ضروری ہے جس کا صدر ٹرمپ نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اس بارے میں سابق صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے گھر لے جانے والے مواد کو محدود مدت کے لیے غیر مخفی یا declassify کردیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے لیے باقاعدہ یادداشت یا memorandum جاری کرنے کے تکلف میں پڑے بغیر وہ ان فائلوں کے کلاسیفائیڈ لیبل پر خطِ تنسیخ پھیر کر پینسل سے ”عارضی طور پر غیر مخفی“ لکھ دیتے تھے۔
معاملہ یہاں تک بھی رہتا تو ٹھیک تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے محکمہ انصاف کا خیال ہے کہ سابق صدر جو فائلیں اور دستاویزات مطالعے کے لیے اپنے گھر لے گئے اُن میں سے بہت سی انھوں نے اپنی مدتِ صدارت مکمل ہونے پر واپس نہیں کیں جو ایک سنگیں جرم ہے۔
چنانچہ چند ماہ پہلے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہ میں ان کے خلاف کھاتہ کھول دیا گیا اور دورانِ تحقیق وزارتِ انصاف کے اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سابق صدر جنوری 2021ء میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی معلومات کے علاوہ کچھ حساس نوعیت کا ریکارڈ بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یہ دستاویزات اُن فائلوں کے علاوہ ہیں جو جناب ٹرمپ دورانِ صدارت اپنے گھر لے جایا کرتے تھے۔
ابتدائی معلومات کی تصدیق کے بعد اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland)کی درخواست پر وفاقی عدالت کی فلوریڈا رجسٹری سے ڈونلڈ ٹرمپ کے پُرتعیش گالف کورس اور سیاحتی مرکز مارا لاگو کی تلاشی کا پروانہ یا سرچ وارنٹ حاصل کیا گیا۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں مارالاگو جنوب کا وہائٹ ہاؤس کہلاتا تھا۔ پروانہ حاصل کرنے کے بعد 11 اگست کو مارے جانے والے چھاپے میں ایف بی آئی اہلکاروں نے تلاشی کے دوران 20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ برآمد کرلیے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس چھاپے میں 300 سے زیادہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد کی گئی ہیں جن میں سی آئی اے، نیشنل سیکیورٹی اور ایف بی آئی کا ریکارڈ شامل ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق کچھ فائلیں جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈبوں پر ”ٹاپ سیکرٹ“، ”سیکرٹ“ اور ”کانفیڈینشل“ لکھا ہوا ہے۔ کچھ مواد پر ”پوٹینشل پریذیڈینشل سیکرٹ“، ”متفرق خفیہ دستاویزات“ لکھا ہوا ہے۔ کچھ فائلوں میں ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اور تصاویر بھی ہیں۔ ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران ٹرمپ کی رہائش گاہ میں اُن کے دفتر، خواب گاہ، کمرہِ مطالعہ، اسٹور رومز اور اُن کے اسٹاف کے زیرِ استعمال کمروں کی تلاشی لی گئی۔
چھاپے کے وقت صدر ٹرمپ نیویارک میں تھے اور اطلاعات کے مطابق سابق خاتونِ اوّل اور ٹرمپ کے چھوٹے صاحب زادے گھر پر موجود تھے جنھوں نے ایف بی آئی کے ایجنٹوں سے مکمل تعاون کیا۔ میلانیا ٹرمپ صاحبہ نے بھی تلاشی کے دوران کسی تلخ کلامی، بحث مباحثے یا ناخوشگوار واقعے کا ذکر نہیں کیا۔
چھاپے کے دوسرے روز ریاست اوہایو کے شہر سنسناٹی (Cincinnati) میں ایک مسلح شخص نے ایف بی آئی کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ہلاک کردیا گیا۔ تحقیقات کے بعد اس شخص کی شناخت رکی شفر (Ricky Shiffer) کے طور پر کئی گئی۔ مبینہ ملزم کا تعلق ٹرمپ نواز انتہا پسندوں سے تھا۔ بیالیس سالہ رکی 6 جنوری کو دارالحکومت پر حملے کا نامزد ملزم اور ایف بی آئی کو مطلوب تھا۔
اپنے گھر پر چھاپے کو صدرٹرمپ نے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کی ایما پر کیے گئے ان اقدامات کا مقصد انھیں 2022ء کے وسط مدتی انتخابات کے لیے ری پبلکن پارٹی کی انتخابی مہم سے روکنا اور 2024ء کے صدارتی انتخابات میں انھیں نااہل کرانا ہے۔ سابق صدر نے 2024ء کے انتخابات میں صدر بائیڈن کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کے پیشرو صدر بارک حسین اوباما آفس چھوڑتے ہوئے 3 کروڑ 30 لاکھ صفحات پر مشتمل کلاسیفائیڈ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے جن میں بہت سی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تھیں۔ تاہم امریکہ کے قومی محفوظات (National Archive) کی جانب سے ترنت جاری ہونے والے بیان میں ٖڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما کی مدتِ صدارت مکمل ہوتے ہی حساس نوعیت کی تمام دستاویزات قومی محفوظات نے اپنے قبضے میں کرلی تھیں۔
دوسرے دن صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ کارروائی ان کے حکم پر عدالت سے اجازت لے کر کی گئی ہے اور اس بارے میں صدر بائیڈن سے مشورہ تو کجا امریکی صدر کو پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ اسی کے ساتھ امریکہ محکمہ انصاف نے پروانہِ تلاشی جاری کرنے والے منصف (جج) سے وارنٹ اور تلاشی کے دوران ملنے والی معلومات کو مشتہر کرنے کی درخواست کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ انتقام نہیں فروغِ انصاف کے لیے قائم کیا گیا ہے اور قانون کی حکمرانی کے لیے امریکی محکمہ انصاف پُرعزم ہے۔
اپنی جوابی درخواست میں جناب ٹرمپ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کی وضاحت کے لیے درخواست دائر کررکھی ہے اور اس کا فیصلہ ہونے تک ایف بی آئی کو ان دستاویزات کے جائزے سے روکا جائے۔ ٹرمپ نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کے تعین کے لیے ”خصوصی ماسٹر“ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے خصوصی ماسٹر ایسی ضبط شدہ دستاویزات کے جائزے کے لیے نامزد کیا جاتا ہے جنہیں کوئی اہم شخصیت اپنے پاس رکھنے کا استحقاق رکھتی ہو۔ یعنی عام ایف بی آئی اہلکار ان دستاویزات کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے۔
جناب ٹرمپ کی درخواست پر جج نے کہا کہ منفی پروپیگنڈے کے حوالے سے درخواست گزار کی تشویش جائز ہے لیکن عوامی دلچسپی کی بنا پر دستاویز کا مکمل طور پر سربمہر رہنا بھی مناسب نہیں۔ جج نے محکمۂ انصاف کو ہدایت کی کہ وہ اس حلف نامے میں جن معلومات کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے ان کے بارے میں ترمیم کی تجویز پیش کرے۔ دوسرے دن وفاقی عدالت نے ٹرمپ کے اعتراض کے باوجود سربمہر وارنٹ کو کھول دیا۔
پروانہ تلاشی کی درخواست میں سابق صدر کی جانب سے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہ کا اجمالی ذکر تو ہے لیکن ان مبینہ جرائم کے تحت کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک وفاقی جج کی جانب سے ارتکاب جرم کے شبہ پر پروانہِ تلاشی کا اجرا صدر ٹرمپ کے لیے نیک شگون نہیں۔
ان کے گھر سے برآمد ہونے والی دستاویزات کی تفصیل بھی سنسنی خیز ہے۔ اب اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ مدتِ صدارت کے اختتام کے بعد ان دستاویزات کی ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس موجودگی قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی نجی رہائش گاہ سے جو مواد قبضے میں لیا گیا ہے اس میں سے کچھ پر قومی سلامتی کے حوالے سے اہم اور خفیہ ترین کے نشان لگے ہوئے ہیں جنہیں صرف نامزد سرکاری تنصیبات میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنے دفاع میں سابق صدر نے کہا کہ وہ اپنی مدتِ صدارت کے دوران گھر لے جانے والی تمام دستاویزات کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی خصوصی حیثیت کو ختم کرچکے تھے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا امریکی آئین کے رو سے انھیں یہ اختیار حاصل تھا لیکن وہ اس کا کوئی دستاویزی ثبوت اب تک پیش نہیں کرسکے اور برآمد ہونے والی دستاویزات میں اصل لیبل اب تک چسپاں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جن ایجنٹوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی ہے وہ جو کچھ بھی چاہتے وہاں رکھ سکتے تھے۔ یہ الزام اس اعتبار سے مہمل ہے کہ تلاشی، عدالتی حکم پر لی گئی اور ایف بی آئی ایجنٹوں نے تلاشی کے دوران فارنزک ثبوت کا اہتمام کررکھا ہے۔ سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انھوں نے قومی محفوظات سے یہ دستاویزات اٹھوانے کی درخواست کی تھی اور اِس سال کے شروع میں ان کی رہائش گاہ سے کچھ بکس واپس محفوظات میں جمع کرادیے گئے، لیکن باقی دستاویزات اٹھوانے کا انتظام نہیں کیا گیا، چنانچہ محفوظات کی کوتاہی کا انھیں ذمہ دار ٹھیرانا درست نہیں۔
جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے، اور لگتا ہے کہ محکمہ انصاف جلد ہی اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کردے گا، اور بظاہر سابق صدر کے خلاف الزامات سنگین نظر آرہے ہیں۔
……………………..
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔