میرواعظ کی نظر بندی اور بھارت کا جھوٹ

کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیرمین میرواعظ عمر فاروق کی ایک وڈیو گزشتہ جمعہ کو اُس وقت سامنے آئی جب انہوں نے اپنی رہائش گاہ سے نکل کر خطبہ ٔ جمعہ دینے کے لیے کشمیر کی تاریخی جامع مسجد سری نگر کی طرف جانے کی کوشش کی۔ پولیس اہلکاروں نے انہیں گھر کے مرکزی دروازے پر ہی روک لیا جہاں میر واعظ عمر فاروق نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مکالمہ کیا۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ جامع مسجد جانے کی اجازت نہ دینا ہمارے بنیادی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے، میں تین سال سے گھر میں نظربند ہوں، کسی سے مل نہیں سکتا، میری نانی کا انتقال ہوا، چچا کا انتقال ہوا مگر مجھے اُن کے ہاں جانے نہیںدیا گیا، اگر میں آزاد شہری ہوں تو نظربند کیوں ہوں؟
جمعہ سے ایک دن پہلے کل جماعتی حریت کانفرنس نے جامع مسجد کے خالی منبر کی وڈیو کلپ اَپ لوڈ کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ یہ منبر تین سال سے خالی ہے، امید ہے کل میرواعظ اس پر براجمان ہوں گے اور ہزاروں افراد کے سامنے جمعہ کا خطبہ دیں گے، اِن شااللہ۔ دوسرے روز یہ امید پوری نہ ہوسکی اور میر واعظ عمر فاروق کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی۔ جامع مسجد کے نمازیوں نے اپنا غصہ یوں نکالا کہ انہوں نے مسجد میں سلاخوں کے پیچھے بنے میر واعظ کے پوسٹر اُٹھا رکھے تھے جن پر یہ عبارت درج تھی: ’’جھوٹ بولنا بند کرو، میرواعظ کو رہا کرو‘‘۔
5 اگست 2019ء سے پہلے بھارتی حکومت نے جو’’حفاظتی‘‘ اقدامات کیے، میر واعظ عمر فاروق کی نظربندی ان کا حصہ تھی۔ اس سے پہلے ہی جامع مسجد کو خاردار تاروں میں لپیٹ دیا گیا تھا، اور اس کا مقصد کشمیریوں کے اس قدیم دینی اور تہذیبی مرکز کو کسی ممکنہ احتجاج کا مرکز بننے سے روکنا، میرواعظ کی زباں بندی کرنا اور انہیں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے سے باز رکھنا تھا۔
نمازِ جمعہ کے بعد جامع مسجد کے نمازی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر نعرے بازی کرتے ہیں اور اکثر اوقات یہ احتجاج پتھربازی تک دراز ہوتا رہا ہے۔ اس لیے جامع مسجد سری نگر کے میناروں کو خاموش اور اس کے دروازوں کو مقفل کرنا بھارت کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تین سال گزر گئے، میرواعظ کی نظربندی ختم نہ ہوسکی۔ اس دوران بھارتی ذرائع نے یہ خبریں بھی دیں کہ میرواعظ ایک ڈیل کے نتیجے میں نہ صر ف خاموش ہیں بلکہ نظربندی بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ کشمیر کے وسط میں رائے عامہ کے ایک حصے پر اپنا گہرا رسوخ رکھنے والے سیاسی اور مذہبی راہنما کی ساکھ کو متاثر کرنے کی منظم مہم تھی، جس کا مقصد کشمیر کے عام آدمی کو حالات سے مایوس کرکے خود سپردگی پر مجبور اور آمادہ کرنا تھا۔ کشمیر میں سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی جیسی قدآور شخصیات منظر خالی کرکے ابد کی راہوں کو چل پڑی ہیں۔ یاسین ملک، شبیر شاہ، نعیم خان، مسرت عالم، عبدالحمید فیاض جیسے سیاسی راہنمائوں کو بھارت کی دوردراز جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان کے ساتھ کشمیر کے ہزاروں فعال سیاسی کارکنوں کو بھی جیلوں میں مقید کردیا گیا۔ اس طرح حریت پسندکیمپ کو مکمل خالی اور ویران کردیا گیاہے۔ لے دے کر میرواعظ عمر فاروق ہی منظر پر موجود ہیں جنہیں نہ تو بھارتی حکومت گرفتار کرسکتی ہے اور نہ آزاد چھوڑ سکتی ہے۔ میرواعظ کی گرفتاری سے بھارتی حکومت کو بھارت کے مسلمانوں اور عرب ملکوں کی طرف سے ردعمل کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔
موجودہ حالات میں یہ خوف شاید بے سبب ہے۔ عرب دنیا کشمیری مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ چکی ہے۔ میرواعظ کی عوامی ساکھ کو مشکوک بنانے اور کشمیریوں کے حوصلے توڑنے کے لیے بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہنا شروع کیا کہ میرواعظ تو آزاد ہیں، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس دعوے کو جانچنے کی پہلی کوشش بی بی سی کی رپورٹر نے کی، جس نے انٹرویو کی خاطر میرواعظ عمر فاروق کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر اسے پولیس اہلکاروں کی طرف سے گھر میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ بی بی سی کی خاتون رپورٹر نے یہ مناظر لائیو چلائے اور اُس وقت میرواعظ اپنے گھر کی جالی سے باہر جھانک رہے تھے۔ اس کے باوجود کشمیر کے گورنر نے میرواعظ کو آزاد شہری کہا تو میرواعظ عمر فاروق نے اس دعوے کی حقیقت بتانے کے لیے خود جامع مسجد جانے کا راستہ اپنایا، لیکن بھارتی حکام نے انہیں روک کر ’’کشمیر میں سب اچھا ہے‘‘ کے اپنے ہی دعوے کو رد کردیا۔ اس طرح دنیا کو اندازہ ہوا کہ کشمیر میں تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود ہے اور وہی کشمیر کی اصل حقیقت ہے۔ اس سے کشمیر کے لوگوں کو بھی اندازہ ہوا کہ ابھی بھی کشمیر کی حریت پسند قیادت اپنے قدموں پر کھڑی ہے اور جبر کا پردہ گر جائے تو دنیا کشمیر کی اصل تصویر اور حالات کے حقیقی چہرے سے آشنا ہوسکتی ہے۔