خیبر پختون خوامیں سیلاب کی تباہ کاریاں

حالیہ سیلاب کو سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب قرار دیا جارہا ہے

خیبر پختون خوا کو ایک بار پھر تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوات میں تباہی مچاتا ہوا سیلابی ریلا چکدرہ، منڈا اور تنگی کے راستے چارسدہ اور نوشہرہ میں تباہی مچاتے ہوئے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوگیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سوات میں 15 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ ضلع بھر میں 150 سے زائد گھر تباہ،50 سے زائد ہوٹل دریا برد، اور 24 رابطہ پل بہہ گئے۔ سوات میں بجلی کی ترسیل معطل ہے، بحرین اور کالام کا زمینی رابطہ منقطع ہے۔ سیلابی ریلے نے کالام، مدین، بحرین، جرے، قندیل، مٹہ، مینگورہ سے بریکوٹ تک دریائے سوات کے کنارے ہوٹلوں، مساجد، دکانوں، مکانات، ریسٹورنٹس وغیرہ کا صفایا کردیا ہے۔ درشخیلہ، اغل، کالا کوٹ، چمن لالئی اور چاٹیکل کے مقام پر10 افراد کی لاشیں دریائے سوات سے ملی ہیں۔ بحرین اور مدین کے مقام پر سیلابی ریلا سڑکوں کے کچھ حصوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے جس کی وجہ سے مدین، بحرین اور کالام کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ سیلابی ریلا اپنے ساتھ بجلی کے کھمبوں کو بھی اکھاڑ کر لے گیا جس کی وجہ سے مینگورہ شہر سمیت سوات کے بیشتر علاقوں کی بجلی گزشتہ کئی روز سے منقطع ہے۔ کالام اور بحرین میں پھنس جانے والے سیاحوں کے لیے مقامی ہوٹلوں کی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ راستے بحال ہونے تک مہمانوں سے نہ تو کمروں کا کرایہ اور نہ ہی کھانے پینے کا بل وصول کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمودخان کی خصوصی ہدایت پر سوات میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جو 30 اگست تک نافذالعمل رہے گی۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ سیلاب متاثرین کو کھانے پینے سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
سیلاب کے پیش نظر سوات یونیورسٹی نے 27 اگست سے شروع ہونے والے بی اے، بی ایس سی، بی بی اے، بی کام کے سالانہ امتحانات بھی منسوخ کردیئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دریائے سوات میں پانی کے زیادہ دبائو سے منڈاہیڈ ورک کے علاوہ مہمند ڈیم کی دیوار بھی ٹوٹ گئی ہے جس سے مہمند، خیبر اور پشاور کے مختلف علاقوں میں بھی پانی داخل ہوگیا ہے۔ ڈیم ٹوٹنے سے تمام تعمیراتی مشینری سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہے جبکہ سیلابی ریلوں کے نتیجے میں مختلف اضلاع کے درمیان رابطے اور مرکزی سڑکیں اور پل بھی بہہ گئے ہیں۔ سوات ایکسپریس وے کو مختلف مقامات پر نقصان کے باعث بند کردیا گیا ہے۔ پشاور اور نوشہرہ جی ٹی روڈ پر بھی پانی آگیا ہے لہٰذا اسے بھی ازاخیل سے نوشہرہ تک ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ سیلاب سے مردان کے نواحی علاقے بھی زیرآب آگئے ہیں اور کھیتوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا ہے جس سے تیار فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ چارسدہ اور نوشہرہ کے نواحی علاقوں میں شدید سیلاب کے خطرے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں کی نقل مکانی شروع کردی گئی ہے۔ نوشہرہ میں بھی ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے دریائے کابل کے کناروں سے ملحقہ رہائشی علاقوں میں مساجد سے اعلانات کرواکر لوگوں کونقل مکانی کی درخواست کی گئی ہے۔ متاثرہ اضلاع میں کھیت اور باغات کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مویشی اور گھریلو سامان سیلاب کے پانی میں بہہ گیا ہے۔ اس تناظر میں ملاکنڈ، مردان، نوشہرہ اور چارسدہ کے مختلف علاقوں میں اسکول اور بازار بند کردیئے گئے ہیں۔ تمام دفاتر، رہائشی عمارتیں اور گلی محلے اس وقت تین سے چار فٹ پانی میں گھرے ہوئے ہیں اس لیے متعلقہ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور تمام سرکاری گاڑیوں میں لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کی ہدایت کردی گئی ہے۔
اسی دوران جنوبی اضلاع ٹانک اور ڈی آئی خان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق درجنوں دیہات میں چار سے پانچ فٹ پانی جمع ہے جس کے نتیجے میں سبزیوں اور اجناس کے علاوہ کھجور اور آم کے باغات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ چارسدہ میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث لوگوں میں خوف و ہراس ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر اورکھڑی فصلیں و باغات تباہ ہوگئے ہیں جس کے بعد صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح چارسدہ میں بھی فلڈ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، جبکہ منڈا ہیڈ ورکس پل کے اوپر پانی کا ریلا گزرنے کے باعث پل کو ٹریفک کے لیے بند کردیاگیا ہے، جس سے چارسدہ کی تحصیل تنگی اور شبقدر کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ جی ٹی روڈ خیالی (چارسدہ)کے مقام پر پل بند کرکے ٹریفک موٹر وے کی طرف موڑ دی گئی ہے۔ چارسدہ اور پشاور کا رابطہ بھی منقطع ہوگیاہے۔ رات گئے چارسدہ شہر میں بھی عوام کو اپنے آپ کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے اعلانات کیے گئے۔ دریائے سوات میں منڈا اور خیالی کے مقام پر پانی کی سطح 2 لاکھ 55 ہزار کیوسک تک پہنچ گئی ہے جس نے 2010ء کے سیلاب کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جوکہ 1 لاکھ 75ہزار کیوسک تھا، اور پانی کی سطح مزید بلند ہونے کا خدشہ بھی ظاہرکیا جارہا ہے۔
مون سون کی حالیہ بارشوں، گلیشیر اور بادل پھٹنے سے پیدا ہونے والے سیلاب نے خوفناک صورت اختیار کرلی ہے۔ سیلابی ریلے میں مٹی کے ساتھ ساتھ کیچڑ، لکڑیوں اور بڑے بڑے پتھروں نے مل کر سیلاب کو مزید خطرناک بنادیا ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید خوف لاحق ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک برساتی نالے کی گزرگاہ مکمل طور پر خشک ہے تاہم اچانک بادل اور گلیشیر پھٹنے سے یہ گزرگاہ بھر جاتی ہے اور تیز پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ پانی راستے میں اپنے ساتھ مٹی، پتھر اور لکڑیاں بہاتے ہوئے ایسی خوفناک صورت اختیار کرجاتا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کالے اور بھورے رنگ کا پانی اور کیچڑ انتہائی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتااور اپنے ساتھ تمام رکاوٹوں کو بھی بہا لے جاتا ہے کہ شہری صرف اپنی جمع پونجی کو بہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
پشاور سے 35 کلومیٹر دور مہمند ڈیم جس کے لیے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم فنڈنگ کے نام سے چندہ مہم بھی شروع کی تھی، کا کچھ حصہ سیلاب کے باعث ٹوٹ گیا ہے۔ جبکہ دریائے سوات میں آنے والے شدید سیلاب کا پانی اپنا دباؤ مسلسل بڑھاتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے کہ سیلابی پانی کا ریلا ڈیم کی ایک حفاظتی دیوار کو توڑ کر دیگر تعمیراتی بلاکس میں داخل ہورہا ہے۔ شبقدر دریائے سوات میں شدید سیلاب سے دریا کے کنارے دیہاتوں میں سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوگیا ہے۔ بیلہ نمبر 4 چاروں طرف سے پانی میں ڈوب گیا ہے۔ زیرتعمیر مہمند ڈیم کے ڈائی ورژن میں پانی داخل ہوگیا ہے جس سے ڈیم اور تعمیراتی سامان کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ منڈا کا پل پانی میں مکمل ڈوب گیا ہے جس سے تنگی اورشبقدرکے درمیان ٹریفک معطل ہوگئی ہے۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ دریائے سوات میں شدید سیلاب نے تحصیل شبقدر کے دیہاتوں بیلہ نمبر 4، صدر گڑھی، کتوزئی، منڈا خیل، صریخ مروزئی، بٹگرام، خرکی ونحقی اور ملحقہ دیہاتوں میں بھی تباہی مچادی ہے۔ سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوگیا ہے۔ تحصیل انتظامیہ کے اعلانات کے بعد اکثر علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں۔ کئی مقامات پر زمین دریا برد ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں حالیہ طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلابی صورت حال نے ڈیرہ شہر کے مضافاتی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ڈیرہ بنوں روڈ کے اطراف شورکوٹ، پشہ پل، سی آر بی سی کالونی، رتہ کلاچی اسپورٹس کمپلیکس، چڑیا گھر کے علاوہ ڈیرہ درابن روڈ پر مفتی محمود اسپتال میں بھی کئی فٹ تک سیلابی ریلے داخل ہوگئے ہیں۔ ریسکیو1122 کی ٹیمیں پشہ پل و دیگر مقامات پر رات گئے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف رہیں۔
ضلع لوئر کوہستان کے علاقے سناگئی دوبیر میں 5 دوست تین گھنے تک پھنسے رہنے کے بعد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق پانچوں دوست اچانک سیلابی ریلے کی زد میں آنے کے بعد ایک بلند پتھر پر چڑھ گئے تھے اور وہ تین گھنٹے تک حسرت اور بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ پانچوں دوست امداد کا انتظار کرتے رہے مگر کوئی سرکاری ادارہ یا ریسکیو ٹیم ان کی مدد کو نہیں پہنچی۔ شہریوں کے مطابق اگر انتظامیہ چاہتی تو ایک گھنٹے میں پشاور یا گلگت سے ہیلی کاپٹر ان پانچوں نوجوانوں کو ریسکیو کرنے کے لیے پہنچ سکتا تھا، مگر چونکہ یہ افراد وی وی آئی پی نہیں تھے اس لیے ان کی مدد کو کوئی نہیں آیا، جس پر مقامی افراد نے رسیوں کے ذریعے انہیں نکالنے کی ہرممکن کوشش کی مگر بالآخر وہ تیز موجوں کی نذر ہوگئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پانچ میں سے صرف ایک نوجوان کو ریسکیو کیا گیا جبکہ ابھی تک صرف ایک ہی لاش ملی ہے۔ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں اور شہریوں نے حکومت کی جانب سے نوجوانوں کو بروقت ریسکیو نہ کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے سیلاب کے پیش نظر بعض علاقوں کے مکینوں سے فوری طور پر علاقے خالی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ڈی سی آفس سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کا کہا گیا ہے۔ انتباہی بیان میں جن علاقوں کو خالی کرانے کا کہا گیا ہے ان میں نوشہرہ کلاں (جملہ آبادی)، امان گڑھ، گجر بستی، خٹ کلے، پیرسباق، کینٹ میں دھوبی گھاٹ اورکنٹونمنٹ بورڈکے علاقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ زڑہ میانہ، مصری بانڈہ، مرہٹی، وتڑ (جی ٹی روڈ کے دائیں طرف)، تاج محل ریسٹورنٹ، اجمیری و عالم گارڈن ہال، عثمانیہ شادی ہال و ریسٹورنٹ، ریور ویو اور کوربہ ریسٹورنٹ، اکوڑہ خٹک باغبان آباد، جہانگیرہ اور اس سے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے کابل میں پانی کا بہائو 155400 کیوسک ہے جو کہ 300000 سے 410000 کیوسک تک بڑھنے کا امکان ہے، اوریہ 2010ء کے سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا دریائے کابل سے ملحقہ علاقوں کے شدید سیلاب کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر نوشہرہ نے ضلع بھر میں فلڈ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے، اسپتال، پرائیویٹ بلڈنگز و گاڑیاں ضلعی انتظامیہ کے براہِ راست انتظامی کنٹرول میں رہیں گی، تمام تعلیمی ادارے دو دن کے لیے بند رہیں گے، اسکول کھولنے یا بند رکھنے سے متعلق مزید اَپ ڈیٹ کا اعلان اتوار کے روز کیا جائے گا۔
صوابی کی ضلعی انتظامیہ نے دریائے کابل کے کنارے رہنے والی آبادی کو محفوظ مقامات پرمنتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں، جب کہ تحصیل لاہور میں عارضی ریلیف اور رہائشی کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں۔ دریائے کابل کے کنارے آبادگائوں آلہ ڈھیر میاں عیسیٰ، روزی آباد، جہانگیرہ کے مکینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے قیمتی سامان کے ساتھ ممکنہ سیلاب سے بچنے کی خاطر گھر بار چھوڑ کر رشتے داروں یا سرکاری اسکولوں میں منتقل ہوجائیں۔ جس کے لیے جہانگیرہ کے چاروں اسکولوں کے علاوہ حیات آباد جہانگیرہ، وصال آباد جہانگیرہ، مڈل اسکول جہانگیرہ، مڈل اسکول وصال آباد، پرائمری اسکول آلہ ڈھیر، گرلز پرائمری اسکول آلہ ڈھیر، پرائمری اسکول عظیم گڑھی، گرلز پرائمری اسکول چک کنڈ، گرلز پرائمری اسکول اسماعیل آباد، میرہ عظیم گھڑی، شیرنبی بانڈہ، گرلز مڈل اسکول شیرنبی بانڈہ، غریب آباد، میرہ جہانگیرہ،گرلزپرائمری اسکول تین اور چار جہانگیرہ، عدنان آباد جہانگیرہ کے اسکول میں عارضی کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں۔ دریائے کابل میں ملاکنڈ اور افغانستان میں ہونے والی طوفانی بارشوں کا سیلابی ریلا آنے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرلی گئی ہیں، دریائے کابل میں اگلے چوبیس گھنٹے میں پانی کا ہائی لیول 3 لاکھ کیوسک پہنچنے سے سیلاب کا خطرہ ہے جس سے ضلع صوابی کے علاقے جہانگیرہ، شاہ کنڈ، میاں عیسیٰ، روزی آباد اور آلہ ڈھیر میں سیلاب سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
دریں اثناء خیبر پختون خوا کے 10 اضلاع میں سیلاب سے متعلق ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے مختلف اضلاع میں 21 مقامات پر سیلابی صورت حال کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس میں چار مقامات پراونچے درجے کا سیلاب، ایک مقام پر اونچے سیلاب کا ریلا، دس مقامات پر کم درجے سیلاب کا ریلا، جبکہ 15 مقامات پر معمول کے سیلاب کا ریلا، دو مقامات پر درمیانے درجے کے سیلاب کا ریلا گزر رہا ہے۔ دریائے کابل، ورسک سمیت مختلف مقامات پر اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے جس میں چار لاکھ کیوسک فٹ پانی نوشہرہ سے گزرنے کے امکانات ہیں۔ جی ٹی روڈ، موٹر وے پر حفاظتی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں اور نوشہرہ کے درجنوں علاقوں کو حساس ترین قرار دے دیا گیا ہے۔ سیلاب کی بدترین صورت حال کے باعث سرکاری مقامات پر بھی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ خوراک کے گوداموں میں بھی حفاظتی اقدامات بڑھا دیئے گئے ہیں۔ پشاور، چارسدہ، مردان، نوشہرہ سے نقل مکانی کی ہدایات جاری کرنے کے بعد بڑی تعداد میں نقل مکانی تیزی سے شروع ہوگئی ہے۔ ـ
سیلاب کی بدترین صورت حال کے باعث پشاور سے پنجاب سمیت دیگر بین الاضلاعی رابطے منقطع ہونے کا امکان ہے۔ ادھر صوبائی حکومت نے ٹانک، ڈی آئی خان، سوات، لوئر دیر، نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، لوئر کوہستان، شانگلہ اور مردان میں ایمرجنسی لگادی ہے۔ امکان ہے کہ مذکورہ اضلاع کو بھی آفت زدہ قرار دیا جائے گا۔
سوات میں آنے والے حالیہ سیلاب کو سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب قرار دیا جارہا ہے۔ شواہد کے مطابق 1927ء میں سوات میں پہلا بڑا سیلاب آیا تھا جس کا ریکارڈ سرکاری محکموں کے پا س موجود نہیں ہے۔ البتہ جولائی2010ء میں سوات میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے موجودہ سیلاب دوگنا سے بھی زیادہ بتایا جاتا ہے۔ محکمہ ایری گیشن سوات کے ایس ڈی او نذیر احمدکے مطابق سال2010ء میں دریائے سوات میں آنے والا سیلاب انتہائی اونچے درجے کا تھا، جس کا اخراج175000 کیوسک تھا، جب کہ گزشتہ روز آنے والے سیلاب میں دریائے سوات میں پانی کا بہائو238993کیوسک ریکارڈ کیا گیا جو دریائے سوات میں پانی کا اب تک سب سے زیادہ تاریخی اخراج ہے۔