پاکستان میں جب بھی مشکل وقت اآیا،حکمرانوں کی نااہلی سامنے آئی
مون سون کی ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا۔ ہر جگہ ایک بڑا سمندر موجود ہے۔ پانی کو باہر نکالنے اور جاں بحق ہوجانے والوں کی تدفین کے لیے کوئی خشک زمین نہیں، اور جہاں کچھ خشک زمین میسر ہے وہاں ملک کے سیاست دان ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، انہیں احساس ہی نہیں کہ سیلاب نے قومی زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، سیلاب سے متاثرہ خاندان ایک ایک پائی کو ترس رہے ہیں مگر اسلام آباد میں صاحبِ ثروت افراد کے ایک فورم نے ایوانِ صدر میں ایوارڈ کی تقسیم کا میلہ لگایا، اور جس میں ایوارڈ کے خواہش مندوں نے دو دو لاکھ روپے دے کر ایوارڈ حاصل نہیں کیا بلکہ خریدا ہے۔ یہ سب کردار احتساب کے قابل ہیں۔ جب تک سیلاب ختم نہیں ہوجاتا اور ہر متاثرہ خاندان واپس اپنے گھروں میں آباد نہیں ہوجاتا، ایوانِ صدر سمیت ملک کے کسی بھی اعلیٰ سطحی فورم پر ایسی تقریبات پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، کیونکہ تلخ حقائق یہ ہیں کہ ایک تہائی ملک براہِ راست سیلاب سے متاثر ہے اور بحالی کے لیے ایک بڑے غیر معمولی امدادی پیکیج کی ضرورت ہے۔ سیلاب کے بعد متاثرین میں ڈینگی، امراضِ معدہ اور دیگر متعدی امراض بھی پھیلنے لگے ہیں۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب 2010ء کے سیلاب سے بھی بڑی ناگہانی آفت بن کر ٹوٹا ہے۔ بلاشبہ پاکستان دنیا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ صورتِ حال ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں مثلاً ماحولیاتی آلودگی کے پھیلائو اور درختوں کی کٹائی کے باعث ہے۔2010ء کا سیلاب جس میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے مطابق 43 ارب ڈالرکے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور حالیہ سیلاب، جس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ لگایا جارہا ہے، لیکن حتمی اعدادوشمار سیلابی پانی اُترنے کے بعد ہی یکجا کیے جا سکیں گے۔ موسلادھار بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے ملکی معیشت کو اب تک دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے، ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں، ایک ہزار سے زائد مرد و زن اور بچے مکانات گرنے یا ندی نالوں اور دریائوں میں بہہ کر جاں بحق ہوئے ہیں، دس لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہوگئے ہیں اور کھربوں روپے کی فصلیں، گھریلو سازوسامان، سڑکیں، پل، ڈیم اور دوسرا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ابھی ابتدائی تخمینوں کا نتیجہ ہیں جبکہ مکمل سروے کے بعد اصل نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ پہلا سیلاب ابھی ختم نہیں ہوا کہ بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی کا دبائو سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کی ضرورت ہے۔
سیلابوں سے نقصان ایک قدرتی امر ہے، تاہم انسانوں کے ہاتھوں ہونے والا نقصان کبھی فراموش نہیں ہوسکتا۔ دنیا بھر کا جائزہ لے لیا جائے، دنیا کے 140 ممالک نے گزشتہ 122 سالوں کے دوران آب پاشی، گھریلو یا صنعتی استعمال کے لیے پانی فراہم کرنے، پن بجلی پیدا کرنے اور سیلاب پر قابو پانے میں مدد کے لیے 45000 سے زیادہ ڈیم بنائے ہیں، جبکہ پاکستان ابھی تک چھوٹے بڑے صرف 150 ڈیم ہی بنا سکا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب دنیا بھر میں سیراب شدہ اراضی کا تقریباً 30 سے 40 فیصد حصہ ڈیموں پر انحصار کرتا ہے، مگر ہم ہیں کہ ایک ڈیم کی تعمیر کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
پاکستان میں جب بھی مشکل وقت آیا، حکمرانوں کی نااہلی سامنے آئی ہے۔ سیلاب ہو، زلزلہ ہو یا کوئی اور قدرتی آفت… پاکستان میں جب بھی آئی، حکومتوں کو بے نقاب کرکے گئی ہے۔ حالیہ سیلاب اگرچہ شدت میں بہت زیادہ تھا تاہم قدرتی آفات سے جس طرح نمٹا جاتا ہے پاکستان میں حکومتوں کی سطح پر ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا ہے لیکن دو عشرے گزر گئے یہ ادارہ تربیت یافتہ افراد ملک کو نہیں دے سکا، بلکہ جو وسائل اسے مہیا کیے گئے یہ سب کرپشن کی نذر ہوئے۔ اس کی جگہ اب ایک نیا ادارہ بنانے کا اعلان ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے حالیہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو یقین دلایا جارہا ہے کہ حکومت انہیں واپس گھروں میںآباد کرے گی۔ لیکن یہ سب دعوے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے اور2010ء کے سیلاب کے متاثرین کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بحال نہیں ہوسکی۔ سندھ میں قومی شاہراہوں کے ساتھ خیمہ بستیاں انہی متاثرین کی ہیں۔ انہیں باعزت روزگار ملا نہ مناسب رہائش کا انتظام کیا جاسکا۔ جو کام ریاست اور حکمرانوں کو کرنا تھا، وہ اب مذہبی تنظیمیں اور خیراتی ادارے کررہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں روکنے کی صلاحیت ہماری حکومتوں کے پاس نہیں ہے۔
حال ہی میں تحریک انصاف کے راہنما آئی ایم ایف کی قسط ملنے سے عین ایک دو روز قبل ایک ایسا خط منظرعام پر لائے جس سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یہ خط ظاہر کرتا ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے قومی مفادات کو مجروح کیا گیا۔ یہ خط ملک کو دیوالیہ ہوجانے کے خطرے سے دوچار کرسکتا تھا۔ تاہم تیمور سلیم جھگڑا نے آئی ایم ایف کو خط بھیجنے کی تردید کی ہے، لیکن آئی ایم ایف سے اس متوقع معاہدے سے محض چند گھنٹے پہلے اس خط کا لکھا جانا ہی بہت بڑا سوال ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اس کا نوٹس تو کیا لینا تھا، اُن کا اپنا طرزعمل یہ ہے کہ قومی تاریخ کے خطرناک ترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے ملک کے دوچار ہونے کے باوجود وہ سیاسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ سیلاب ہی نہیں جنگوں کے دوران بھی حکومت کے خلاف جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، کیونکہ بقول اُن کے وہ حقیقی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کا یہ رویہ قومی مفاد کی میزان میں تولا جانا چاہیے۔ یہ کسی ہوش مند سیاسی اور قومی قیادت کا رویہ نہیں ہوسکتا کہ سنگین معاشی بحران اور سیلاب کے چیلنج سے دوچار اپنے ملک کے، عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ جاری ان مذاکرات کو ناکام بنادیاجائے جن پر قومی معیشت کی بحالی کے راستے کھلنے کا دارومدار ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ملک میں عشروں کا ریکارڈ توڑ دینے والی بارشوں اور سیلاب نے ملک بھر میں قیامت برپا کررکھی ہے۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختون خوا اور جنوبی پنجاب کے وسیع علاقے بدترین تباہی سے دوچار ہیں۔ کم و بیش ایک ہزار مرد و زن، بوڑھے اور بچے آسمانی آفت کی نذر ہوچکے ہیں، بلوچستان میں بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام معطل ہے۔ مینگورہ، کالام، مٹہ، لوئر دیر، کوہستان، مدین سمیت دیگر سیاحتی علا قوں میں متعدد ہوٹل اور مکانات منہدم اور مرکزی شاہراہیں معدوم ہوگئی ہیں، نیز ہزاروں گاڑیاں، درجنوں پل، سیکڑوں انسان اور مال مویشی سیلابی ریلے بہا لے گئے ہیں۔ نقصانات کا مجموعی تخمینہ نو سے دس کھرب روپے تک ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے چاروں صوبوں کی درخواست پر ملک بھر میں سیلاب زدگان کے ریلیف اور ریسکیو کارروائیوں میں سول حکومت کی مدد کے لیے فوج تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان پہلے ہی شدید معاشی بحران سے نبرد آزما تھا، اب ملک گیر سیلاب نے ایک ایسی قومی آزمائش سے دوچار کردیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے مکمل یکجہتی لازمی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے قومی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ایک مثبت فیصلہ ہے، آئندہ ہفتے قومی کانفرنس ہوگی جس میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد کشمیر، چیئرمین این ڈی ایم اے کے علاوہ تمام متعلقہ شراکت داروں کو مدعو کیا جائے گا۔ کانفرنس کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان اشتراکِ عمل کو مربوط بنانا ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے سیلاب زدگان کے لیے فنڈز دینے کی اپیل کرنے سے انکار کردیا ہے، حالانکہ پنجاب اور خیبر پختون خوا جہاں ان کی حکومت ہے، سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے فنڈز کی اپیل کی بھی ہے تو اپنی حکومت مخالف تحریک کے لیے، انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف کے قطر کے اہم دورے کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش کی۔ خود وہ بے مقصد جلسوں میں الجھے ہوئے ہیں، انہیں اتنی فرصت نہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے اور اپنی دونوں صوبائی حکومتوں کو متحرک کرتے۔ چند گھنٹوں کے لیے انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا اور وفاق کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ یقیناً ماحولیاتی تباہی کے مسئلے کو اجاگر کرتے رہے تھے، لیکن ان سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ عملاً انہوں نے خود اپنی حکومت میں چھوٹے ڈیموں کا آغاز کیوں نہ کیا اور مہمند اور منڈا ڈیم کیوں ٹوٹ گئے؟ آفتوں میں گھرے پاکستان میں ان کے سر پر مقبول سیاست کا بھوت سوار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو اس وقت کئی دہائیوں کے بعدخطرناک ترین سیلاب کا سامنا ہے جس سے پاکستان کو انفرااسٹرکچر سمیت مجموعی طور پر بیس سے پچیس ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں گھروں، لاکھوں جانوروں اور اربوں ڈالر کا انفرااسٹرکچر تبا ہ ہوچکا ہے۔ حکومت اگرسیلاب سے متاثر ہ ہم وطنوں کو ٹھیک سے بحال نہ کرسکی،ان کی مدد نہ کرسکی،ان کی تکالیف کا مداوا نہ ہواتو مظلوم عوام کی بددعائیں اقتدار بھی بہالے جائیں گی،کیونکہ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ طوفانی بارشیں اور بپھرے سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزرے، تباہی کی داستان چھوڑ گئے ہیں۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا میں سیلاب نے تباہی پھیلا دی،کئی علاقوں میں کنکریٹ کے ڈیم ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ اب بے گھر، کھلے آسمان تلے بیٹھے افراد پر بیماریاں منڈلانے لگی ہیں۔ کئی علاقوں کا زمینی رابطہ ٹوٹ گیا،کوئٹہ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی اور ریل کے ذریعے رابطہ منقطع ہے۔سندھ میں بارشوں کا سلسلہ تو تھم گیا لیکن بارشوں کے بعد تباہی کی داستان رقم کرگیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ مکانات، اسپتال، ریلوے لائن سب پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کہیں امداد مل رہی ہے، کہیں متاثرہ افراد امداد کے منتظر ہیں۔
بنگلہ دیش جیسے ملک نے بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے مؤثر نظام وضع کرلیا ہے لیکن ہمارے ہاں پیشگی اقدامات کا کوئی رواج ہے اور نہ ہی ماضی سے سبق سیکھنے کی کوئی روایت۔ عام آدمی کو اس بات سے قطعاً غرض نہیں ہے کہ حکومتی ایوانوں میں کیا ہورہا ہے، اس کے لیے تو اِس وقت سانس لینا دوبھر ہے۔ ابھی بھی وقت ہے ہم سب ہوش کے ناخن لیں، اپنے اختلافات سے بالاتر ہوکر اجتماعی کوششوں کا آغاز کریں۔ سیاست تو چلتی ہی رہے گی لیکن ملک کے شہری ہر صورت مقدم ہیں، اور اُن کی سلامتی ہی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے، اسی میں سب کی عافیت ہے۔
اِس وقت فلاحی و سماجی تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ شعبہ متحرک نہ ہوتا تو سیلاب زدگان کی مشکلات ناقابلِ بیان ہوسکتی تھیں۔ فوج، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، حکومتی متعلقہ ادارے، سب اپنی اپنی جگہ کام کررہے ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مالی امداد کا اعلان بھی کیا ہے، تاہم اِس وقت اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ اِن سرگرمیوں کو مربوط اور منظم بنایا جائے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں سفراء کانفرنس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں سفراء کو حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جانی و مالی نقصان سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ اس سے یقینی طور پر بے خانماں، پریشان حال متاثرین کی ڈھارس بندھے گی اور امدادی کاموں میں بھی تیزی آئے گی۔