کراچی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سہولت کاروں کی سازش
ایک مغربی دانش ور کا قول ہے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہیں: جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ لیکن کراچی میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سہولت کاروں نے اس فقرے میں ایک ترمیم کر ڈالی ہے۔ اب یہ فقرہ اس طرح ہے: ’’جھوٹ کی تین قسمیں ہیں: جھوٹ، سفید جھوٹ اور بارش‘‘۔ یہ اس فقرے کی نظری صورتِ حال ہے۔ اس فقرے کی عملی صورتِ حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر بارش کے اندیشے کو بنیاد بناکر کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے ہیں۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ 28 اگست کو طے پانا تھا اور محکمہ موسمیات نے 27 یا 28 اگست کو ہرگز ہرگز بارش کی پیش گوئی نہیں کی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انتخابات کے دوسری بار التوا کے سلسلے میں اصل اتھارٹی محکمہ موسمیات تھا، مگر سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن نے محکمہ موسمیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس سلسلے میں کراچی کی سیاست کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں نہ جماعت اسلامی سے مشاورت کی گئی، نہ پی ٹی آئی سے اس کی رائے معلوم کی گئی۔ چنانچہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ انتخابات کا التوا عدالتِ عظمیٰ کے حکم اور فیصلے کی خلاف ورزی ہے چنانچہ جماعت اسلامی اس سلسلے میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی دشمن قوتیں سن لیں جماعت اسلامی اہلِ کراچی کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ انتخابات کے التوا سے ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ ختم نہیں ہوگی بلکہ اور تیز ہوجائے گی۔
کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ 1985ء سے آج تک کراچی کی سیاست ایک Managed سیاست ہے۔ 1980ء کی دہائی میں امریکہ سے الطاف حسین کی واپسی اور اُن کا سیاسی ظہورManaged تھا۔ کراچی میں ہونے والے مہاجر پٹھان فسادات Managed تھے۔ ایم کیو ایم کی عوامی انتخابی مقبولیت Managed تھی۔ الطاف حسین کا ملک سے فرار Managed تھا۔ ایم کیو ایم حقیقی Managed تھی۔ اس صورتِ حال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ جنرل ضیا الحق کراچی میں جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو قابو میں رکھنا چاہتے تھے۔
جنرل ضیا الحق ان اہداف کے حصول میں کامیاب رہے، مگر انہوں نے کراچی کی ہر چیز کو تباہ کردیا۔ مہاجر پاکستان تخلیق کرنے والے تھے اور وہ لسانی تعصبات سے بلند تھے، مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے انہیں مہاجریت کے گہرے گڑھے میں گرا دیا۔ مہاجروں کا تشخص مذہبی تھا مگر الطاف حسین نے انہیں سیکولر بنانے کی سازش کی۔ مہاجروں کی شناخت تہذیب تھی، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کراچی کو دہشت گردی اور بھتہ خوری کا تحفہ دیا۔ مہاجروں کی پہچان علم تھا، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کی نئی نسل کو نقل کرنے پر لگا دیا۔ مہاجروں کا تعارف محمد حسن عسکری، سلیم احمد، قمر جمیل اور حکیم محمد سعید جیسے لوگ تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے لنگڑوں اور کن کٹوں کو مہاجروں کا تعارف بنادیا۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ظہور سے پہلے کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کراچی کو تاریکیوں کا شہر بنا دیا۔ یہ سب کچھ بھی Managed تھا، بالکل اسی طرح جس طرح ملک کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنا Managed تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف دو آپریشن ہوئے، مگر دونوں آپریشنوں نے ایم کیو ایم کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط بنایا۔ ایم کیو ایم ظالم تھی، آپریشن نے اُسے مظلوم بناکر کھڑا کردیا۔ ایم کیو ایم کو مظلوم بنانے کی ایک بڑی مثال یہ تھی کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن ہوا تو بریگیڈیئر ہارون نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کراچی کو ’’جناح پور‘‘ بنانے کی سازش کررہی ہے، اس سلسلے میں نقشہ اور دستاویزات برآمد کرلی گئی ہیں۔ ایسا تھا تو شہادتوں کو قوم کے سامنے رکھنے کی ضرورت تھی، مگر شہادتوں کو قوم کے سامنے رکھنے کے بجائے اگلے ہی دن بریگیڈیئر ہارون کا کراچی سے تبادلہ کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایم کیو ایم ظالم سے مظلوم بن کر کھڑی ہوگئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا دوسری بار التوا بھی “Managed” ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس وقت ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آزاد نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے تو میئر اُسی کا ہوگا۔
جس وقت یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اُس وقت ایم کیو ایم پاکستان کی عوامی پوزیشن بہتر تھی، مگر اِس وقت عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کراچی میں کہیں تیسرے نمبر پر کھڑی ہے، کہیں چوتھے اور کہیں پانچویں نمبر پر۔ پیپلزپارٹی بھی گزشتہ چار ماہ میں اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کار بن کر ابھری ہے اور اُس نے کراچی میں لسانی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کرائی تھیں، مگر یہ حلقہ بندیاں بھی پیپلزپارٹی کے کام نہیں آرہیں۔ کراچی کے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات جیت رہی ہوتیں تو بلدیاتی انتخابات کبھی ملتوی نہ ہوتے۔ اِس وقت کراچی کے بلدیاتی انتخابات کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انتخابات ہوں گے تو مقابلہ صرف دو جماعتوں میں ہوگا یعنی جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیںگزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ایسے درجنوں افراد ملے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تو پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے مگر بلدیاتی انتخابات میں ان کا ووٹ صرف جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن کے لیے ہوگا۔
یہ صورتِ حال ہمارے علم میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ اور اُس کے سہولت کاروں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علم میں بھی ہوگی۔ بدقسمتی سے موجودہ فضا میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول نظر نہیں آتی۔ کراچی کی انتخابی فضا میں مذکورہ بالا تبدیلی اتفاقی امر نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں عوامی مسائل کے حل کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے ایک ایک مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ جہاں احتجاج کی ضرورت تھی وہاں احتجاج کیا، جہاں دھرنا درکار تھا وہاں دھرنا پیش کیا، جہاں نیوز کانفرنس کی ضرورت تھی وہاں نیوز کانفرنس سے کام لیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی میں لاکھوں لوگ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ کراچی کے لیے اگر کوئی چیخ رہا ہے تو وہ حافظ نعیم الرحمٰن ہیں، کراچی کے لیے اگر کوئی بے تاب ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، کراچی کی اگر کوئی ترجمانی کررہا ہے تو وہ حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی ہے۔ ہم چالیس سال سے اخبارات پڑھ رہے ہیں اور ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کراچی کے انگریزی پریس نے کبھی جماعت اسلامی کو اہمیت نہیں دی، مگر اب حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی تواتر کے ساتھ انگریزی اخبارات میں رپورٹ ہورہے ہیں۔
اس بات کی گواہی پورا پاکستان دے گا کہ جماعت اسلامی کو ٹی وی چینلز پر اس کے حصے کا وقت نہیں دیا جاتا، مگر حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی اب تواتر کے ساتھ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر نظر آرہے ہیں۔ یہ حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے عوامی تخیل یا Public Imagination کا حصہ بننے کا عمل ہے۔ یہ کراچی میں جماعت اسلامی کو عوامی بنیاد مہیا ہونے کی ایک صورت ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو کراچی کو Manage کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو خوف زدہ کررہی ہے۔ چنانچہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات دوبار ’’التوا‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اِس بار انتخابات ملتوی کرنے والوں نے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینا بھی ضروری نہیں سمجھا، جس سے اس اندیشے کو تقویت مل رہی ہے کہ انتخابات کا التوا اُس وقت تک ہوسکتا ہے جب تک جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن کے حق میں پیدا ہونے والی عوامی لہر کا زور نہیں ٹوٹ جاتا۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے لیے اس بات کا مفہوم عیاں ہے، اور وہ یہ کہ جماعت اسلامی کے ایک ایک رہنما اور کارکن کو استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، انہیں عوام سے رابطوں کو برقرار رکھنا ہوگا اور انہیں بہتر بنانا ہوگا، انہیں عوام کو بتانا ہوگا کہ انتخابات کے التوا کے محرکات کیا ہیں؟ ان کا ذمے دار کون ہے؟ کراچی اور اس کے تین کروڑ باشندوں کے خلاف کون اور کیوں سازش کررہا ہے؟
سازش کی یہ بات مذاق نہیں۔ بلدیاتی انتخابات پورے ملک کی ضرورت ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور سب شہروں کی ضرورت ہیں، لیکن کراچی کے لیے بلدیاتی انتخابات زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔ کراچی ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی مجموعی قومی پیداوار کا 50 فیصد مہیا کرتا ہے۔ کراچی سندھ کی آمدنی کا 95 فیصد عطا کرتا ہے۔ لیکن کراچی کا یہ حال ہے کہ یہاں کی ہر سڑک ٹوٹی ہوئی ہے۔ ایک سال پہلے ہمیں گھر سے دفتر جانے میں 20 سے 25 منٹ لگتے تھے، اب ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک جام ہوتا ہے۔
کراچی پورے ملک کو پالتا ہے مگر کراچی میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کراچی کی یومیہ ضرورت 1200 ملین گیلن پانی ہے، جب کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی میں نکاسیِ آب کا پورا نظام بیٹھ چکا ہے۔ کراچی کی ہر دوسری گلی میں گٹر اُبل رہے ہیں۔ کراچی میں روزانہ 1200 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے نصف گلیوں اور سڑکوں پر پڑا رہ جاتا ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہی نہیں۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اب اس میں روزانہ دس دس، بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ کراچی میں گزشتہ چالیس سال کے دوران پبلک سیکٹر میں کوئی اسپتال ہی نہیں بنا۔
چنانچہ کراچی کے لیے بلدیاتی نظام زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کراچی کو ایم کیو ایم کا میئر نہیں چاہیے۔ ایم کیو ایم 30 سال تک شہر پر حکومت کرچکی، اور اس نے شہر کو کچھ نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی 1970ء سے کراچی کی دشمن پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے چار برسوں میں ایک پیکیج کے اعلان کے سوا کچھ نہیں دیا، اور اس پیکیج کے ایک فیصد پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔ چنانچہ کراچی کی ضرورت صرف میئر نہیں، کراچی کی ضرورت جماعت اسلامی کا میئر ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی نے عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے ادوار میں کراچی کی خدمت کی ہے، صرف جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے، صرف جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جو کسی طرح کی بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سہولت کار کراچی کو جماعت کے میئر سے محروم کرنے کی سازش کریں گے تو 3 کروڑ لوگوں پر ظلم کا پہاڑ توڑیں گے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی ملک کا ماڈل شہر تھا، مگر اب کراچی زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سہولت کار کراچی کے زندہ رہنے کے حق کو بھی تسلیم نہیں کریں گے؟