’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘
غالبؔ کا یہ مشہور مصرع اکثراحباب اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔ مگر حق تو یہ ہے کہ غالبؔ نے اس مصرعے میں ’’حق تو یوں ہے‘‘ استعمال کیا ہے۔ کم از کم کلامِ غالبؔ کے نسخۂ مہر میں تو یہی درج ہے۔ علامہ آلوسی ؔنے غالبؔ کے دیوان کا جو نسخہ مرتب کیا ہے اُس میں ’یوں‘ کو ’یہ‘ درج کیا ہے۔ مولانا حسرتؔ موہانی کے مرتب کردہ نسخے میں بھی ’یوں‘ کی جگہ ’یہ‘ ہے۔ چلیے ’یوں‘ نہیں، ’یہ‘ سہی۔ مگر دیوانِ غالب کے نسخے بھی تو کثیر تعداد میں مرتب ہوئے، اُن طبی نسخوں کی طرح جو بھیانک امراض کے تیر بہ ہدف علاج کے لیے ہمارے سماجی ذرائع ابلاغ پر روزانہ مرتب ہوتے ہیں۔ غالبؔ کی بیماری بھی کم بھیانک نہیں تھی۔ اُن کے دیوان کے کم ازکم پندرہ تیر بہ ہدف نسخے تو ہم نے خود گنے ہیں جو مختلف مرتبین نے ترتیب دیے۔ دیوانِ غالبؔ کے مرتبین نہایت دُوربین اور دُوراندیش لوگ تھے۔ نیک، مخیر، خدا ترس اور خلقِ خدا کے خدمت گار بلکہ ’دفتر روزگار‘۔ غالبؔ کے اشعار میں ڈنڈی مار کے بے شمار محققین کی روزی روزگار کا بندوبست کرگئے۔
غالبؔ کی زندگی میں دہلی کے مطابع سے اُن کے دیوان کے جو تین نسخے شائع ہوئے خود غالبؔ بھی اُن سے مطمئن نہیں تھے۔ مطمئن کیا؟ چچا توانھیں دیکھتے ہی اول فول پر اُتر آئے۔ میر مہدی مجروحؔ کے نام اپنے خط میںچچا چِلّاتے ہیں:
’’ہائے، لکھنؤ کے چھاپے خانے نے جس کا دیوان چھاپا، اُس کو آسمان پر چڑھا دیا۔ حسنِ خط سے الفاظ کو چمکا دیا۔ دلّی پر اور اس کے پانی پر اور اس کے چھاپے خانے پر لعنت‘‘۔
لکھنؤ کے چھاپے خانوں پر ’ہائے‘ مارنے کے بعد چچا نے اُن کے حُسنِ طباعت کی تو ’واہ وا‘کی مگر محض بھدے خط کے باعث دلّی کے چھاپے خانوں، خود دِلّی اور اُس کے پانی پر بھی لعنت بھیج دی۔ دلی والے دیوان درست چھاپ دیتے تو چچا کی لعنت ملامت سے اپنے پانی سمیت بچ جاتے۔ چچا کے جیتے جی دو نسخے مزید شائع ہوئے، ایک آگرہ سے، ایک کان پور سے۔ معلوم نہیں کہ لعنت کے دائرے نے باقی دو شہروںکو مَدَوَّر کیا یا نہیں۔ مگر دلّی پرلعنت تو ہر دور میں پڑی۔ بشیر بدرؔ کوبھی اپنے دل کی مثال دینے کے لیے دلّی ہی کی مثال دینی پڑی:
دل کی بستی بھی شہرِ دلّی ہے
جو بھی گزرا ہے اُس نے لوٹا ہے
خود کراچی پر چھتیس برس سے جولعنت برس رہی ہے اُس کی پھٹکار کو سمجھانے کے لیے ملک زادہ منظورؔ احمد بھی دلّی ہی کی مثال لائے:
چہرے پہ سارے شہر کے گردِ ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلّی کا حال ہے
بات حق سے چلی تھی، محققین تک جا پہنچی۔ محققین کے طفیل لکھنؤ، دلّی، آگرے اور کان پور کی سیر بھی ہوگئی۔ ایک نظر اپنے کراچی پر بھی ڈال آئے۔ آئیے اب سکون سے بیٹھ کر باتیں بگھاریں۔ جس مصرعے سے کالم کا آغاز ہواہے، اس میں دو ’حق‘ استعمال ہوئے ہیں۔ دونوں کے معنی الگ الگ ہیں۔ یہ مصرع اسی وجہ سے زیادہ دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ کسی مصرعے یا کسی شعر میں دو ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کا تلفظ یا املا یا دونوں ایک جیسے ہوں مگر معنی میں فرق ہو تو اِس کو ’صنعتِ تجنیس‘ کہتے ہیں۔ ’تجنیس‘ کا مطلب ہے ہم جنس ہونا، ایک جیسا یا ایک قبیلے سے ہونا۔ غالبؔ کا یہ شعر صنعتِ تجنیس کی اچھی مثال ہے۔ پہلے مصرعے میں بھی دونوں ’دی‘ کے الگ الگ معنی ہیں:
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
دوسرے مصرعے میں پہلے حق کا مطلب سچائی، صداقت، جائز، مناسب یا معقول بات ہے۔ دوسرا حق انصاف، عوض و معاوضہ یا بدلہ چکانے کے مفہوم میں ہے۔ لفظ ’حق‘ کو متعدد معانی رکھنے کا حق حاصل ہوا۔ اوّل تو یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ حَسَن ہے۔ آپ نے بہت سے ’عبدالحق‘ دیکھے اور سنے ہوں گے۔ اگر ان میں سے کوئی عبدالحق ’جاں بہ حق‘ ہوگیا ہو تو شاید آپ نے یہ بھی کہا ہو کہ ’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘۔ یہی ’حق‘ صدق اور راستی کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ’’حق، حق ہے اور باطل، باطل‘‘۔ حق کی حقانیت ثابت کرنا ’احقاقِ حق‘ کہلاتا ہے۔ حیران ہوں کہ حُقّہ گیا کس حساب میں؟ مدرسۂ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے پوچھنا پڑے گا۔ کسی کے متعلق، کسی کی نسبت یا کسی کی بابت کے معنی بھی ’حق‘ میںموجود ہیں، مثلاً ’’بولتے کیوں نہیں مرے حق میں؟‘‘ جو چیز آپ کی ملکیت ہو اُس پر آپ ہی کا ’حق‘ ہوتا ہے۔ اپنی کسی ملکیت پر کوئی مزدور لگاکر کوئی کام کروائیں تو اُس کی مزدوری اُس کا ’حق‘ کہلائے گی۔ یقیناً آپ اُس کا حق نہیں ماریں گے۔ مارنے کی کوشش کی تو وہ خود اپنا حق نہیں چھوڑے گا، اور آپ کو بھی۔ گویا جو مال یا جو سہولت آپ کے لیے جائز ہو، آپ کو ملنا واجب ہو اور آپ کی ملکیت کا ثابت شدہ حصہ ہو وہ آپ کا ’حق‘ ہے۔ حق رکھنا، حق جتانا یا حق طلب کرنا ’استحقاق‘ کہلاتا ہے۔ حق رکھنے والا ’مستحق‘ ہوتا ہے۔ مستحقین کو اپنے حق کا حق ادا کرنے کے لیے اپنا فرض بھی ادا کرناچاہیے۔ سورۃ المعارج کی آیت نمبر چوبیس اور پچیس کی رُو سے مسلمانوں کے مال میں سائلوں اور محروموں کا ایک مقررہ ’حق‘ ہے۔ ہم جو بہت بیزار لہجے میں سائلوں سے کہتے ہیں کہ ’’معاف کرو بابا‘‘ تو صاحب! یہ فقرہ دراصل اس لیے تھا کہ ہمارے مال میں اللہ نے اُن کا جو حق رکھا ہے، ابھی نہ دے سکیں تو وہ حق اُن سے معاف کروا لیں۔
حق ہی سے لفظ ’حقیقت‘ ہے۔ وہ بات جو اصل، سچی اور صحیح ہو۔ ’حقیقت‘ کا کھوج لگانا ’تحقیق‘ کہلاتا ہے۔ یہی کام پولیس کو سونپ کر برسوں کے لیے بے فکر ہوجائیں تو اسے ’تحقیقات‘ کہتے ہیں۔ کھنڈر، کھنڈر اور کتب خانے، کتب خانے مارا مارا پھرنے والا متلاشیِ حق ہمارے ہاں ’محقق‘ کہلاتا ہے۔ مگر یہ پرانی بات ہوئی۔ اب ’تحقیق‘ کے لیے اتنا پاکھنڈ نہیں پالا جاتا، قینچی اور گوند سے تحقیق ہوتی ہے۔ وہاں سے کاٹا، یہاں چساں کرلیا۔ عالمی ربط نے یہ کام مزید آسان کردیا ہے۔ کاٹنے اور چپکانے کی زحمت سے بھی بچالیا۔ بس کلک کی صدا آئی اور’نقل و چسپاں‘ ہوگیا۔ کیا کریں مجبوری ہے، ’’پروموشن کے لیے پی ایچ ڈی بھی ضروری ہے‘‘۔ اگر’ڈوک ساب‘ نے اپنے علوم و فنون اپنی زبان میں پڑھے ہوتے توکچھ سمجھتے، کچھ سوچتے، پھر کچھ تحقیق بھی کرلیتے۔ بیٹھے کلک کلک نہ کرتے رہتے۔
اب شاید صرف مواد اور اعداد کی ’تلاش‘ کو تحقیق کہا جاتا ہے۔ حق کیا ہے؟ یہ جاننا مقصود نہیں۔ جان بھی لیا تو حق جاننے کا حق ادا کرنا اب مفقود ہوچکا ہے۔ ’حق چھپانے‘ یعنی’کتمانِ حق‘ کے لیے مواد تلاش کرنے کو بھی آج کل ’تحقیق‘ ہی کا نام دیا جاتا ہے۔ تحقیق کسے کہتے ہیں؟ اُصولِ تحقیق کیا ہوتا ہے؟ یہ جاننا چاہیں تو ذرا وقت اور کتابیں نکال کر بخارا کے ایک نوجوان محقق ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل کی داستانِ حیات پڑھ لیجے۔ بارہ برس کی عمر سے باسٹھ برس کی عمر تک تمام عمر تحقیق ہی میں گزری۔ 256ہجری میں انتقال کیا۔اب 1444 سنہ ہجری چل رہا ہے۔ اُس ایک تحقیق کی مدد سے اب تک ’بے شمار‘ تحقیقی کتب وجود میں آچکی ہیں اور آج ایک ہزار ایک سو اَٹھاسی برس گزر جانے کے بعد بھی اُسی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقی کتب تحریر کی جا رہی ہیں۔
کوئے سیاست میں ’حق‘ صرف وہ ہے جو ہمیں ملنا چاہیے۔ وہ نہیں جو ہم پر ملک اور معاشرے کا بنتا ہے۔ مگر الحمدللہ اب ملک اور معاشرے کو حق دلانے کے لیے کئی تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ ’حق دو گوادر کو‘، ’حق دو کراچی کو‘ اور ’حق دو جھنگی سیّداں کو‘(کہ اسلام آباد کے اس موضع میں ہم خود رہتے ہیں) اسی رولے گولے میں ’حق‘ کو بھی اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے اوراُٹھ کر اس کھولتے کڑاہ میں اپنا لُچ تل لینا چاہیے، یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہ حق دو ’حق‘ کو۔کماحقہٗ۔