جدوجہدِ آزادی کی تاریخ کا منور باب
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ملت اسلامیہ کے ان عظیم المرتبت افراد میں سے ایک ہیں جنھیں قدرت کسی قوم کو اُس وقت ودیعت کرتی ہے جب اس کی تقدیر بدلنا مقصود ہو- آج کی نئی نسل اس مردِ مجاہد کی زندگی سے پوری طرح آشنا نہیں ہے، اس لیے کہ اس کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں نے جواب دے دیا تھا، مگر جن لوگوں نے 1911ء سے 1947ء کا دور دیکھا ہے یا پڑھا ہے ان میں کوئی ایسا نہ ہوگا جو ان کی خدمات سے واقف نہ ہو- 1906ء میں جب ال انڈیا مسلم لیگ کا ڈھاکا میں قیام عمل میں آیا تو ظفر علی ایک پُرجوش نوجوان کی حیثیت سے پنجاب کی نمائندگی کررہے تھے، اس کے بعد قیام پاکستان تک آزادی وطن اور اسلام کے لیے ہر تحریک میں قائدانہ حیثیت سے نمایاں نظر اتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے مولانا ظفر علی خان کو غیر معمولی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔ وہ بیک وقت بے بدل ادیب، قادرالکلام شاعر، نڈر صحافی، بلند پایہ مترجم، بے باک عظیم صحافی، عاشقِ رسول، شعلہ بیان خطیب اور سچے و پکےمسلمان تھے، لیکن انھوں نے اپنی تمام خوبیاں اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور آزاد وطن کے لیے صرف کیں، اور اُن خوش قسمت افراد میں سے تھے جنھوں نے اپنی زندگی میں آزاد وطن کا سورج طلوع ہوتے دیکھا۔
”ظفر علی اور ان کا عہد“ اسی عظیم المرتبت انسان کی حیات اور خدمات کے حوالے سے ضخیم کتاب ہے جسے ان کے ہمسایہ اور قریبی رفیق نے قلم اٹھایا ہےجو اوائل عمر میں ان کے پیروکار بن گئے تھے اس طرح وہ خود بھی اس عہد کی چلتی پھرتی تصویر تھے یعنی حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ۔
زیر نظر کتاب میں حکیم صاحب نے ظفر علی خان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو منور کرنے کے لیے عنوانات قائم کیے ہیں اور اس حد تک معلومات فراہم کی ہیں کہ اس کے بعد ان کی زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں تشنگی باقی نہیں رہتی۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں مولانا کے خاندانی پس منظر کے ساتھ ساتھ ابتدائی تعلیم، کالج کا زمانہ اور والد کی رحلت کا تذکرہ ہے، پھر مولانا کے والد مولوی سراج الدین کے انتقال کے بعد ظفر علی خان کا اپنے والد کی وصیت کے مطابق ”زمیندار“ جاری رکھنے کا فیصلہ تھا جس نے انہیں برصغیر کی صحافت میں ایک عظیم مجاہد کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ مولانا ظفر علی خان نے صحافت کے میدان اور آزادیِ وطن کے لیے جو تاریخ ساز جدوجہد کی اُسے پڑھ کر قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ اس کتاب میں مولانا کی زندگی اور خدمات کو سمجھنے کے لیے مختلف زاویوں سے ان کا تجزیہ کرنے کی سعی کی گئی ہے جس سے مولانا کی سیاسی زندگی، ان کی شاعری کا پس منظر، مختلف تحریکوں میں ان کا کردار، قائداعظم، علامہ اقبال اور دوسرے اکابرین سے تعلقات سمجھنے میں مدد ملتی ہے- مسئلہ حجاز، مایہ ناز فرزندِ علی گڑھ، قادیانیت، بدیہہ گوئی، دیہاتی زندگی، تحریک پاکستان میں خدمات، مسجد شہید گنج کے ابواب میں تو ایسی معلومات سامنے آتی ہیں جو پہلے سامنے نہ ائی تھیں، اور بعض ایسی نظمیں بھی ہیں جو پہلے کسی مجموعہ کلام میں نہیں ہیں، بلکہ صرف زمیندار میں شائع ہوئی تھیں۔ مولانا کے علمی، ادبی اور سیاسی معرکوں کو اس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو اس عہد سے گزرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ کتاب جہاں مولانا کی جامع سوانح عمری ہے، وہاں بیسویں صدی کے نصف اول کی سیاسی، دینی اور ملّی تاریخ بھی ہے۔
مولانا ظفر علی خان ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے، ان کے بعض کارنامے نمایاں و قطعی ہیں تو بعض متنازع بھی ہیں۔ چونکہ کتاب کے مصنف مولانا کے رفیق رہے اور سب سے بڑے ماہرِ ظفریات.. اس طرح اس حوالے سے اُن کی رائے دلیل بن سکتی ہے اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب تک چھپنے والی تمام کتب سے زیادہ جامع اور مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ہماری جدوجہدِ آزادی کی تاریخ کا منور باب ہے بلکہ اس مردِ مجاہد کی داستانِ حیات بھی ہے جس کی سب سے بڑی خوبی اسلام سے والہانہ محبت اور محمد عربیؐ سے عشق رہا۔ یہ داستان روحوں کو گرماتی اور دلوں کو تڑپاتی ہے۔ الغرض یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کی حیات و خدمات کے ساتھ اُس عہد کا جیتا جاگتا مرقع ہے جس میں عہدِ رفتہ کی لٹک کھٹک بھی ہے اور معاصرانہ چشمکوں اور سیاسی آویزشوں کی کہانی بھی.. مختلف تحریکوں کے مدوجزر، سیاسی نشیب و فراز اور لمحہ بہ لمحہ اتار چڑھائو بھی ہے، صحافت و خطابت کی معرکہ آرائیاں بھی ۔ادب، صحافت اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تاریخ ساز لمحات کا حسین مرقع اور ایک عظیم شخصیت کے سوانحی نقوش اور خدمات کا دلآویز پیکر۔
قرب ِمکانی اور زمانی کی وجہ سے حکیم صاحب مولانا کے قریب رہے، پھر نظریات وجذبات کی ہم آہنگی نے باہم پیوست رکھا۔ اس طرح یہ کتاب اس تعلق کا بہترین ثمر ہے اور یوں حکیم عنایت اللہ نسیم عمر بھر تاریخ سازی کرتے رہے، اپنی عمر کے آخری دور میں یہ تاریخ نگاری کا فریضہ بھی احسن انداز میں سرانجام دیا۔
یہ کتاب جو کہ بڑی تقطیع کے 516 صفحات پر مشتمل ہے، پہلی بار 1985 ءمیں شائع ہوئی تھی اور عرصے سے نایاب تھی۔ اب اسے مولاناظفرعلی خان میموریل ٹرسٹ 21 سی نون ایونٹ مسلم ٹاؤن لاہور نے خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے تاکہ مولانا کے افکار اور جدوجہد کونئی نسل تک پہنچایا جائے، جو ٹرسٹ کے مقاصد بھی ہیں اور قومی خدمت بھی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ نواب زادہ نصراللہ خان نے لکھا ہے، جبکہ عرضِ ناشر کے عنوان سے چیئرمین ٹرسٹ خا لد محمود اور دیباچہ مجیب الرحمٰن شامی نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔محمد شریف چشتی نے مصنف کتاب کا اچھے پیرائے میں تعارف کرایا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکیم صاحب نے اس کتاب کو نہ صرف اپنی معلومات تک محدود رکھا بلکہ جہاں سے قابلِ اعتماد مواد ملا اس کو بڑی سعی و کاوش سے جمع کرکے کتاب میں شامل کردیا۔ حکیم صاحب نے بکھرے مواد کو یکجا کرکے بڑے قیمتی سرمایہ معلومات کو محفوظ کردیا ہے، ورنہ اس کے ضائع ہوجانے کا ڈر تھا۔ یہ کتاب آئندہ کے محققین اور مصنفین کے لیے ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے آنے والے طالبانِ تحقیق کو محنت سے بچا لیا ہے۔ مجیب الرحمٰن شامی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب پاکستانی تاریخ، سیاست اور صحافت کے طلبہ کے لیے ایک تحفہ خاص ہے۔ مولانا ظفر علی خان اور ان کے عہد کی جو تصویر حکیم نسیم صاحب نے کھینچی وہ کوئی دوسرا کبھی نہیں کھینچ سکتا تھا کہ ان کا علم کتابی نہیں تھا۔ ان کے ذریعے ہم مولانا اور اُن کے عہد میں سانس لے سکتے اور اسے ان کے لفظوں میں جیتا جاگتا دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ خالد محمود نے اسے مولانا کے بارے میں معلومات کا قیمتی خزانہ قرار دیا ہے۔ ایسی کتب تمام تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں ہونی چاہئیں تاکہ نئی نسل اپنے اکابر کے افکار اور جدوجہد سے روشنی حاصل کرے۔ خوبصورت طباعت سے مزین بڑی تقطیع کے 516 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ظفر علی ٹرسٹ 21 نون ایونیو مسلم ٹاؤن لاہور فون نمبر 0423۔ 5846676 سے ایک ہزار روپے میں دستیاب ہے۔