الحاج سید شجاعت علی صدیقی

قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میںایک مردِ حق پرست، متشرع اور دیانت دار اعلیٰ سرکاری افسرکی ایمان افروز داستانِ حیات

(دوسرا حصہ)
شجاعت علی صدیقی صاحب کے دیرینہ ساتھی اور ان کے محکمے کے ایک افسر محمد صدیق اپنی خودنوشت حیات ’’پرواز خیال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ان سے متعلق چند واقعات ہیں جن کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے پاکستان آتے ہی انہوں نے دین دار، پابندِ صوم و صلوٰۃ، مومن و صادق کا روپ اختیار کرلیا تھا۔ شرعی ڈاڑھی، کرتہ، پاجامہ اور شیروانی والا لباس… دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، علماء کے مواعظ کا اہتمام کرنا اور مسجدیں تعمیر کرانا ان کا مرغوب مشغلہ تھا۔ ایک مسجد اپنے دفتر راولپنڈی میں تعمیر کروائی اور ساتھ ہی ایک مدرسہ دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن کے لیے اور ایک پرائمری اسکول چھوٹے ملازموں کے بچوں کے لیے تعمیر کرایا۔ مسجد کی تعمیر میں تو اسٹاف کے ارکان اور افسروں نے بھی حصہ ڈالا، البتہ مدرسے اور اسکول کا تمام خرچہ وہ اپنی جیب سے پورا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی اپنی کوٹھی میں ہر جمعرات کو غرباء کے لیے چاولوں کی دیگیں پکواتے اور نادار مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ثواب حاصل کرتے۔ سب فقراء کو کچھ نقد عطیات بھی دیتے تھے۔ شجاعت علی صاحب 1931ء سے پہلے والے اسکیل کے جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے افسر تھے۔ تین ہزار روپے ماہوار ان کی تنخواہ تھی۔ اللہ کے دئیے میں سے کھلا خرچ کرتے تھے۔ نہایت دیانت دار افسر تھے۔ قطعی حلال کی روزی کھاتے، کسی ہیرا پھیری اور بددیانتی کا ار تکاب نہ کرتے ‘‘۔
شجاعت علی صدیقی صاحب کی حق گوئی کے چندمثالی واقعات
ملک کے پہلے ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کی حیثیت سے شجاعت علی صدیقی صاحب سے متعلق مزید واقعات قابل ذکر ہیں۔ وہ نہایت دبنگ اور نڈر قسم کے افسر تھے۔ بڑے سے بڑے افسرکے سامنے حق گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک دفعہ ملٹری اکائونٹس کے کھاتے میں کسی بھاری ادائیگی (Overpayment) کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے اُس وقت کے سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا نے ایک ڈی او لیٹر کے ذریعے شجاعت علی صدیقی صاحب سے جواب طلبی کی۔ آپ نے اس کا جواب دیا، جو اتفاق سے میں نے بھی پڑھا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا:
“My dear Iskander Mirza, Defence Secretary has no business to call for my explanation. You must know that I happen to be under the Ministry of Finance and not under the Ministry of Defence. You must also know that there are no Mir Jafars or Mir Sadiqs in our department. As regards the overpyament pointed out, if it has occured, surely it is through error of judgement and not on account of any ulterior motive nor on account of culpbable neligence on the part of our department.”
اسی طرح ایک دفعہ اُس وقت کے وزیر خزانہ نے ایک بابو کے تبادلے کے لیے شجاعت علی صاحب کو سفارشی رقعہ بھیجا جس کے جواب میں انہوں نے بڑا ہی دلیرانہ جواب دیتے ہوئے لکھا کہ:
“Look Minister, I happen to be in-charge of a department having hundreds of field offices in all the Cantonments of Pakistan, from Landikotal and Chaman in the West to Chittagong and Comilla in the East Wing and from Kargil in the North to Kiamari in the South. We have a rationally based transfer policy which is faithfully followed by all regional controllers, uninterrupted from my side. If we start honouring requests like yours, we are bound to land ourselves in trouble. Please refrain from making such requests in future.”
مگر آپ ہر معاملے میں ایسے روکھے جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ کسی نے شکایت کی کہ سرکاری فنڈسے ان کے دفتر کے لیے خریداگیا اخبار روزانہ ایم اے جی صاحب کے بنگلہ پر پہنچایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بھی شکایت کی گئی کہ ایم اے جی صاحب نے لائل پور کا دورہ کیا جبکہ وہاں ملٹری والوں کا یا ملٹری اکائونٹس والوں کا کوئی دفتر ہی نہیں ہے۔اس بارے میں جب وزارتِ خزانہ نے ایم اے جی صاحب سے وضاحت طلب کی تو اس کا جواب انہوں نے نہایت متانت سے دیا تھا:
“It is true that daily newspaper is delivered at my banglow. This is because the office opens at 10.00 hrs, while the hawker delivers daily papers early in the morning by fajar prayer time. So, I read the newspaper while at home during my private time, taking notes where necessary and when I come to office I take the paper with me and have it placed in the office library. The newspapers are sold at the end of each month as “raddi” and sale proceeds are deposited in the cheque kept with the Cashier, making suitable entries in the cash book which can be produced for inspection on demand.
As regards my visit to Lyalpur (now Faisalabad) I may state that being Head of the Department I am also supposed to look after the welfare of my staff. So, for rehabilitation of my staff and their families who had migrated in large scale from East Punjab, and Delhi etc. I went to Lyalpur (now Faisalabad) to see my personal friend, Mr. so and so who was holding the position of Deputy Commissioner of the District. He took personal interest in the matter and as a result, I was able to secure rehabilitation of over three dozen families during my two days stay there. I feel this visit of mine was jusitified. Still, you choose to term it as unjustified, please, say so. I shall not hesitate to refund the amount paid to me in reimbursement of the price of railway tickets purchased from my own pocket. I did not claim any daily allowance because I lodged with my aforesaid friend as his personal guest.
آپ نے اپنی طبیعت کے برخلاف اس انکسار سے اپنے باس کے اعتراض کا جو جواب دیا تھا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ احتساب کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔
اسی احتساب کے حوالے سے ایک دو اور واقعات انہی ملٹری اکائونٹنٹ جنرل شجاعت علی صدیقی سے متعلق قابل ذکر ہیں۔ ایک مرتبہ کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کراچی کے دفتر میں ایک مالیاتی قانون (Financial Rule) کی غلط تشریح کے باعث بھاری ادائیگی (Overpayment) ہوگئی تھی۔ ڈائریکٹر آف آڈٹ ڈیفنس سروسز نے آڈٹ پیرا بنا کر سی ایم اے کراچی کو بھاری ادائیگی کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ ہمارے دفتر سے وضاحب طلب کی گئی۔ ایم اے جی صاحب نے مذکورہ افسر سے وضاحت طلب کرنے کا حکم دیا۔ ہم نے جب ان سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے لمبی چوڑی صفائی پیش کی کہ کس طرح ان کے دفتر نے دیگر متعلقہ قوانین کی روشنی میں زیر بحث مالی قانون کی تشریح کرتے ہوئے آرمی یونٹوں کے دعویٰ جات (Claims)قبول کرتے ہوئے ادائیگیاں کیں اور اس سلسلے میں اپنی دانست کے مطابق پوری احتیاط برتی۔ پھر بھی اگر ان ادائیگیوں کو ناروا سمجھا گیا ہے تو اس میں تشریح کی غلطی کا امکان تو ہے مگر بدنیتی کا شائبہ تک نہیں۔ اور ایک جملہ یہ بھی لکھا:
“If overpayment has occured, it has occured inspite of me and not because of me.”
اور ایک طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم نے اس سلسلے میں بہت چھان بین کرنے کے بعد ادائیگیاں کی تھیں اوراپنی طرف سے احتیاط برتنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ یہ کیس میرے ہی گروپ کا تھا۔ سی ایم اے صاحب کی وضاحت مجھے بھی معقول نظر نہ آئی، اس لیے میں نے محتاط انداز سے اپنے نوٹ میں یہی لکھا کہ بھاری ادائیگی (Overpayment) ہماری غلط تشریح اور عجلت کے باعث ہوئی ہے۔ اگر سی ایم اے کراچی کے دفتر کو قانون میں کچھ ابہام نظر آیا تھا تو ان کو چاہیے تھا کہ ہمیں لکھ کر وضاحت طلب کرلیتے۔ اس پر میرے آفیسر ڈی اے ایم اے جی نے یہ لکھا کہ ترجمانی جو سی ایم اے کراچی نے کی تھی، اس میں بھی وزن ہے۔ اس لیے ہمارے لیے دفاع پیش کرنے کی گنجائش ہے۔ ایم اے جی صاحب نے لکھا:
“The objection raised by the External Audit is correct. No second interpretation can be placed on the rule under discussion. CMA Karachi talks baseless when he says that he took pain to misinterpret the rule. Convey my displeasure to him.”
شجاعت علی صدیقی کے چھوٹے صاحب زادے جاوید رشید صدیقی بیان کرتے ہیں کہ میرے والدِ محترم شجاعت علی صدیقی نے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی سے پندرہ روزہ جریدہ ’’وفاق‘‘ شائع کرنا شروع کیا تھا۔ اس سے قبل بھی وہ راولپنڈی سے ایک دینی رسالے ماہنامہ ’’رابطہ قرآن‘‘ کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا کرتے تھے، جس کے کچھ پرانے پرچے دستیاب ہوئے ہیں جن کی اشاعت کا سال 1952ء ملتا ہے۔ چونکہ سرکاری ملازمت کے دوران یہ دینی رسالہ شائع کرنے کی ممانعت تھی، لہٰذا انہوں نے دورانِ ملازمت اس کے سرپرست کی حیثیت سے اپنا نام شائع نہیں کیا بلکہ جید علماء کا ایک بورڈ اس جریدے کی اشاعت کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ یہ رسالہ 1980ء میں آپ کی وفات تک نہایت باقاعدگی سے نکلتا رہا اور ملک کے مختلف شہروں کی مساجد اور دینی درسگاہوں میں خاص طور پر بلامعاوضہ ارسال کیا جاتا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دینی رسالے کی اشاعت و ترسیل کے مراحل تک کے تمام امور کو میرے بھائیوں نے سنبھال رکھا تھا۔ اس مقصد کے لیے کسی شخص کوملازم نہیں رکھا گیا تھا۔ اس کام میںمیرا حصہ قدرے دوسروں سے زیادہ تھا کہ میں اس رسالے کی کتابت اور بذریعہ ڈاک ترسیل کا کام بھی انجام دیا کرتا تھا۔ جریدہ وفاق کی اشاعت اور تدوین میں میرے دونوں بڑے بھائیوں اشرف رشید صدیقی اور کرنل (ر) طارق رشید صدیقی نے بھی دامے، درمے، سخنے جو مدد کی اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
اس دینی رسالے کے شمارے اب نایاب ہیں، البتہ کچھ احباب کے پاس ضرور چند رسالے موجود ہیں۔ مگر ایک بڑی تعداد میں اس رسالے کی دستیابی انتہائی دشوار گزار تھی۔ ایک دن مجھے اچانک خیال آیا کہ والد محترم اور مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع (جن کے ہاتھوں انہوں نے بیعت کی ہوئی تھی) کے آپس میں گہرے مراسم اور ذاتی تعلقات تھے اور وہ اکثر مولانا مفتی محمد شفیع کی رائے لینے کے لیے مضامین کا مسودہ راقم الحروف کے ذریعے دارالعلوم کورنگی کراچی بھیجا کرتے تھے، اور اس رسالے کا ایک نسخہ بھی انہیں ارسال کیا کرتے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی میں ایک بار دارالعلوم کورنگی کی شاندار لائبریری گیا اور انچارج صاحب سے اس جریدے کے پرانے نسخوں کے حصول کے لیے مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے بہ کمالِ محبت اور ریکارڈ کی چھان بین کے بعد بتایا کہ رسالے تو ریکارڈ میں موجود ہیں مگر بہت بوسیدہ حالت میں ہیں۔ بعد ازاں ان کی کاوشوں سے دستیاب رسالوں کے نسخوںکی مائیکرو فلم بنائی گئی اور مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ رسالے کی اشاعت اور تدوین دوبارہ ممکن ہوسکی جس کے لیے میں ان کا انتہائی مشکور ہوں۔
جریدہ ’’وفاق‘‘ میرے والد صاحب کی زندگی کا ایک اہم مشن تھا۔ وہ اس دینی رسالے کے ذریعے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور مشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوںنے 15 نکات پر مشتمل چارٹر بھی تیار کرلیا تھا، جس پر تمام مکاتب فکر کے علماء کا اجماع ہوگیا تھا۔ وہ متنازع باتوں سے ہٹ کر دین کی اصل تعلیمات کو اجاگر کیا کرتے تھے، جس پر اجتماعی طور پر سب متفق ہوتے تھے۔ ’’وفاق‘‘ کے چند صفحات قرآن شریف کے سلسلہ وار ترجمے اور تشریح کے لیے مختص تھے، جو والد صاحب اپنی راولپنڈی کی تعیناتی کے دوران ملٹری اکائونٹنٹ جنرل آفس (بعد ازاں پاک سیکریٹریٹ نمبر2) میں تعمیر کردہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور اس مسجد کے اخراجات وہ اپنی ذاتی تنخواہ سے ادا کرتے تھے۔ اُس دور میں ملٹری اکائونٹس جنرل آفس راولپنڈی ملک بھر میں سب سے بڑا سرکاری دفتر ہوا کرتا تھا اور اس میں1500 افراد ملازم تھے۔ یہ پاکستان کا پہلا سرکاری ادارہ تھا جس کا سربراہ مسجد کے منبر سے وعظ بھی کیا کرتا تھا اور پنج وقتہ باجماعت نماز بھی ادا کرتا تھا جو انگریزوں کے جانے کے فوراً بعد بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ اس کے علاوہ وفاق میں ان کا مضمون ’اشاریہ‘ بھی شائع ہوتا تھا جس میں حالاتِ حاضرہ کے تحت مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کا ممکنہ حل دیا جاتا تھا، جو والد صاحب کی دین سے گہری وابستگی اور قرآن و سنت کے عمیق مطالعے کا نچوڑ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا ایک محبوب مشغلہ لوگوں کو جمع کرکے درسِ قرآن کا اہتمام کرنا تھا جسے وہ قرآن کلاس کا نام دیتے تھے۔ یہ اجتماع وہ اپنی رہائش گاہ واقع مری روڈ پر منعقدکیا کرتے تھے جس میں سرکاری افسران اور اسٹاف ان کے وسیع و عریض گھر کے لان میں جمع ہوجاتے تھے۔ قرآن کلاس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ بھی ہوتا تھا اور باجماعت نماز کے بعد حاضرین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ والد صاحب کے کراچی تبادلہ کے بعد ختم ہوگیا ۔بعد ازاں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد افرادِ خانہ اور والد صاحب کے چند ساتھی قرآن کلاس میں شرکت کرتے رہے۔
یہاں قرآن کلاس کے دوران ایک دلچسپ واقعہ بھی یاد آرہا ہے جب تین علمائے کرام جو ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں رکھے جھولے پر بیٹھ کر درس قرآن سن رہے تھے۔ جب والد صاحب سورہ یاسین میں اُن انعامات کا تذکرہ کرنے لگے جو مومنین کو آخرت میں دئیے جائیں گے جس میں سرفہرست حوروں کی خوبصورتی کا تذکرہ شامل تھا ۔ اس پر جھولے پر بیٹھے علماء نے اس پُرجوش اندازسے الحمدللہ کہا کہ جھولا پلٹ گیا اور بڑی مشکلوں سے اسے واپس اپنے مقام پر لایا گیا۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ والد محترم نے 1928ء میں متحدہ ہندوستان میں آئی سی ایس امتحان میں پورے ہندوستان میں چوتھی پوزیشن حاصل کی اور تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں پاکستان کے پہلے ڈپٹی ہائی کمشنر مقرر ہوئے تھے۔ جب تقسیم ہند کے دوران دہلی میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو والد صاحب اپنی آنکھوں کے سامنے ہندوئوں اور سکھوں کے ہاتھوں ناقابلِ بیان غارت گری دیکھ کردنگ رہ گئے تھے۔ جو لوگ ان فسادات کے دوران بچ بچا کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ رنج و الم کی خونچکاں داستان سناتے تھے۔ والد صاحب نے ان روح فرسا واقعات کی کتھا ایک کتابی صورت میں محفوظ کی تھی اور اس کو شائع بھی کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ کتاب اب کہیں دستیاب نہیں ہے۔ اس کتاب کا نام انہوں نے ’’کاروانِ سخت جان‘‘رکھا تھا۔ ہندوئوں اور سکھوں کی جانب سے مسلمانوں کا سفاکانہ قتل عام اور درندگی دیکھ کر والد صاحب نے حکومتِ وقت کے مشورے کے بغیر ہی جہاد کا اعلان کردیا تھا، جس پر انہیں جلد ہی دہلی سے واپس بلا لیا گیا تھا اور پاکستان کا پہلا مسلمان ملٹری اکائونٹنٹ جنرل مقرر کردیا گیا تھا۔
حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے سے قبل والد صاحب گو ہمیشہ نماز کی پابندی کرتے تھے، مگر سول سروس کے ٹھاٹھ باٹ میں پوری طرح رچے بسے ہوئے تھے، جو اس سروس کا خاصہ تھا۔آپ 1942ء میں سمندری جہاز کے ذریعے حجاز مقدس حج کے لیے روانہ ہوئے جوکم و بیش 20دنوں پر محیط سفر ہوتا تھا۔ دورانِ سفر آپ کو حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر جید علماء کی صحبت میسر ہوگئی، اور اس کے نتیجے میں والد صاحب پر مذہب کا رنگ ایسا چڑھا کہ ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ حج بیت اللہ سے واپسی پر جب ہندوستان آئے تو آپ کرتہ، پاجامہ، اچکن زیب تن کیے، سر پر قراقلی ٹوپی پہنے اور باریش چہرہ لیے ایک سچے عاشقِ رسولؐ کی تصویر بنے ہوئے تھے، اور پھر ہمیں بھی اسی لباس کو اپنانے کا حکم دیا۔ بعد ازاںوالد محترم نے تاحیات یہی لباس زیب تن کیا۔ ان کی زندگی کا اہم مشن نئی اسلامی مملکت کے قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے اور ایسے معاشرے کا قیام تھا جہاں مساوات اور بھائی چارہ اپنی اصلی شکل میں لوگوں پر ظاہر ہو۔ آپ نے سب سے پہلے خود کو اور اپنے اہل و اعیال کو سادگی کا عملی نمونہ بنا کر پیش کیا۔ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں سے نکال کر مدرسہ اسکول میں داخل کرایا جس میں ہمیں چٹائی پر بیٹھنا پڑتا تھا، جبکہ اس اسکول میں کلرک حضرات بھی اپنے بچوں کو داخلہ دلاتے ہوئے شرماتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ والد محترم مجھے قرآن شریف حفظ کرانے کے لیے صبح آٹھ بجے اپنے ہمراہ کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کے دفتر لے کر جاتے تھے اور اپنے ملحقہ کمرے میں بٹھا دیتے تھے، جس میں ایک جہازی سائز کی آرام دہ کرسی موجود ہوتی تھی۔ یہ کرسی فارغ اوقات میں آرام کرنے کی غرض سے وہاں رکھی گئی تھی، جس کے بازوئوں سے دو لمبی سی پھٹیاں بوقتِ ضرورت نکال سکتے تھے تاکہ دونوں پائوں اس پر رکھ کر کچھ دیر آرام کیا جاسکے۔ اس کمرے میں کرسی کے علاوہ اسکواش کھیلنے کے لیے ریکٹ اور بال رکھی رہتی تھی۔ والد صاحب کے جمعدار گیبا خان جو چھ فٹ سے زائد قد وقامت کی پُروقار شخصیت کا مالک تھا، سر پر کلف لگا صافہ اور سینے پرکنٹرولر ملٹری اکائونٹس کی پیتل کی بنی ہوئی گول پلیٹ آویزاں رکھتا تھا، جس کو وہ ہمیشہ شیشے کی طرح صاف رکھتا، جس پر ملٹری اکائونٹنٹ جنرل سیکورٹی لکھا ہوتا تھا۔ اس نے مجھے ایک بار بتایا کہ والد صاحب سے پہلے جو انگریز اس عہدے پر فائز تھا وہ دوپہر کو آدھے گھنٹے کے لیے اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کمرے میں آجاتا تھا اور کچھ دیر اسکواش کھیل کر اس کرسی پر آنکھیں بند کرکے استراحت کیا کرتا تھا۔ جب والد صاحب کسی سرکاری اجلاس کے سلسلے میں کمرے سے جاتے تھے تو میں بھی ان کی آرام کرسی پر براجمان ہوجاتا تھا اور دائیں جانب رکھے ہوئے آلے کو کھول لیتا تھا جس میں لاتعداد بٹن لگے ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں والو سسٹم رائج تھا جو دس پندرہ منٹ بعد گرم ہونے پر اپنا کام شروع کردیتا تھا۔ اب یہ بات یاد آتی ہے تو مجھے انگریز کی سراغ رسانی کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ آفس کے ہر کمرے میں ہونے والی باتیں خفیہ طور پر سن لیتا تھا اور حالات سے باخبر رہتا تھا۔ میں تفریحاً مختلف بٹنوں کو دبا کر مزے مزے کی باتیں سنتا تھا، جس میں بعض دفعہ ہندو اسٹاف کی جانب سے والد صاحب کی دین کی کاوشوں کو مذاق اور گالی گلوچ سے آپس میں تکلم کرتے سنتا تھا۔ جب جمعدار گیبا خان والد محترم کی آمد کا باقاعدہ اعلان کرتا تو میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آتا تھا۔ والد صاحب کو میں نے کبھی وہ آلہ استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ وقتاً فوقتاً کبھی اپنے پاس بلا کر (جب فارغ ہوتے تھے) سبق سنتے تھے۔ والد صاحب کا ایک خصوصی شوق حقہ تھا جو بڑے اہتمام سے آفس میں چاندی کے پائے اور چاندی کی نَے پرمشتمل تھا، جو وہ بڑے شوق سے پیتے تھے۔ میں نے بارہا انگریز جرنیلوں کو ان کے پاس بیٹھے دیکھا جن کو بڑی رغبت سے اس عجوبہ چیز کی تفصیلات بتاتے تھے اور کبھی جھجھک یا شرمندگی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔
(جاری ہے)