امریکہ دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے
افغانستان کی تاریخ میں ماہ اگست کی اہمیت کا حامل ہے کہ کہ اسی ماہ کی 19تاریخ کو تیسری اینگلو افغان جنگ کا اختتام1919کے راولپنڈی معاہدے پر منتج ہوا۔ برطانیہ نے افغانوں کا استقلال تسلیم کرلیا۔ افغان یہ دن شان و اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔ دوسری بڑی تاریخ بھی اسی ماہ میں ہی رقم ہوئی کہ کہ جب 20سالہ طویل امریکی قبضے کے خلاف بے مثل اور صبر آزما جنگی و سیاسی جدوجہد کے بعد15اگست2021ء کو امریکی اور ناٹو کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں۔ قابض افواج کا انخلا29فروری2020ء کے دو حا معاہدے کے تحت ہوا۔ یہ مذاکرات آٹھ سالوں پر محیط رہے ہیں ۔ افغانوں کی آزادی کا ایک دن15فروری1989 ہے ،کہ جب 9سال ایک ماہ تین ہفتہ اور ایک دن پر مشتمل سوویت یونین کے قبضے کا اختتام ہوا۔ سویت افواج24دسمبر1979کو افغان سرزمین کو تاراج کرتے ہوئے داخل ہوئی تھیں۔ ان افواج نے سب سے پہلے صدر حفیظ الامین کو ان کی سرکاری رہائشگاہ دار الامان پر زمینی اور فضائی حملہ کرکے بچوں اور صدارتی دستے سمیت قتل کردیا تھا۔ ماسکو نے پیش ازیں 27اپریل1978کو افغان صدر سردار دائود کے خلاف فوجی بغاوت کرائی ۔اقتدار اس کے خوشہ چینوں نے ہاتھ میں لے لیا ،روسی جلی طور افغانستان میں موجود تھے۔ پوری سرکاری مشنری اور حکومتی معاملات روسی مشیروں اور جاسوسی ادارے کے ہاتھ میں تھا۔ آخر کار نا مراد ماسکو نے جینوا معاہدہ کی آڑ لے لی ،اس طرح روسی فوجی قبضے کا اختتام ہوا۔ سرخ فوجیں اپنے سیاسی اور فوجی بڑوں کو گالیاں دیتے ہوئے حیرتان کا پل عبور کرتے رہے ۔ افغان یہ دن بھی اپنی آزادی اور جدوجہد کی کامیابی کے طور پر مناتے ہیں۔موجودہ افغان حکومت نے 15اگست کو قابض امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا دن سرکاری سطح پر آزادی و استقلال کے دن کے طور پر منایا ۔ما بعد19اگست کو افغانستان کے استقلال کا 103دن بھی سرکاری سطح پر منایا۔ ایک طبقہ ایسا ہے کہ جنہوں نے روسی افواج ما بعد امریکی و نیٹو افواج کو خوش آمدید کہا اور اس پورے عرصہ انقلاب او رجمہوریت کا گمراہ کن گانا گاتا رہا۔ شرم و حیاسے عاری یہ طبقہ صرف19اگست کا دن منانے کا دم بھرتے ہیں۔ انہیں9سال سے زائد مدت تک روسی فوجوں اور برابر 20سال تک امریکی اور نیٹو افواج کا قبضہ اور زیادتیاں نظر نہیں آتیں۔ امریکا نے افغان حریت پسندوں کو فریق اور وطن کے اصل مالک سمجھ کر امن معاہدہ کیا ۔ جن کا پہلا نکتہ و ہی طن سے غیر ملکی افواج کی واپسی کا تھا۔ یہ پہلو مدنظر رہے کہ دوحا معاہدے کے نکات پر عملدرآمد میں لیت و لعل یا مکر و فریب سے امریکا ہی نے کام لیا۔ امریکا چاہتا تو بین الافغان مذاکرات بہر طور نتیجہ خیز ہوتے ۔ اگر امریکا کی نیت صاف ہوتی تو ضرور معاہدہ کے تحت کابل کے تخت پر بٹھائے اپنی کٹھ پتلیوں کو پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو چھوڑنے کا حکم دیتا۔ نہ امریکا نے اپنے مخالف رہنمائوں کے سروں پر مقرر انعامات کا فیصلہ لیا نہ ان پر پابندیاں ختم کرائیں ۔تحفظ حاصل ہونے کے باوجود عجلت اور حواس باختگی کے عالم نکلنا شروع کیا۔ ساتھ طالبان مخالف گروہوں یا اپنی باقیات کو مسلح کرتا گیا۔ ہر وہ چیز تباہ کرنے کی پوری کوشش کی جو آئندہ کی حکومت کے لیے کارآمد ہوسکتی تھی۔ اقتدار حوالے کرنے کی بجائے اشرف غنی ، ان کی فوج اور شمال کے گروہوں کو جنگ کی شے دیتا رہا۔ مگر وہ ایک ایک کرکے بھاگتے رہے۔یہاں تک کہ اشرف غنی بھی جوتیاں بغل میں دبا کر بھاگ نکلے۔ چند دن پہلے اشرف غنی اعتراف کر گئے کہ وہ تنہا رہ گئے تھے مزید جنگ کی طاقت اور ہمت نہ رہی تھی اس بنا فرار کو ترجیح دی۔ غنی یہ بھی قرار دے چکے ہیں کہ ان کی حکومت میں شامل سب ہی لوگ فاسد، بزدل اور قو م و ملک کے غم و احساس سے عاری لوگ تھے۔ اب چوں کہ افغانستان مضبوط ہاتھوں میں ہے اس حکومت نے خود کفایت،علاقائی تعاون اور غیر جانبداری کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ عسکری، سیاسی ،معاشی اور اقتصادی آزادی کی طرف گامزن ہے ۔ مگر امریکا مغرب اور اقوام متحدہ نے غیر منصفانہ معیار اپنا رکھا ہے۔ اسے تسلیم کرنے کی بجائے مشکلات میں دھکیلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ چوٹ لگانے کی طاق میں رہتے ہیں۔ افغان حکومت کی غیر جانبدار ی کا ثبوت ہے کہ باقی دنیا سمیت بھارت سے بھی پیہم رابطہ قائم رکھے ہوئے ہے ۔ نئی دہلی کو کابل میں سفارت خانہ کھولنے پر آمادہ کر لیا۔ اگرچہ دہلی نے سفیر کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں کیا ہے البتہ دیگر سفارتی عملہ بھیج چکا ہے ۔ وزیر دفاع ملا یعقوب نے قرار دیا کہ افغان فورسز کی تربیت میںبھارت سے بھی معاونت لی جاسکتی ہے۔ بھارت نے امریکی قبضہ کے دوران افغانستان میں چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ نئی حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ بھارت اپنے منصوبوں پر کام کاآغاز کرے۔ دوحا معاہدے پر دستخط کے بعد اور زمام حکومت طالبان کے ہاتھ میں آنے کے بعد اب تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی تخریبی منصوبہ بندی ہوئی ہے، نا ہی کسی کو اپنا ملک استعمال کرکے دیا گیا ہے ۔ البتہ طالبان خود ”داعش “سے بر سر پیکا رہے۔ جو اقلیتوں سمیت حکومتی اشخاص اور تقریبات پر حملوں کی طاق میں رہتا ہے۔ ایک سال کے اندر کئی اہم رہنمانشانہ بن چکے ہیں ۔حال ہی میں کابل کے ایک مدرسہ میں خودکش دھما کا کے ذریعے مدارس کے ڈائریکٹر شیخ رحیم اللہ حقانی سمیت کئی افراد جان سے گئے ۔جس کے بعد اٹھارہ اگست کو مسجد کے اند دھماکا میں مولوی امیر محمد کابلی سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے ۔ حکومت اس گروہ سے رعایت برت نہیں رہی۔ اب تک سینکڑوں کا رندوں کو مار چکی ہے یعنی کابل کی حکومت ایک ایسے گروہ سے متصادم ہے جو عالمی ایجنڈہ رکھتی ہے ۔جس کی جڑیں عراق و شام تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایسے میں واشنگٹن کا کابل کی حکومت پر القاعدہ کی سرپرستی کے الزام کے کیا معنی لئے جائے؟۔ 2اگست کو کابل کے پوش علاقے شیر پور میں ڈرون حملہ ہوا۔ کابل نے اس کی مذمت کی ہے۔ عمر رسیدہ امریکی صدر جوبائیڈن نے ڈاکٹر ایمن الظواہری کی موت کا اعلان کیا۔ ظواہری کی موت کی ازیں پیش بھی متعدد بار خبریں آچکی ہیں۔ اول تو ایمن الظواہری کے مارے جانے کا دعویٰ صریح مشتبہ معاملہ ہے ۔ دوئم اگر ظواہری زندہ بھی تھے تو اس پورے عرصہ میں کہاں تھے۔ ظاہر ہے خصوصاً 2 مئی 2011ء کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے امریکی آپریشن میں مارے جانے کے دعوے، خاص کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کے بعد الظواہری کا پاکستان کی حدود میں پوشیدہ ہونا ممکن ہے۔ اگر ان کی افغان سرزمین پر موجودگی تسلیم کر بھی لی جائے تو افغانستان پر امریکی قبضے کے 20سال ان کی افواج جو فضا پر چھائی ہوئی تھیں اور زمین پر دنداتی پھرتی رہی ہیں کیا کررہی تھیں۔ پوری’’ سی آئی اے‘‘ ماتحت کابل حکومت کی’’ این ڈی ایس‘‘ بشمول بھارتی ’’ را‘‘ ،جاسوسی کے دیگر اتحادی ادارے کہاں سورہے تھے ۔ دراصل عناد اورقلق افغانستان سے بے دخلی کا ہے۔ اسی لئے نت نئے بہانے تراش رہا ہے ۔ الظواہری کے قتل کا کہہ کر افغانستان کے منجمد سات ارب ڈالر بحال نہ کرنے کا کہہ رہا ہے۔ حالاں کہ پہلے سے ہی امریکا رقم نہ دینے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ کہتا ہے کہ ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون حملے میں ہلاک افراد کے لواحقین میں تقسیم کئے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان بیس سالوں کی جارحیت میں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے افغان باشندوں کامعاوضہ کون ادا کرے گا۔ یہی سوال عراق کے بارے میں بھی ہے۔ امریکی بلکہ جاسوسی کے عالمی ادروں کے تسلط میں داعش گروہ افغانستان میں پروان چڑھی ہے۔ طالبان ان کے تعاقب میں ہیں۔ سوال پھر اٹھتا ہے کہ طالبان تو اس عالمی تنظیم سے لڑرہے ہیں تو اس کے خالق اور محافظ کون ٹھہرے ہیں؟ حامد کرزئی نے اپنی صدارت کے دوران کہا تھا کہ فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے داعش کو کمک پھینکی جاتی ہے ۔ اشرف غنی حکومت میں داعش کے کمانڈر افغانستان کے پوش علاقوں میں ٹھہرائے گئے تھے۔ برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے افغانستان کے اندر شمال کے گروہوں ،امریکی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں ۔ طالبان کو عفریت بناکر پیش کررہے ہیں۔ یہ ادارے در حقیقت صحافت کی بجائے جاسوسی کا فریضہ نبھارہے ہیں۔ تسلیم کرنے اور پابندیاں ہٹانے کے بدلے تقاضا افغان سرزمین اور امریکا اور اتحادیوں کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو نے کیا جاتا ہے ۔ یہ کس قدر احمقانہ اور غیر منطقی مطالبہ ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی ، فوجی اور معاشی طور پر مستحکم افغان حکومت ہی دہشت گروں پر حاوی اور سلامتی کی ضامن بن سکتی ہے ۔ رہبر اعلیٰ ہبتہ اللہ اخوندزادہ بارہا اپنے پیغامات میں دنیا اور پروسی ممالک کو اطمینان دلایا ہے کہ افغانستان کسی کے خلاف استعمال ہو گا،نہ کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔یہاںبلوچستان اور خیبر پشتونخوا کے بعض نا عاقبت اندیش ماضی کے فکری اسیری اور جمود سے نکل کر سوچیں تو موجودہ افغان حکومت ملک کے استقلال کی محافظ اور چارہ گرہے۔