خیبرپختون خوا: 4قومی حلقوں پر ضمنی انتخاب کا دنگل

پاکستان تحریک انصاف کے پاکستان بھر سے مستعفی ہونے والے 123ارکانِ قومی اسمبلی میں سے 9 ارکان کے استعفوںکی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تصدیق، نیز الیکشن کمیشن کی طرف سے ان خالی قرار دی جانے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد خیبرپختون خوا سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی 4 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حکمران پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت اور دلچسپ مقابلے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ ان نشستوں پر بعض سرکردہ اور نامی گرامی سیاست دانوں کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے بعد یہ انتخابات انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق صوبے سے قومی اسمبلی کی 4 نشستوں کے لیے 42 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کیے ہیں۔ ابتدائی فہرست کے مطابق این اے 22 مردان کے لیے 6 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں، این اے 24 چارسدہ کے لیے 9، این اے 31 پشاور کے لیے 10، جبکہ این اے 45 کرم سے 17 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان انتخابات کا ایک اور دلچسپ اور منفرد پہلو تادم تحریر صوبے کی ان چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا بطور پی ٹی آئی امیدوار کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے خیبرپختون خوا کی چار نشستوں سمیت تمام نو حلقوں سے نہ صرف الیکشن لڑیں گے بلکہ وہ یہ نشستیں جیت کر بھی دکھائیں گے۔ واضح رہے کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق خیبرپختون خوا کے جن چار حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوں گے ان میں این اے 22 مردان، این اے 24 چارسدہ، این اے 31 پشاور اور این اے 45 کرم کے حلقے شامل ہیں۔ یہ نشستیں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی علی محمد خان، فضل محمد خان، شوکت علی اور فخر زمان کے استعفوں کی اسپیکر راجا پرویزاشرف کی جانب سے منظوری کے بعد خالی ہوئی ہیں جنہوں نے تقریباً چار ماہ قبل اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق ویسے تو ان چاروں نشستوں پر کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے لیکن ماضی میں این اے ون پشاور اور موجودہ این اے 31پشاور کے حلقے میں چونکہ دو سابق حریفوں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک بار پھر مدمقابل ہیں اس لیے سیاسی مبصرین اس ٹاکرے کو انتہائی دلچسپ اور غیر معمولی قرار دے رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2013ء میں اس حلقے پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے بعد ازاں یہ نشست خالی کرکے یہاں سے ضمنی الیکشن میں ایک نسبتاً گمنام اور کمزور امیدوارگل بادشاہ کو ٹکٹ جاری کیا تھا جنہیں اے این پی کے سینئر راہنما حاجی غلام احمد بلور کے ہاتھوں واضح شکست سے دوچار ہونا پڑاتھا۔ پشاور کے روایتی شہری علاقوں پر مشتمل این اے31 پشاور کا موجودہ حلقہ ماضی میں این اے ون کہلاتا تھا۔ یہاں پر ماضی میں ویسے تو خاصے دلچسپ مقابلے ہوتے آئے ہیں لیکن بالعموم اے این پی کا پلڑا ہی زیادہ تر بھاری رہا ہے۔ حاجی غلام احمد بلور یہاں سے پہلی بار 1988ء، دوسری بار1990ء، تیسری بار 1997ء چوتھی بار2008ء اورآخری بار2013ء کے ضمنی انتخاب میں کامیاب قرار پائے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ٹائون ون کے سابق ناظم شوکت علی تھے جو حاجی غلام احمد بلور کو بھاری مارجن سے شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے تھے۔ حالیہ ضمنی انتخاب میں چونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مسلم لیگ(ن)، جمعیت(ف) اور قومی وطن پارٹی کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی عمران خان کے خلاف غلام احمد بلور کا ساتھ دے رہی ہیں اس لیے اس حلقے میں سنسنی خیز مقابلے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
این اے 24 چارسدہ جو ماضی میں این اے 5 کہلاتا تھا، یہاں ضمنی انتخاب میں بھی ایک دلچسپ مقابلے کی امید ہے، جہاں پی ٹی آئی کے سربراہ کو اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کے برخوردار اور سیاسی جانشین ایمل ولی خان سے پنجہ آزمائی کا مرحلہ درپیش ہے۔ یہ حلقہ بھی روایتی طور پر اے این پی کا تصورکیا جاتا ہے جہاں سے ماضی میں اے این پی کے سربراہ عبدالولی خان اور موجودہ سربراہ اسفندیار ولی خان کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس طرح ایمل ولی، باچاخان کے سیاسی خانوادے کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے پہلے امیدوار ہیں جنہیں ابھی تک قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننا نصیب نہیں ہوا ہے، اور جنہیں اب25 ستمبر کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے۔ گوکہ اس نشست پر بھی اے این پی کو سوائے جماعت اسلامی کے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، لیکن پھر بھی ایمل ولی خان کے لیے یہ معرکہ سر کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ سمجھا جارہا ہے۔
این اے 22 مردان کی نشست پر 2018ء میں پی ٹی آئی کے علی محمد خان اور جمعیت(ف)کے مولانا محمد قاسم کے درمیان مقابلہ ہوا تھا، جو علی محمد خان نے نہ صرف جیت لیا تھا بلکہ وہ اپنے سر پر وزارت کا تاج بھی سجانے میں کامیاب ہوگئے تھے، جب کہ اِس بار اس نشست پر مولانا محمد قاسم اور عمران خان مدمقابل ہیں۔ این اے 45 کرم میں 2018ء کے عام انتخابات کے بعد یہ دوسرا ضمنی انتخاب ہوگا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں یہاں سے جمعیت(ف)کے حاجی منیر خان اورکزئی کامیاب قرار پائے تھے جب کہ پی ٹی آئی کے سید جمال بنگش رنراپ رہے تھے، اور پی ٹی آئی کے ایک ناراض آزاد امیدوار فخر زمان خان نے تھوڑے سے فرق سے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، البتہ جب 2021ء میں یہ نشست حاجی منیراورکزئی کی وفات سے خالی ہوئی تو یہاں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی نے اپنا ٹکٹ سید جمال کے بجائے فخر زمان کو دیا تھا، جویہ انتخاب معمولی مارجن کے ساتھ جیت تو گئے تھے لیکن یہاں جمعیت(ف) کے امیدوار جمیل خان چمکنی اور پی ٹی آئی سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد امیدوار سید جمال بہت کم ووٹوں کے فرق سے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ باقی تینوں حلقوں کی طرح یہاں بھی اصل مقابلہ عمران خان اور جمعیت (ف) اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوارکے درمیان ہوگا، البتہ یہاں اصل مسئلہ جمعیت(ف)کے دو امیدواران جمیل چمکنی اور منیراورکزئی کے بھائی عبدالقادر اورکزئی کا الگ الگ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا ہے، جن میں سے ایک کو دست بردار کرانے کے لیے پارٹی قیادت کی جانب سے قبائلی اضلاع کے امیر اور وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکورکو ٹاسک سونپا گیا ہے۔ وہ ان دونوں امیدواروں میں سے کس کو کب رام کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اس کا نتیجہ ابھی آنا باقی ہے۔

خیبر پختون خوا کے زیر بحث چار حلقوں کے ضمنی انتخابات کا ایک اور قابلِ توجہ پہلو ان نشستوں پر پی ٹی آئی کی جانب سے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے سابق ارکان قومی اسمبلی شوکت علی، علی محمد خان، فضل محمد خان اورفخر زمان خان کا بالترتیب پشاور، مردان، چارسدہ اور کرم کے حلقوں پر بطور کورنگ امیدواران کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا ہے، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ آگے جاکر اگر کسی بھی مرحلے پر عمران خان کو فارن فنڈنگ، توشہ خانہ یا پھر کسی بھی دوسرے کیس میں نااہلی کی سزا کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے تو ایسی کسی بھی صورت میں یہی کورنگ امیدوار پی ٹی آئی کے باضابطہ امیدوار قرار پائیں گے، لہٰذا اس کے بعد ان تمام حلقوں پر مقابلے کی وہ صورت نہیں ہوگی جو موجودہ حالات میں نظر آرہی ہے۔