ہم محض داخلی بحران کا شکار نہیں، بلکہ ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ خود ہم سے مزید سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔
پاکستان کا بحران بظاہر سیاسی اور معاشی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر ہم معاملات کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن قومی بحران اتنا سادہ نہیں، بلکہ ان مسائل کے تانے بانے ریاست کے بحران کے ساتھ بھی جوڑ کر دیکھنے پڑتے ہیں، کیونکہ جو بھی مسائل ہوتے ہیں ان کا تجزیہ سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوتا۔ معاملات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ قومی بحران کی جڑیں خاصی گہری ہیں اور یہ مختلف فریقین کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت ایک محاذ سیاسی قوتوں کے درمیان ہے۔ یہ محاذ عملی طور پر حکومت و حزبِ اختلاف کے درمیان تقسیم ہے۔ عددی طاقت کے اعتبار سے حکمران اتحاد بھاری ہے، جبکہ سیاسی اعتبار سے اس وقت عمران خان کی سیاسی فکر یا بیانیے کا غلبہ ہے۔ یہ ایک سیاسی ٹکرائو اور بداعتمادی کی فضا ہے جس میں کوئی بھی فریق مخالف سیاسی فریق کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سیاست کا مل بیٹھنا اور مسائل پر کوئی متفقہ رائے اختیار کرنا کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر عملی طور پر اعتماد کا بحران مفاہمت یا قبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کے اس ٹکرائو نے جہاں سیاسی ماحول کشیدہ کردیا ہے وہیں اس کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر پڑرہا ہے، جس سے عوام کی معاشی مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں۔ اس کا احساس کسی حد تک سیاسی قوتوں میں موجود ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاسی تقریروں میں معاشی مسائل کی بازگشت سنی جاتی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف تو میثاقِ معیشت کی بات بھی کررہے ہیں، مگر کشیدہ سیاسی حالات میں میثاقِ معیشت کیسے ممکن ہوسکے گا، یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ لیکن حکومت ہو یا حزب اختلاف… دونوں کے پاس موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے حل کا کوئی ایسا واضح روڈمیپ نہیں جو مثبت انداز میں مستقبل کا کوئی سیاسی و معاشی نقشہ کھینچ سکے۔ ایک روایتی اور وقتی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمیں معاشی بحران یا معاشی جکڑبندی سے نہیں نکال سکے گی۔ جو لوگ معاشی مسائل کا حل سیاسی مسائل کو نظرانداز کرکے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ معاشی مسائل کا ایک بڑا حل ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور چند اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پر حکومت و حزبِ اختلاف کے اتفاقِ رائے کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں ہوسکے گا۔
ایک طرف سیاسی اور معاشی کشمکش ہے، تو دوسری طرف ریاستی بحران کے تناظر میں سیاسی فریقین اور اداروں کے درمیان بھی بداعتمادی یا ٹکرائو کا ماحول نظر آتا ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف، دونوں اپنے اپنے سیاسی مفاد میں اداروں کی حمایت یا مخالفت کو بنیاد بناکر ایک دوسرے پر سیاسی سبقت یا برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دانوں اور اداروں کے درمیان ٹکرائو کسی بھی سطح پر قومی مفاد یا قومی سلامتی کے برعکس ہے۔ کیونکہ جب اداروں کی حیثیت کو سیاسی اور متنازع بنایا جائے گا تو اس کا نتیجہ اداروں کی ساکھ خراب ہونے کی صورت میں نکلے گا جس سے مزید ٹکرائو یا سنگین مسائل جنم لیں گے۔ آج کی حکومت جب حزب اختلاف میں تھی تو اس کا مشہور بیانیہ عمران خان حکومت کے خلاف یہی تھا کہ اسٹیبلشمنٹ، نیب، عمران خان اور الیکشن کمیشن کا گٹھ جوڑ ہمارے خلاف ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر اُس وقت کی حزبِ اختلاف نے کھل کر اداروں پر تنقید کی اور اُس وقت کا حکمران طبقہ سول ملٹری اعلیٰ تعلقات کی مثالیں دیا کرتا تھا۔ لیکن اب کھیل الٹ ہوگیا ہے، کل کی حزبِ اختلاف جو آج کی حکومت ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے، جبکہ عمران خان کے بیانیے میں اسٹیبلشمنٹ پر کئی حوالوں سے تنقید کی جارہی ہے۔ عمران خان قومی مسائل میں اسٹیبلشمنٹ کو براہِ راست شامل کرتے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹ پر جو حد سے زیادہ تنقید ہورہی ہے وہ بھی حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بحث محض فوج تک محدود نہیں بلکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن بھی اس تنقید کی زد میں ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم سیاسی بحران سے آگے بڑھ کر ایک بڑے ریاستی بحران میں بھی داخل ہوچکے ہیں۔
سوشل میڈیا کی جو نئی جہتیں ہم دیکھ رہے ہیں انہوں نے بھی قومی سیاسی اور ریاستی بحران کو بڑھایا ہے، اورجو کچھ وہاں کہا یا دکھایا جارہا ہے جو بغیر کسی سنسر کے سامنے آتا ہے اُس میں بھی جہاں سچائی کے پہلو ہوسکتے ہیں وہیں پروپیگنڈا مہم بھی جاری ہے۔ داخلی اور خارجی سطح پر ایسے کئی انفرادی یا اجتماعی افراد یا گروہ ہیں جو پاکستان میں سیاست دانوں اور اداروں کے درمیان موجود لڑائی کو گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ٹکرائو کی سیاست کو مزید نمایاں کیا جاسکے۔ یہ جو ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کی باتیں ہورہی ہیں اس تناظر میں اپنے سیاسی اور ریاستی بحران کو دیکھا جانا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں یا کدھر جارہے ہیں، اور جہاں جارہے ہیں اس کی وجوہات یا عوامل کیا ہیں۔ اسی طرح اس بات کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ داخلی محاذ پر ٹکرائو کی سیاست یا اداروں کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس کے ہم خود بھی کتنے ذمہ دار ہیں، اور ہماری کون سی ایسی حکمت عملیاں یا پالیسیاں ہیں جو ان مسائل میں شدت پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ایک بات ہمارے اہلِ سیاست اور اداروں کے سربراہان کو بھی اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ آج وہ دور نہیں کہ محض جذباتیت یا ردعمل کی عملی سیاست کو بنیاد بنا کر مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم طاقت کے ذریعے جبر یا خوف کی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرسکتے ہیں تو اس خوش فہمی سے اسے باہر نکلنا چاہیے۔ آج کی دنیا مکالمہ کی دنیا ہے، اور جن لوگوں کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں ان کو اپنے ساتھ جوڑ کر قائل کرنے کی دنیا ہے۔ کیونکہ طاقت کے استعمال سے ردعمل کا رویہ سامنے آتا ہے جو مختلف فریقین میں بلاوجہ کی تلخیوں کو جنم دیتا ہے۔ سیاسی قیادتیں یہ سمجھیں کہ اس ملک میں کوئی غدار یا ملک دشمن نہیں۔ بلاوجہ کی یہ گردان مزید ٹکرائو کا ماحول پیدا کرتی ہے۔
اس وقت ہمیں سیاسی محاذ پر مختلف سیاسی فتووں سے باہر نکلنا چاہیے، اور خدارا اہلِ سیاست کسی ایسے کنڈکٹ کو حتمی شکل دیں جو بلاوجہ کی سیاسی محاذ آرائی، ذاتیات پر مبنی منفی سیاست اور سیاسی کشیدگی کو ختم کرسکے۔ اسی طرح اہلِ سیاست اور قومی اداروں کو بھی اپنی اپنی آئینی، قانونی، سیاسی اور انتظامی حدود… جو پہلے سے موجود ہیں… میں رہنا ہوگا، کیونکہ جب تک ہم اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر کام نہیں کریں گے ٹکرائو کی یہ سیاست ختم نہیں ہوسکے گی۔
یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم محض داخلی بحران کا شکار نہیں، بلکہ ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ خود ہم سے مزید سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیونکہ داخلی استحکام کی موجودگی اور ٹکرائو کی سیاست کے خاتمے کو بنیاد بناکر ہی ہم علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے اپنا روڈمیپ ترتیب دے سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ داخلی مسائل کی الجھنوں نے ہمیں جہاں ایک بڑے سیاسی گرداب میں پھنسادیا ہے، وہیں علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل پر ہماری توجہ کا ہٹنا خود ہمارے لیے اس سطح پر بھی مسائل پیدا کررہا ہے۔ ہم نے چند سال کی محنت کے بعد قومی سیکورٹی پالیسی کو ترتیب دیا جس کی اہم بنیاد جیو معیشت اور جیو تعلقات میں بہتری ہے۔ لیکن افسوس کہ ان داخلی مسائل کی موجودگی میں ہم اس اہم دستاویز کے ایجنڈے سے کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں، اور اس کی وجہ کوئی ایک فریق نہیں بلکہ سب فریقین اس کے ذمہ دار ہیں۔
اس لیے ہماری سیاسی قیادت چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں، یا ہماری اسٹیبلشمنٹ سے جڑے افراد، موجودہ صورتِ حال کو محض سیاسی بحران سمجھنے کے بجائے تسلیم کریں کہ ہم ریاستی بحران کا بھی شکار ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے مکالمے اور مفاہمت کی سیاست سمیت چند برسوں پر محیط ایک واضح اور شفاف اتفاقِ رائے پر مبنی روڈمیپ درکار ہے۔ کسی بھی فریق سے ٹکرائو کی پالیسی ہمارے حق میں نہیں، بلکہ ہمیں سب کو، جو ناراض بھی ہیں، ساتھ لے کر چلنا ہوگا، اور یہی ہمارے قومی مفاد میں بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے۔