بھارتی جہازوں کی اس آمدورفت کو کسی بڑی سرگرمی کی ریہرسل کہا جارہا ہے
ایک محدود مدت میں بھارت کا پانچواں جہاز کراچی ائرپورٹ پر اُترا اور کچھ مشکوک نقل وحرکت کے بعد اپنی اگلی منزل کوچل دیا۔ یہ جہاز بھی ماضی کی طرح سوالات اور قیاس آرائیوں کا دھواں پیچھے چھوڑ کر اُڑن چھو ہوگیا۔ فضائی حدود کی بندش اور کئی برس کی پابندیوں کے ماحول میں جب بھارت کے پہلے جہاز کے کراچی میں اُترنے کی خبریں سامنے آئیں تو سوالات نے جنم لینا شروع کیا مگر جواب ندارد۔ پاکستان کی تاریخ کے مطابق ایسے حساس سوال کا جواب کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کچھ جہازوں کے کراچی میں لینڈ کرنے کے لیے فنی خرابی کا عذر تراشا گیا، مگر پانچواں جہاز دھوم دھڑکے سے کراچی ائرپورٹ پر اُترا اور کچھ لوگ اس میں سوار ہوکر دبئی روانہ ہوگئے۔
بھارتی جہازوں کی اس آمدورفت کو کسی بڑی سرگرمی کی ریہرسل کہا جارہا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان اور بھارت کو تیزی سے انگیج کرنے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے۔ سری نگر سے دبئی کی پروازوں کے لیے کراچی کو بطور پڑائو چُن لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد پاکستان کو بارہویں کھلاڑی کے طور پر کشمیر کے کئی دوسرے منصوبوں میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
عرب دنیا کو کشمیر میں اپنے تجارتی مفادات اور مواقع و امکانات سے دلچسپی ہے، مگر بھارت عربوں کو آگے رکھ کر کشمیر میں اپنے اصل ایجنڈے یعنی اس کے تشخص اور آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عربوں کو ساتھ رکھنے سے بھارت کو مسلمان دشمنی کے الزام کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
اس بار 5 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کا رویہ بہت نرم اور ٹھنڈا ٹھار تھا۔ شہبازشریف حکومت نے احتجاج کا سارا معاملہ اسلام آباد میں مقیم حریت کانفرنس کے نمائندوں کو ٹھیکے پر دئیے رکھا۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ بھارت کے معاملے میں ہاتھ ہلکا رکھنے کی ماضی کی پالیسی کا احیاء ہے۔ کئی سابق سفارت کار یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ انہیں ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھارت کے معاملے میں اپنا رویہ اور لہجہ نرم رکھنے کی ہدایات ملتی رہی ہیں۔ بھارت کے معاملے میں اس رویّے کا تعلق بیرونی دبائو سے ہے، مگر اس کے جواب میں بھارت کے رویّے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یوں یہ یک طرفہ طور پر لڑھکنے کی کمزور پالیسی ہے۔
امریکہ پاکستان اور بھارت کو عربوں کے ذریعے قریب لانے کی کوشش کررہا ہے، مگر اس قربت میں کشمیر کا مستقبل کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ کشمیر پر اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہنا تو کوئی حل نہیں۔ پاکستان مذمت کے زبانی بیانات کی حد تک اپنے مؤقف پر قائم رہے گا، مگر بھارت کشمیر کے زمینی حقائق کو یکسر تبدیل کرے گا تو اس سے کیا حاصل؟ ایسے میں صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اگلے چند ماہ میں کشمیر کے حوالے سے کئی مغربی اور خلیجی ملکوں میں جارحانہ سفارتی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود بیرونِ ملک بسنے والے کشمیریوں میں اپنا گہرا اثر رسوخ رکھتے ہیں، اور انہیں اس اثر رسوخ کو کشمیر کی عوامی سفارت کاری کے لیے کامیابی سے استعمال کرنے کا طویل اور وسیع تجربہ ہے۔ بیرونی دنیا میں بھارت کے خلاف مظاہروں کا رواج بھی انہوں نے ڈالا اور اسے منظم انداز میں آگے بڑھانے میں بھی انہی کا کردار اہم ہے۔ اس کا کیا کیجیے کہ 5 اگست 2019ء کے بعد ہم نے قومی اور اجتماعی سطح پر اپنے لب سی لیے، اور عمران خان واحد شخص تھے جو ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی دبائو کو جھٹک کر لب کشائی کرتے رہے۔ وہ مودی کی ذات اور فکر و فلسفے پر دنیا کے ہر محاذ پر لفظوں کے ڈرون حملے کرتے رہے۔ وہ اسے ہندوئوں کا ہٹلر ثابت کرتے رہے، جس سے مودی تو تنگ تھا ہی، شاید کچھ اپنے بھی سکوت اور سکون کے تالاب میں اس قسم کے ارتعاش سے ناخوش تھے۔ اس خودساختہ سکوت کو توڑنے کے لیے اب خاصا وقت اور محنت درکار ہے۔ پانچ اگست کے بعد سکوت اور سکون کس کی ضرورت اور مجبوری تھا؟ وقت اس راز سے پردہ اُٹھائے بغیر نہیں رہے گا۔ ایسے میں کشمیر پر بین الاقوامی سطح پر راکھ میں چنگاری تلاش کی جانی ہے، جس کے بعد ہی چنگاری کو شعلہ بنایا جا سکے گا۔ یوکرین کی جنگ میں بھارت نے مغربی ملکوں کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرکے مغربی ملکوں میں اپنی پسندیدگی کے معیار اور مقام کو کچھ کم کیا ہے۔ بھارت نے روس کی مذمت بھی نہیں کی اور تیل کی خریداری پر پابندی پر امریکہ کے دبائو کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس سے بلاشبہ امریکہ اور مغرب میں بھارت کے لیے خفگی کا عنصر موجود ہوگا۔ یوکرین کی جنگ سے پہلے تک تو بھارت امریکہ اور یورپ کی آنکھ کا تارا تھا۔ وہ اُسے چین کے مقابلے میں ایک مسیحا اور ٹارزن بناکر پیش کررہے تھے، اس ضرورت کے تحت مغربی ممالک انسانی حقوق، شہری آزادیوں، انسانی مساوات اور سیکولرازم کے تمام سبق بھی بھلا بیٹھے تھے۔ چین کی دشمنی میں انہیں بھارت کا ہر جرم گوارا تھا۔ یوکرین کی جنگ میں بھارتی لائن سے اُن قوتوں کے لیے ایک اسپیس پیدا ہوگئی ہے جو بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ مغرب اور بھارت کے تعلقات کے خیمے میں ہونے والے پہلے چھید میں اپنے کردار کا ازسرنو تعین کیسے کرتی ہے اور اس صورتِ حال سے کس طرح فائدہ اُٹھاتی ہے؟ حد درجہ دفاعی اور معذرت خواہانہ رویّے کے ساتھ تو اس سمت میں ایک قدم بھی آگے بڑھانا ممکن نہیں۔