موسم برسات، سیلاب اور انسانی المیہ

برسات اور سیلاب سےملک کے طول و عرض میں نقصانات کی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے

مون سون کا موسم اس سال پاکستان میں غیر معمولی طور پر طویل رہا جبکہ بارشیں بھی معمول سے کہیں زیادہ ہوئیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے اس کے نتیجے میں ملک کے چاروں صوبوں کے وسیع علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں جن میں بلوچستان کی صورت حال سب سے زیادہ پریشان کن ہے،پورے ملک، خصوصاً بلوچستان اور سندھ میں معمول سے چار سو فیصد زیادہ طوفانی بارشوں اور ناگہانی سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے دونوں صوبوں میں رابطہ سڑکیں، ریلوے لائنیں اور پل زیر آب آنے اور ٹوٹنے کے باعث اکثر زمینی رابطے منقطع ہو چکے ہیں اور ریلیف کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ متاثرین کے بچائو، انہیں خوراک پہنچانے اور دوسری امدادی سرگرمیوں کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کئے جائیں۔ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ کمانڈر سدرن کمان کو بلوچستان میں امدادی کارروائیوں کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین سے ٹیلیفونی رابطے میں وزیر اعظم نے متاثرین کی مدد اور بچائوکی کوششیں مزید تیز کرنے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب زدگان کو رقوم کی فوری ادائیگی کی ہدایت کی۔ حکومت نے فلڈ ریلیف اسکیم کے تحت 15لاکھ خاندانوں کیلئے 37ارب روپے فراہم کر دئیے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے افراد کیلئے فی کس دس لاکھ روپے کے حساب سے چیک جاری کر دئیے گئے ہیں۔ سروے کی تکمیل پر ہر متاثرہ گھر کی تعمیر کیلئے 5لاکھ روپے دئیے جائیں گے، بیوائوں کو ترجیحی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ تمام متاثرین کو فی خاندان 25ہزار روپے ادا کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم امدادی فنڈ 2022ء قائم کیا گیا ہے یہ مشکل وقت مون سون کے خاتمے پر ختم ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی تعمیر نو اور متاثرین کی بحالی پر پوری توجہ دی جانی چاہئے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔پاکستان ان دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔برسات اور سیلاب سےملک کے طول و عرض میں نقصانات کی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے۔جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں گویا انسانیت سسک رہی ہے،انسانی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ لاشیں کیچڑ میں دھنسی ہوئی ہیں۔دریائے سندھ میں بچوں کی تیرتی لاشوں نے ایک ایسا منظر تخلیق کیا ہے جسکی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی ایک بہت بڑا سانحہ وقوع پزیر ہو چکا ہے۔ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔لیکن ہمارے ٹی وی چینلز کوروزمرزہ کی سیاست سے فرصت ملے تو وہ ان تباہ حال علاقوں کی خبر لیں، ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ کے مشاغل اور کیا ہیں؟ ملک کو سیاسی افراتفری اور تقسیم و انتشار کی موجودہ افسوسناک کیفیت کا سامنا نہ ہوتا تو آج سیلاب زدگان کی امداد و بحالی ہی پوری قوم کی توجہات کا اصل محور ہوتی جس کے نہایت شاندار مظاہرے ہماری پون صدی پر محیط تاریخ کا حصہ ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے چیلنج سے ہم سب کو مل کر نمٹنا ہے متاثرین کے 15 لاکھ خاندانوں میں 25 ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے 37 ارب روپے تقسیم کئے جائیں گے ان خاندانوں کے افراد کی مجموعی تعداد 90 لاکھ بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن لاکھوں خاندانوں کا سب کچھ بارش اور سیلاب کی نذر ہوچکا ہے‘ 25 ہزار روپے کی یہ امداد انہیں ازسرنو بحال کرنے میں کتنی مددگار ثابت ہوگی؟ قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک غیر حتمی جائزے کے مطابق بلوچستان کے 27 اضلاع اور تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے اور 207 اموات ہو چکی ہیں۔ 23 ہزار مکانات، 690 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور ایک لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے 9 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے، 74 بچوں سمیت 132 موات ہو چکی ہیں جبکہ 148 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ساڑھے چھ کلومیڑ کی سڑکیں اور سات پل متاثر ہوئے جبکہ پانچ ہزار گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے۔سندھ میں 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 66 بچوں سمیت 141اموات ہوئی ہیں اور تقریباً پانچ سو افراد زخمی ہوئے۔ صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اور 32ہزار سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے۔ انفراسٹرکچر کے نقصان کا اندازہ ہے کہ 33048 مکانات، 2100 کلومیٹر طویل سڑکیں، 45 پل اور 32 دکانیں متاثر ہوئیں۔پنجاب میں تین اضلاع میں 141اموات ہوئیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد مجموعی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں بارہ ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سات پلوں کو نقصان پہنچا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مجموعی طور پر 38 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھ اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور آٹھ سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کا ازالہ کھربوں روپے کے مالی وسائل مختص کیے بغیر ممکن نہیں جس کے لیے غیرمعمولی تدابیر ناگزیر ہیںان حالات میں انسانیت کا تقاضا ہے کہ مراعات یافتہ مقتدر طبقہ جس نے دریائوں، نالوں اور قدرتی بہائو کے راستے روک کر ہائوسنگ منصوبے بنائے ہیں وہ اپنے تعیشات کی قربانی دیں یہ رقم سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی پر خرچ کی جائے، وہ تمام سیاسی حکومتی شخصیات جنہوں نے دریائوں اور نالوں کے قدرتی بہائو کے راستوں میں ہائوسنگ منصوبے بنانے کی اجازت دی ان سے کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے جو رہتی دنیا تک ان کی نسلیں یاد رکھیں، بلاشبہ یہ بھی حقائق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں تمام ممالک مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، امریکہ،یورپ اور چین ذیادہ متاثر ہوئے ہیں، لیکن اقوام عالم کے بیشتر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، ایک روز انہیں اس میں کامیابی بھی مل جائے گی، پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سے ہے جس کے لیے خطرات کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور ملک میں مکمل آفت آنے تک انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے موسمیاتی تبدیلی کے بعد ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج فوڈ سیکورٹی ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اسے 220 ملین لوگوں کی خوراک کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ موسم کا نیا نمونہ فصلوں کی کاشت کے لیے پرانے زرعی طریقوں سے تبدیلی اور جدید اور پائیدار زرعی طریقہ کار کو استعمال کرنے کا مطالبہ کرتا ہے حقائق یہ ہیں کہ حکومت نے اس شعبے کے لیے بجٹ میں محض گیارہ ارب رکھے ہیں،ملک میں برسات میں معمول سے ذیادہ بارشیں ہوئی ہیں، چترال سے لے کر سندھ، بلوچستان سب متاثر ہوئے ہیں، پاکستان بھر میں 14 جون سے اب تک طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 600 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جبکہ 11 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ملک میں جاری بارشوں کے باعث دریاؤں میں سیلاب بڑھ رہا ہے تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح گنجائش ایک فٹ پانچ رہ گئی، ظاہر ہے ڈیم بچانے کے لیے اس سے بھی پانی چھوڑا جائے گا، اس وقت اوسطاً 6 لاکھ کیوسک پانی دریائوں میں بہہ رہا ہے اور یہ نہایت غیر معمولی صورت حال ہے سیلابی دبائو کے باعث بند اور ڈیم خطرے میں ہیں سندھ میں سکھر اور گڈو بیراجوں پر سیلابی صورتحال کے باعث کچے کے علاقے میں بڑی مقدار میں اراضی دیہاتوں سمیت زیر آب آئی ہوئی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن تاحال ان کو کچے سے محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے حوالے سے کسی قسم کے اقدامات سامنے نہیں آسکے ہیں، ملک میں سیلاب کا پانی چونکہ دریائوں سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوتا ہے جہاں سے سمندر میں جا گرتا ہے، مگر ابھی سندھ سنبھل نہیں پایا ہے کہ بھارت نے جسر کے مقام سے پانی دریائے راوی میں چھوڑ دیا ہے سیلابی ریلے کے باعث مزید خطرات لاحق ہوئے ہیں بھارت نے ایک لاکھ کیوسک میٹر سے زائدپانی چھوڑا ہے، جس سے دریائے راوی میں سیلاب ہے جس سے گوجرانوالہ، لاہوراور ملتان ڈویژن متاثر ہوسکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بارشوں سے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی نے کئی علاقوں میں تباہی مچائی ہے جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، لوگ گھروں سے بے گھر اور ہزاروں ایکڑ فصلیں زیر آب آگئیں، یہاںمتاثرین کا شکوہ ہے کہ امدادی کارروائیاں ناکافی ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کے کئی دیہاتوں کو مزید خطرہ ہے تونسہ میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے اتنا زیادہ پانی داخل ہوا کہ لوگوں کے گھر بھی بہا کر لے گیا جبکہ تیز پانی کے بہاؤ میں امدادی کارروائیاں بروقت نہ ہونے کی وجہ سے جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ پہاڑوں سے پانی تیزی سے آیا جس میں لاشیں بھی شامل تھیں لوگوں کی فصلیں بھی زیر آب آگئیں اور کھانے پینے کا سامان بھی بہہ گیا ان علاقوں میں امدادی سرگرمیاں ناکافی ہیں حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی’صرف بیانات کی حد تک‘ امداد کی جارہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوہ سلیمان سے اترنے والے پانی کو روکنے کے لیے منصوبہ بنایا جائے اور لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ سیلاب کے بعد بھوک سے اموات شروع نہ ہوجائیں اب تک ڈیرہ غازی خان اورتونسہ میں بارشوں سے آنے والے سیلاب میں 31 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور متعدد لاپتہ بھی ہیں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں پر10 سال بعد ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے سیلاب ہے جبکہ دریائے سندھ، چناب سمیت کسی دریا میں ابھی پانی کی سطح اتنی بلند نہیں جسے خطرناک لائن کہا جاسکے،صوبہ سندھ کے متعدد علاقوں میں موسلا دھار بارشوں سے جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، دادو، نواب شاہ اور نوشہروفیروز میں مون سون بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔زیریں سندھ کے حیدرآباد اور میرپورخاص کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، سجوال، میرپورخاص، سانگھڑ اور عمرکوٹ میں بھی صورت حال تشویشناک ہے۔یہ اضلاع بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان تمام اضلاع میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں کچے مکانات گر گئے ہیں۔ بدین 72 یونین کونسلز میں 55 مکمل طور پر زیرِ آب آگئیں، جہاں بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیںبدین شہر مکمل طور پر زیر آب ہے، 2011 میں بدین کو سیلاب نے شدید متاثر کیا تھا مگر اس بار حالات زیادہ خراب نظر آتے ہیںخراب صورت حال کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی ریلف آپریشن تاحال شروع نہیں کیا گیا۔ عام طور پر لوگ شدید بارشوں کے بعد اپنے گاؤں سے باہر نکل کر سڑک پر آکر بیٹھتے ہیں مگر اس بار سڑکیں بھی ڈوبی ہوئی ہیں اور لوگ اپنے علاقوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں یہاں توجہ نہ دی گئی تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے سندھ میں پانچ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ 28 ہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ گھروں سے محروم ہوگئے ہیں اور صوبے میں بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں 137 لوگ اور 941 مویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔