کراچی کی ترقی… ملک کی ترقی
”عوام 28اگست کو ترازو کو اتنے ووٹ دیں کہ دھاندلی کرنے والوںاور بوگس ووٹر لسٹوں کو بھی شکست ہوجائے“
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا خطاب
جماعت اسلامی شہر کراچی میں ایک بار پھر ایک بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ ابھرتی نظر آرہی ہے۔ اس کی ”حق دو کراچی“ تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ پذیرائی حاصل کی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ہر شہری کی تحریک بن چکی ہے۔ شہر میں جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن ہر گھر کی آواز بن چکے ہیں، کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا نوجوان.. سب کے منہ سے ایک ہی بات سننے کو مل رہی ہے کہ حل صرف جماعت اسلامی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ذمہ داروں کی سطح کے لوگ بھی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ جماعت کو دینے کی بات کررہے ہیں۔ اس مقبولیت سے پیپلز پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اور وہ آج بھی اپنی اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش میں لگی ہے۔ جماعت اسلامی کی تحریک شہرِ قائد کے روشن مستقبل کی نوید ہے، اور یہ مرحلہ مضبوط اعصاب کے ساتھ طویل جدوجہد کرنے اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد آیا ہے، اور اس کو مستقبل میں ابھی کئی طرح کے مزید چیلنج درپیش ہیں۔ اس وقت شہر میں بارشوں کے بعد ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، سیوریج کے نظام اور صفائی ستھرائی کے بدترین مسائل درپیش ہیں۔ سندھ حکومت اور ایڈمنسٹریٹر کراچی اپنی ناقص کارکردگی کے ساتھ ناکام ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی میدانِ عمل میں ہے۔ وہ جہاں اپنے کارکنان کے ذریعے شہر میں تباہ حال لوگوں کی مدد کررہی ہے، ان کو اپنی بساط کے مطابق ریلیف فراہم کررہی ہے وہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کراچی کے عوام کے جائز اور قانونی حقوق کے لیے لڑرہی ہے اور سراپا احتجاج ہے۔
اسی پس منظر میں ”حقوق کراچی تحریک“ اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جماعت اسلامی کے تحت اتوار کو مین یونیورسٹی روڈ پر حسن اسکوائر سے اردو یونیورسٹی تک ایک عظیم الشان اور تاریخی ”حق دو کراچی مارچ“ منعقد کیا گیا جو اس بات کا اظہار تھا کہ کراچی بدل رہا ہے اور کراچی اِس بار بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کچھ الگ سوچ رہا ہے۔ مارچ میں شہر بھر سے بہت بڑی تعداد میں مرد و خواتین، بچوں، بزرگوں، نوجوانوں، علمائے کرام، تاجروں، اساتذہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینئروں، سول سوسائٹی سمیت اقلیتی برادری کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا مارچ تھا۔ ہر طرف انسانوں کے سر ہی سر تھے، فلیٹوں کی بالکونیوں سے بھی لوگ مارچ کے شرکاء سے ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی محبت کا اظہار کررہے تھے اور حافظ نعیم کو دیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ شرکاء اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شریک تھے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ شہر بھر سے آنے والے قافلے اپنے مقررہ روٹس سے ہوتے ہوئے ریلیوں اور جلوسوں کی صورت میں حسن اسکوائر پہنچے جو ہزاروں موٹر سائیکلوں، سوزوکیوں، کوچوں اور دیگر گاڑیوں پر سوار تھے۔ مارچ کا باقاعدہ آغاز قاری منصور کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جبکہ نعتِ رسول مقبولؐ عمیس نے پیش کی۔ قائدین کے خطاب کے لیے اردو یونیورسٹی کے سامنے قائم اوور ہیڈ برج پر اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر جلی حروف میں ”حق دو کراچی کو“ اور lets Rebuild karachi with hafiz naeem لکھا ہوا تھا۔ ایک جانب حافظ نعیم الرحمٰن کی تصویر اور دوسری جانب انتخابی نشان ترازو نمایاں طور پر بنایا گیا تھا۔ یونیورسٹی روڈ پر سڑک کا ایک ٹریک مردوں اور دوسرا خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ ایک عجب منظر تھا۔ خواتین شرکاء کے ساتھ ننھے بچے اور بچیاں بھی موجود تھیں۔ مارچ کے دوران ”حقوق کراچی تحریک“ اور ”حق دو کراچی مارچ“، ”اس بار ترازو جیتے گا“، ”نکلا ہے کراچی نکلا ہے، حق لینے اپنا نکلا ہے“ کے حوالے سے تیار کیے گئے خصوصی ترانے چلائے جارہے تھے۔ حل صرف جماعت اسلامی، ڈاکو چور لٹیروں کو حق نہ لینے دیں گے، ہم مرمٹنے والے ہیں، ہم اہلِ کراچی ہیں، تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو، گلیوں اور بازاروں میں جدوجہد تیز ہو، اب ہر کراچی والا گھر سے نکلے گا اور اپنی قسمت خود لکھے گا… کی گونج میں مارچ جاری رہا۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بھی جماعت اسلامی کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے تھے جو مسلسل لہرائے جارہے تھے۔ مارچ میں شریک نوجوانوں کی بڑی تعداد نے جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو والی زرد رنگ کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں، جبکہ مارچ کی سیکورٹی پر مامور نوجوانوں نے سرخ رنگ کی ٹی شرٹس زیب تن کررکھی تھیں۔ مارچ میں شریک بچوں نے حافظ نعیم الرحمٰن کی تصویر والے ماسک پہنے ہوئے تھے جو شرکاء کی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ مارچ میں خواتین کے حصے میں معصوم بچوں کے چہروں پر جماعت اسلامی کے پرچم والے رنگوں سے فیس پینٹنگ کی جارہی تھی۔
مارچ بہت بڑا تھا اور اس بات کا اظہار تھا کہ اہلِ کراچی بلدیاتی انتخابات کا التوا اور عوام کے بلدیاتی نمائندوں اور میئر کے انتخاب کو روکنے کے لیے کی جانے والی سازشیں کسی صورت میں بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 28 اگست ووٹ کی طاقت، عوام کے فیصلے اور ترازو کی فتح کا دن ثابت ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے ’’تیز ہو، تیز ہو، جدوجہد تیز ہو“ اور ”حل صرف جماعت اسلامی‘‘ کے نعروں کی گونج میں مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” 28 اگست کو ہر شہری گھر سے نکلے اور ترازو کے نشان پر مہر لگائے، ترازو کو اتنے زیادہ ووٹ دیں کہ دھاندلی کرنے والوں کی دھاندلی اور بوگس ووٹر لسٹوں کو بھی شکست ہوجائے، تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، کراچی کی تعمیر و ترقی و خوشحالی کے لیے ووٹ صرف ترازو کو دیں۔ کراچی کے مسئلے کا واحد حل جماعت اسلامی ہے، اور ترازو کی کامیابی شہریوں کے مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کی ضمانت ہے۔ جماعت اسلامی کا میئر ہی اب شہر قائد کے مسائل حل کرے گا، ہمارا میئر اختیارات سے بڑھ کر کام کرے گا اور حکومت سے کراچی کا حق اور اختیار لے گا۔ کراچی کے عوام اور نوجوان مایوسی کا شکار نہ ہوں، جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے اور نوجوانوں کا مستقبل روشن اور تابناک بنانے کے لیے عوام جماعت اسلامی کی حق دو کراچی تحریک کا حصہ بنیں۔ شہر کے حالات، بدتر صورت حال اور مسائل کو اپنا مقدر سمجھنے کے بجائے اٹھیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپنا حق لینے کے لیے ہماری جدوجہد میں شریک ہوں۔ جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی عوام کی خدمت کی ہے اور آئندہ بھی ہم ہی کراچی کے عوام کے مسائل حل کرائیں گے۔ جماعت اسلامی شہر کی قیادت کرے گی، جماعت اسلامی کا میئر سب کو ساتھ لے کر چلے گا، ہمارا میئر تمام ٹائون کونسلوں اور تمام یوسی کونسلوں کے چیئرمینوں کو ساتھ ملا کر کراچی کے مسائل حل کروائے گا اور تعمیر و ترقی کا ادھورا سفر وہیں سے شروع کرے گا جہاں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے چھوڑا تھا۔ آج یونیورسٹی روڈ پر کراچی کے عوام کا سمندر امنڈ آیا ہے، کراچی اب اپنا حق لے کے رہے گا، کراچی کے عوام بلدیاتی انتخابات کے التوا کی سازش ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے، سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے 28اگست کو انعقاد کا حکم دے دیا ہے، شکست سے خوف زدہ جماعتیں الیکشن سے بھاگنا چاہتی ہیں لیکن اب انہیں فرار کا راستہ ہرگز نہیں دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے بھی ان کے فرار کے تمام راستے بند کردیئے ہیں۔“
حافظ نعیم الرحمٰن کا اپنے کلیدی خطاب میں مزید کہنا تھا کہ ”کراچی نے گزشتہ سال سے 42 فیصد زیادہ ٹیکس دیا مگر شہر کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کراچی قومی خزانے میں 67 فیصد ریونیو جمع کراتا ہے، سندھ کے 95 فیصد بجٹ کا انحصار کراچی پر ہے، مگر اِس شہر کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ کراچی کو خیرات نہیں اس کا جائز اور قانونی حق چاہیے۔ مردم شماری میں کراچی کی پوری آبادی کو گنا جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، جعلی ڈومیسائل اور جعلی بھرتیوں کا سلسلہ ختم کرکے کراچی کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں، کراچی کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی لوٹ مار میں ایم کیو ایم ہمیشہ سہولت کار بنی رہی ہے اور آج بھی ایک پیکیج ڈیل کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر سعید غنی کا دعویٰ ہے کہ اساتذہ کی بھرتیاں آئی بی اے سکھر کے تحت ٹیسٹ لے کر کی گئی ہیں، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھرتی ہونے والوں کو آئی بی اے کا درست مخفف تک نہیں معلوم۔ انہوں نے کہا کہ 28اگست کو بلدیاتی انتخابات ضرور ہوں گے اور کراچی کے تمام شہری بتادیں گے کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔ کراچی میں تمام زبانیں بولنے والے ترازو پر مہر لگا کر ثابت کردیں گے کہ اب ان کو وہ لوگ نہیں چاہئیں جنہوں نے انہیں تباہ و برباد کیا ہے۔“
حافظ نعیم الرحمٰن نے یہ بھی کہا کہ ”جماعت اسلامی لسانیت اور عصبیت کی سیاست کو مسترد کرتی ہے، ہماری تحریک کراچی کے ہر شہری اور ہر زبان بولنے والوں کی تحریک ہے۔ تمام حکمران پارٹیوں اور موجودہ اور سابق حکومتوں نے کے الیکٹرک کی مسلسل سرپرستی کرکے اسے ایک مافیا بنادیا ہے جو کراچی کے عوام پر مسلط ہے۔“
انہوں نے شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں بھی گفتگو کی اور کہا کہ ”لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کے دہرے عذاب سے اس مافیا نے اہلِ کراچی کو شکار کیا ہوا ہے، کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کے خلاف وائٹ کالر کرائم کا ارتکاب ہے، فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اہلِ کراچی کو مسلسل لوٹا جارہا ہے، صرف جماعت اسلامی نے اس مافیا کے خلاف آواز اُٹھائی، جماعت اسلامی ہی عوام کو اس مافیا سے نجات دلا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے کراچی کے عوام کے لیے پانی کے تاریخی منصوبے بنائے۔ عبدالستار افغانی نے K-3منصوبہ بنایا، نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے K-3 منصوبہ مکمل کیا اور K-4شروع کیا جسے اس کے بعد آنے والی کراچی دشمن حکومتوں نے آج تک مکمل نہیں ہونے دیا۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور، پنڈی اور ملتان میں میٹرو بسیں چل رہی ہیں لیکن کراچی میں ایک گرین لائن منصوبہ نواز لیگ نے مکمل کیا اور نہ پی ٹی آئی نے، اور پھر ادھورے منصوبے کا ہی افتتاح کردیا جو آج تک ادھورا ہے۔ 6سال سے اورنج لائن منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔“
مارچ کے اختتام پر تمام شرکاء نے موبائل فونز کی لائٹیں روشن کیں جس سے دلفریب نظارہ بن گیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مارچ کے اختتام پر فلک شگاف نعرے لگوا کر ماحول گرما دیا۔ مارچ کا اختتام حافظ نعیم الرحمٰن کی دعا پر ہوا۔
جماعت اسلامی کا فقیدالمثال مارچ اس بات کا اظہار ہے کہ شہر بدل چکا ہے اور کراچی اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔ بقول نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی کراچی ایک بار پھر نظریاتی سیاست کی طرف پلٹ چکا ہے، یہی کراچی کا ماضی تھا اور اب یہی کراچی کا حال اور مستقبل ہوگا، کراچی جاگ چکا ہے، کراچی آگے بڑھ رہا ہے اور اپنا حق لے کر رہے گا، کراچی ترقی کرے گا تو پورا ملک ترقی کرے گا۔