پاکستانی قوم نے 75 سال میں کیا کھویا، کیا پایا؟

قوم ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف جرنیلوں کی غلام ہے۔

پاکستانی قوم اِن دنوں قیامِ پاکستان کی ڈائمنڈجوبلی منا رہی ہے۔ 75 سال کی مدت کم نہیں ہوتی، اتنی مدت میں کسی قوم کے امکانات ظاہر ہوچکے ہوتے ہیں۔ کسی قوم کو جو بننا ہوتا ہے، بن چکی ہوتی ہے۔ اتنا طویل عرصہ قوم کے سود و زیاں کے تعین کے لیے کافی ہوتا ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے گزشتہ 75 برسوں میں کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟

پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل تھا اور دو قومی نظریہ اسلام تھا۔ جس وقت دو قومی نظریہ سامنے آیا مغرب کے دانش ور کہہ رہے تھے کہ اسلام Spent Force ہے، اسے دنیا کو جو کچھ دینا تھا دے چکا، اور اب اسلام کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لیکن برصغیر کے دائرے میں دو قومی نظریہ یا اسلام ایک انقلابی قوت بن کر ابھرا۔ دو قومی نظریے کے ظہور سے پہلے برصغیر کے مسلمان ایک بھیڑ تھے، دو قومی نظریے نے انہیں ’’ایک قوم‘‘ بنادیا ہے۔ پاکستان ایک ’’عدم‘‘ تھا، دو قومی نظریے نے اسے ’’وجود‘‘ بنادیا۔ قائداعظم دو قومی نظریے کے ظہور سے پہلے صرف محمد علی جناح تھے، دو قومی نظریے نے انہیں ’’قائداعظم‘‘ بناکر کھڑا کردیا۔ پنجاب، بنگال، سندھ، سرحد اور بلوچستان محض ایک جغرافیہ تھے، اسلام نے اُنہیں ایک مملکت میں ڈھال دیا۔ محمد علی جناح صرف افراد کے وکیل تھے، دو قومی نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔

ایسا نظریہ جو اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا تھا قیامِِ پاکستان کے بعد کیا نہیں کرسکتا تھا! مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کو ایک ’’انقلابی قوت‘‘ نہیں رہنے دیا، بلکہ پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام دشمن اور اسلام مخالف طبقہ بن کر ابھرا۔ جنرل ایوب کھلم کھلا خود کو سیکولر کہتے تھے اور انہوں نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوشش بلکہ سازش کی۔ انہوں نے سود کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی، انہوں نے ایسے عائلی قوانین منظور کرائے جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، انہوں نے آئین سے لفظ ’’اسلامی‘‘ نکلوا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرلیا، حالانکہ اسلام سوشلزم کے خلاف تھا اور سوشلزم اسلام کو ازکارِ رفتہ سمجھتا تھا۔ جنرل پرویزمشرف سیکولر اور لبرل تھے اور انہوں نے معاشرے کو سیکولر اور لبرل بنانے والے اقدامات کیے۔

ان کی وجہ سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں عریانیت اور فحاشی کا طوفان آیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف بھی سیکولر تھے۔ خواجہ آصف نے ایک یورپی ملک میں بیٹھ کر صاف کہا کہ ’’نواز لیگ ایک سیکولر اور پی ٹی آئی ایک مذہبی پارٹی ہے‘‘۔ صرف جنرل ضیا الحق ایک ایسے شخص تھے جو اپنی ذاتی زندگی میں دین دار تھے مگر ریاستی معاملات میں وہ بھی اسلام کو غالب نہ کرسکے۔ ریاستی معاملات میں اُن کا اسلام ایک ’’سیاسی اسلام‘‘ تھا۔ وہ اسلام سے وابستگی کا اظہار کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے رہے۔ انہوں نے اسلام کے نظامِ صلوٰۃ کو مذلت بنادیا۔

انہوں نے ایسی اسلامی بینکاری متعارف کرائی جو صرف نام کی اسلامی تھی۔ عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا بہت ذکر کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ چین اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کے نظاموں پر بھی اپنی رال ٹپکاتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ وہ فکری طور پر ابہام میں مبتلا ہیں اور نفسیاتی طور پر ایک کنفیوز انسان ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام کی انقلابی قوت سے فائدہ اٹھاتا تو پاکستان ’’ریاست‘‘ سے ایک ’’سلطنت‘‘ بن کر ابھر سکتا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کی انقلابی قوت کو ترک کرکے اُس تاریخی پیش قدمی کو روک دیا جو قیامِ پاکستان سے شروع ہوئی تھی اور جو بہت آگے تک جا سکتی تھی۔ پاکستان اس حوالے سے اور کچھ نہیں تو عالمِِ اسلام کا مرکز، اس کا قلب بن کر ابھر سکتا تھا، اور وہ آج دنیا کی دس بڑی قوتوں میں سے ایک قوت ہوتا۔

پاکستان ایک تاریخ ساز ’’مزاحمتی قوت‘‘ کا حاصل تھا۔ یہ مزاحمتی قوت اتنی بڑی تھی کہ اس نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کی مزاحمت کی۔ اس نے ہندو اکثریت کی مزاحمت کی۔ سلطنتِ برطانیہ کے سامنے برصغیر کے مسلمانوں کی کیا حیثیت تھی؟ کچھ بھی نہیں، مگر چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کا نظریہ اور قائد بڑے تھے اس لیے مسلمان انگریزوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے۔ ہندوئوں کی طاقت مسلمانوںکی طاقت سے کئی سو گنا بڑی تھی مگر مسلمان ان کے مساوی قوت بن کر کھڑے ہوگئے۔ اس مزاحمتی قوت کا کمال یہ تھا کہ مسلمان غلام ہوکر خود کو آزاد محسوس کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا مگر انہیں یقین تھا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتے ہیں۔

یہ مزاحمتی قوت صدیوں میں کسی قوم کو ہاتھ آتی ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے اس مزاحمتی قوت کی قدر نہیں کی، بلکہ اس سے خوف زدہ ہو گئے۔ انہیں لگا جو قوم انگریزوں اور ہندوئوں سے لڑ سکتی ہے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد قوم کو اپنا غلام بنانے کے لیے سازشیں شروع کردیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس ریاست نہیں تھی تو یہ وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے، مگر جب ان کے پاس ریاست آگئی تو ان کے حکمرانوںنے وقت کی ایک سپر پاور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ’’امریکہ مرکز‘‘ بنادیا، انہوں نے پاکستان کی معیشت کو امریکہ کے اقتصادی اور مالیاتی اداروں کے حوالے کردیا۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو امریکی مارکہ بنادیا۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی امریکہ کی نذر کردی۔ اب پاکستان میں مارشل لا آتا ہے تو امریکہ کے اشارے پر، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکہ کے کہنے پر، میاں نوازشریف سعودی عرب فرار ہوتے ہیں تو امریکی دبائو پر، بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز کے درمیان این آر او ہوتا ہے تو امریکہ کے سائے میں۔ کبھی جب ہم عملاً غلام تھے تو ذہنی طور پر آزاد تھے، اب ہم سیاسی طور پر آزاد ہیں مگر ذہنی طور پر امریکہ اور یورپ کے غلام ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ قوم کی مزاحمتی قوت سے استفادہ کرتا تو آج پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور باوقار ملک ہوتا۔

پاکستان کا قیام ’’عوامی جدوجہد‘‘ کا حاصل تھا۔ اس جدوجہد کی پشت پر نہ جرنیل کھڑے تھے، نہ کوئی فوج کھڑی تھی۔ مگر پاکستانی جرنیلوں نے صرف اقتدار پر ہی نہیں پورے معاشرے پر قبضہ کرلیا۔ اب نہ عوام کا ’’تصور‘‘ اہم ہے، نہ ان کے ’’ووٹوں‘‘ کی کوئی اہمیت ہے، نہ ان کی ’’رائے‘‘ کی کوئی وقعت ہے۔ اہمیت ہے تو جرنیلوں کی۔ وہی ’’قوم‘‘ ہیں، وہی ’’حکومت‘‘ ہیں، وہی ’’ریاست‘‘ ہیں، وہی ’’نظام‘‘ ہیں، وہی ملک کے ’’مالک‘‘ ہیں، وہی قوم کے ’’محافظ‘‘ ہیں، وہی ’’خارجہ پالیسی‘‘ چلاتے ہیں، وہی ’’داخلہ پالیسی‘‘ کا تعین کرتے ہیں، وہی بھٹو، نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان ایجاد کرتے ہیں، وہی ان کرداروں کو زیروزبر کرتے ہیں۔

اس طرح سے دیکھا جائے تو قوم ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف جرنیلوں کی غلام ہے۔ جنرل ایوب نے پہلا مارشل لا یہ کہہ کر لگایا تھا کہ ملک سیاسی طور عدم استحکام کا شکار ہے۔ مگر جب جنرل ایوب گئے تو ملک پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ جنرل ضیا الحق بھی سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تفریق کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئے تھے، مگر جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو قوم کی سیاسی حالت ابتر تھی۔ جنرل پرویزمشرف بھی ملک کو استحکام فراہم نہ کرسکے۔ جرنیلوں کی بالادستی اگر کوئی اچھی چیز ہوتی تو اس ملک پر چار جرنیلوں کی حکومت معجزہ کرچکی ہوتی۔ ملک میں سول حکومت ہوتی ہے تو بدقسمتی سے تب بھی جرنیل پردے کے پیچھے بیٹھ کر معاملات چلاتے رہتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے قوم کی خود اعتمادی کو نگل لیا ہے اور قوم کی قوتِ مزاحمت سلب ہوکر رہ گئی ہے۔

پاکستان جب وجود میں آیا تھا تو یہ بات قوم کے سیاسی عقیدے کا حصہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ مگر 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوگیا اور پاکستان آدھا رہ گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت نے دولخت کیا، لیکن یہ بات یا تو لاعلم لوگ کہتے ہیں یا مجرمانہ نفسیات کے حامل لوگ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے تو صرف اُن حالات سے فائدہ اٹھایا جو پاکستان کے حکمران طبقے نے تخلیق کیے تھے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے وہ حالات تخلیق نہ کیے ہوتے تو بھارت چاہ کر بھی پاکستان کو نہیں توڑ سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھی، مگر 1960ء تک پاکستان کی فوج میں ایک بھی بنگالی موجود نہ تھا۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوا اُس وقت بھی مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھی مگر فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف دس فیصد تھی۔ یہی صورتِ حال سول بیوروکریسی میں تھی۔

اس میں بنگالیوں کی موجودگی چار یا پانچ فیصد تھی۔ بنگالی اس ظلم اور اس جبر کو 24 سال تک جھیلتے رہے۔ 24 سال کے بعد بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ اصول کی رُو سے اقتدار شیخ مجیب کو مل جانا چاہیے تھا، مگر جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کیا نہ مغربی پاکستان کے عوامی ترجمان بھٹو نے شیخ مجیب کے حقِ حکمرانی کے آگے سر جھکایا۔ چنانچہ بنگالی مغربی پاکستان کے بدمعاش پنجابیوں، بدمعاش پٹھانوں، بدمعاش سندھیوں اور بدمعاش مہاجروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اب ہمارے پاس جو پاکستان ہے وہ قائداعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ نہیں ہے۔ یہ آدھا پاکستان ہے، بچا کھچا پاکستان ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو صرف یہی نقصان نہیں ہوا کہ پاکستان آدھا رہ گیا، بلکہ اُس روز یہ ذلت بھی امتِ مسلمہ کے مقدر میں لکھی گئی کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ہمارے جرنیل اور ہمارے فوجی اس ہولناک، شرم ناک اور کرب ناک ذلت کا حساب آج تک برابر نہیں کرسکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنی حماقت سے، اپنے ظلم اور ناانصافی سے آدھا پاکستان گنوا دیا، بلکہ ہم نے اس سانحے سے پیدا ہونے والے احساسِ زیاں کو بھی قومی شعور کا حصہ نہیں بننے دیا۔ بقول شاعر:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمارا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا۔ یہ کام کسی معجزے سے کم نہیں، اس لیے کہ جس ملک کے بارے میں یہ معروف ہو کہ وہ سوئی بھی نہیں بناتا، اس نے ایٹم بم بنا ڈالا۔ لیکن ہمارے ایٹم بم کی کہانی دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے، ایک ڈاکٹر عبدالقدیر اور دوسرے ذوالفقار علی بھٹو۔ جس طرح پاکستان کے بارے میں وثوق سے کہا جاتا ہے کہ اگر قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا، اسی طرح پاکستان کے ایٹم بم کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر نہ ہوتے تو پاکستان کا ایٹم بم بھی نہ ہوتا۔ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ جنرل ایوب کو ایٹم بم بنانے کا مشورہ دیا گیا تھا، مگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو آخر تک کہتے رہے کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بن بنائیں گے۔‘‘

پاکستان کے حکمران طبقے نے اگر تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیح بنایا ہوتا تو پاکستان آج یقیناً ایک بڑی صنعتی قوت ہوتا، مگر ہمارے حکمران طبقے نے ایک طویل عرصے تک کھیلوں کی سرپرستی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے کرکٹ میں عمران خان، جاوید میاں داد، ظہیر عباس، آصف اقبال، سرفراز نواز اور وسیم اکرم جیسے کھلاڑی پیدا کیے۔ ہاکی میں ہم 40 سال تک ’’عالمی طاقت‘‘ رہے ہیں۔ ہم نے ہاکی میں اصلاح الدین، شہناز شیخ، سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر، حسن سردار اور حنیف خان جیسے کھلاڑی دنیا کو دیے۔ اسکواش کے میدان میں ہم نے جہانگیر خان، قمر زمان اور جان شیر جیسے عظیم کھلاڑی پیدا کیے۔