ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کا شکار ہونے والے افراد صحت یابی کے دو سال بعد تک دماغی مسائل کا شکار رہ سکتے ہیں، ان میں مرگی کے دورے پڑنا بھی شامل ہے۔ حالیہ تحقیق سے قبل کی جانے والی متعدد تحقیقات میں بتایا جاچکا ہے کہ کورونا سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد تک لوگوں کو ذہنی و جسمانی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ کورونا سے صحت یابی کے باوجود سانس لینے میں مشکل پیش آنا یا ذہنی مسائل جیسی مختلف علامات کو ماہرین نے ’لانگ کووڈ‘ کی اصطلاح سے جوڑ رکھا ہے، اور اب معلوم ہوا ہے کہ بعض مریضوں میں صحت یابی کے دو سال بعد تک شدید ذہنی مسائل برقرار رہ سکتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اب تک بہترین اور بڑی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا سے صحت یابی کے دو سال بعد بھی لوگوں کو دماغی دھند یعنی چیزوں کو بھول جانے، کسی کام پر توجہ نہ دے پانے، کسی چیز کی اہمیت اور نوعیت کی حساسیت کو نہ سمجھ پانے سمیت مرگی کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا سے صحت یابی کے بعد ڈپریشن، الجھن یا پریشانی جیسے معاملات عام ہیں، مگر ایسے معاملات 6 ماہ بعد ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ تاہم ماہرین نے پایا کہ کورونا سے صحت یابی کے دو سال بعد تک یادداشت میں کمی، کسی بھی چیز یا کام پر توجہ نہ دے پانے، کسی چیز کی اہمیت اور نوعیت کی حساسیت کو نہ سمجھ پانے سمیت مرگی کے دورے پڑ سکتے ہیں۔تحقیق میں واضح کیا گیا کہ کورونا سے صحت یابی کے بعد مرگی کے دورے پڑنے کے امکانات کم عمر بچوں میں ہوتے ہیں، جب کہ یادداشت چلے جانے جیسے مسائل زائد العمر افراد میں ہو سکتے ہیں۔ساتھ ہی بتایا گیا کہ بالغ یا نابالغ افراد میں کورونا سے صحت یابی کے دو سال بعد تک متعدد دماغی اور بعض جسمانی مسائل برقرار رہ سکتے ہیں۔