چھوٹی بچی نے اپنے باپ میجر کمال سے کہا: ’’ابا جان! میں حساب میں بہت کمزور ہوں اور امتحان میں صرف تین مہینے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا آپ میرے لیے ریاضی کے کسی استاد کا انتظام کرسکتے ہیں؟‘‘۔
میجر کمال نے جواب دیا: ’’کیوں نہیں بیٹی! میں تمہارے لیے دمشق کے بہترین استاد کا انتظام کردوں گا‘‘۔
میجر کمال نے سوچا کہ بہترین استاد کا انتظام کیوں نہیں ہوسکے گا! کیا دنیا کو معلوم نہیں کہ میں حافظ الاسد کی سیکورٹی فوج کا افسر ہوں۔ استاد سر کے بل چل کر آئے گا، میرے پائوں چاٹے گا اور میری بچی کو ریاضی کی بہترین تعلیم دے گا۔
میجر کمال نے اپنے ماتحت کیپٹن نصیف کو بلایا اور حکم دیا کہ دمشق کے ریاضی کے تمام اساتذہ کی فہرست مع کوائف پیش کرے۔
میجر کمال نے چائے کے چند گھونٹ پیے تھے کہ کیپٹن نصیف نے اس کے سامنے دمشق کے ریاضی کے تمام اساتذہ کی پوری فہرست مع کوائف پیش کردی۔ میجر کمال نے اپنے کیپٹن کی طرف خوش ہوکر دیکھا۔ اتنی پھرتی صرف کمپیوٹر ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ میجر کمال کی نگاہیں فہرست میں درج تمام ناموں اور ان کے کوائف پر دوڑنے لگیں، ایک نام پر وہ ٹھٹک گئیں۔ یہ نام عبداللہ النجار کا تھا۔ کوائف میں اس کی صلاحیتوں کی تعریف کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ وہ ریاضی کا بہترین استاد ہے۔ اس نے کیپٹن نصیف کو حکم دیا کہ عبداللہ النجار کو کل صبح میرے روبرو پیش کیا جائے۔
کیپٹن نصیف سلیوٹ کرکے باہر چلا گیا۔ اسی اثنا میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میجر کمال نے ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف سیکورٹی فوج کا سربراہ رفعت الاسد (صدرِ شام حافظ الاسد کا چھوٹا بھائی) خود بول رہا تھا۔ اس کا حکم تھا کہ فوراً طرابلس (لبنان) پہنچو۔ رفعت کے حکم کی تعمیل میں ذرہ برابر لیت و لعل بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔ میجر کمال نے بہ عجلت تمام لبنان کی راہ لی۔
…………
ابھی پو نہیں پھٹی تھی کہ عبداللہ النجار کے مکان کو پانچ مسلح فوجیوں نے گھیرے میں لے لیا۔ تین فوجی صدر دروازے پر بندوقیں تان کر کھڑے ہوگئے اور دو نے دروازے پر دستک دی۔ دستک دینے والا کیپٹن نصیف تھا۔ عبداللہ اور اس کی بیوی جاگ اٹھے۔ اتنی سویرے دستک خیریت کی نہیں ہوسکتی۔ عبداللہ کی بیوی نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو دروازے پر کھڑے فوجیوں کو دیکھ کر دہشت زدہ رہ گئی۔ وہ خوف سے کانپنے لگی لیکن عبداللہ نے اسے دلاسا دیا اور کہا: ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں نہ نماز پڑھتا ہوں نہ روزے رکھتا ہوں۔ پھر تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ میں شراب کا عادی ہوں۔ اس لیے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ غالباً انہیں غلط فہمی ہوگئی ہوگی‘‘۔
عبداللہ نے بے خوفی سے دروازہ کھولا۔ جونہی وہ باہر نکلا فوجیوں نے اسے اس طرح دبوچ لیا جیسے شکاری کتا پرندے کو منہ میں دبا لیتا ہے۔ ایک نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور دوسرا اسے کشاں کشاں فوجی گاڑی کی طرف لے گیا۔ باقی تین فوجی بھی آگئے۔ انہوں نے عبداللہ کی مشکیں کسیں اور اپنے قیمتی شکار کو گاڑی میں ڈال کر فوجی ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوگئے۔ چونکہ میجر کمال موجود نہیں تھا اس لیے وہ عبداللہ کو فوجی جیل خانے لے گئے۔ عبداللہ کو گاڑی سے اتار کر ایک تنگ و تاریک کمرے میں دھکیل دیا اور اوپر سے آہنی دروازہ بند کردیا۔ عبداللہ نے چیخ کر کہا: ’’بھائی! آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ میں نہ نماز پڑھتا ہوں اور نہ روزے رکھتا ہوں اور شراب کا عادی بھی ہوں۔ مجھے آپ کس لیے پکڑ لائے؟‘‘
مگر انہوں نے ایک نہ سنی، گویا بہرے ہوں۔
دوسرے دن عبداللہ کی تفتیش شروع ہوگئی۔ اسے پہلے بھوکا اور پیاسا رکھا گیا، پھر اس پر کوڑے برسائے گئے۔ وہ چیخا تو اس کا جسم گرم سلاخوں سے داغ دیا گیا۔ عبداللہ نے فریاد آگیں لہجے میں کہا: ’’آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
جواب میں ایک طنزیہ قہقہے کے ساتھ کہا گیا: ’’اعترافِ حقیقت‘‘۔
عبداللہ نے پوچھا: ’’کس حقیقت کا اعتراف؟‘‘
جواب دیا گیا: ’’یہ کہ تمہارا تعلق اخوان سے ہے‘‘۔
عبداللہ نے کہا: ’’میں سچ کہتا ہوں کہ میرا اخوان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں تو مذہبی آدمی بھی نہیں ہوں۔ نہ نماز پڑھتا ہوں، نہ روزے رکھتا ہوں بلکہ شراب کا عادی ہوں‘‘۔
لیکن اس کی یہ صفائی قابلِ قبول نہ ہوئی اور عبداللہ پر تعذیب کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ عبداللہ نے کراہتے ہوئے کہا: ’’کیا آپ سچ بات کو بھی نہیں مانتے؟‘‘
ایک فوجی نے کرخت لہجے میں کہا: ’’ہمارے پاس ہر آنے والا یہی کہتا ہے لیکن جلد یا بدیر اسے اعترافِ حقیقت کرنا ہی پڑتا ہے‘‘۔
عبداللہ نے روتے ہوئے کہا: ’’بہت اچھا، میں اعتراف کرتا ہوں…‘‘
ایک فوجی ایک سفید کاغذ لے آیا اور کہا: ’’اس پر لکھو کہ میں فلاں ابن فلاں…فلاں سال سے اخوان سے منسلک ہوں۔ میں ان کی کارروائیوں میں فلاں فلاں موقع پر شریک رہا…‘‘
فوجی جو کچھ بولتا گیا عبداللہ نے من و عن لکھ دیا اور اس کے نیچے اپنے دستخط کردیئے۔ حالانکہ وہ نہ نماز پڑھتا تھا، نہ روزے رکھتا تھا اور شراب کا بھی رسیا تھا۔
عبداللہ نے اس تعذیب خانے میں بہت کچھ دیکھا لیکن ایک منظر ایسا تھا جس نے اسے جڑ سے ہلادیا۔ ایک چار سال کے بچے کو کھڑا کرکے اس کے باپ کو اس کے سامنے آگ میں ڈال دیا گیا۔ عبداللہ کا مدتوں کا مُردہ ضمیر پھر سے زندہ ہوگیا۔ اسے اپنے گناہ ایک ایک کرکے یاد آنے لگے اور اس کا سر احساسِ ندامت سے جھک گیا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اے میرے رب! میں اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور تیری طرف سچے دل سے رجوع کرتا ہوں۔ اے میرے رب! مجھے اس صدی کے سب سے بڑے
طاغوت حافظ الاسد سے پناہ دے‘‘۔
اس دعا کے ساتھ اس کی آنکھوں سے آنسو سیلِ رواں کی مانند جاری ہوگئے۔ اس نے وضو کیا اور اللہ کے روبرو دست بستہ کھڑا ہوگیا۔ جس نماز کو وہ مدت ہوئی ترک کرچکا تھا، اس کی زندگی میں یہ پہلی نماز تھی جس میں وہ خدا سے اپنا تعلق محسوس کررہا تھا۔
اسی شام اسے فوجی جیل کے صحن میں ایک ستون کے ساتھ باندھ کر اس پر باڑھ مار دی گئی۔ وہ کسی قصور کے بغیر مارا گیا تھا۔ پھر اس نے سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع کیا تھا۔ قرآن نے انہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مُردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں…‘‘
اور اس کی لاش ان ہزاروں لاشوں میں جاملی جو اس سے قبل ناحق قتل کیے جاچکے تھے۔
میجر کمال چار ماہ بعد طرابلس سے واپس آیا۔ وہ فلسطینیوں کو کچلنے کی مہم پر بھیجا گیا تھا۔ وہ جب گھر آیا تو اس کی چھوٹی بچی نے منہ بسورتے ہوئے کہا: ’’ابا جان! میں ریاضی میں فیل ہوگئی ہوں‘‘۔
میجر کمال نے حیرت اور غصے سے پوچھا: ’’کیا ریاضی کا استاد نہیں آیا تھا؟‘‘
بچی نے کہا: ’’کون ریاضی کا استاد؟‘‘
میجر کمال نے اسی وقت کیپٹن نصیف کو طلب کیا اور کڑک کر پوچھا: ’’کہاں ہے وہ ریاضی کا استاد جس کو میں نے حاضر کرنے کا حکم دیا تھا؟‘‘
کیپٹن نصیف نے میجر کمال کے سامنے دو کاغذ رکھ دیئے۔ میجر کمال نے پہلا کاغذ اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا:
’’عبداللہ النجار… استاد ریاضی۔ نہ نماز پڑھتا ہے، نہ روزے رکھتا ہے، شراب کا عادی ہے۔ اس نے سیاست میں بھی کبھی حصہ نہیں لیا۔ ریاضی کا ماہر ہے۔ کام سے کام رکھتا ہے اور حکومت کا وفادار ہے‘‘۔
دوسرے کاغذ پر لکھا ہوا تھا:
عبداللہ النجار… استاد ریاضی 25 فروری 1980ء کو گرفتار ہوا، اخوان سے اپنے تعلق کا اعتراف کیا۔ 28 فروری 1980ء کو تدمر جیل میں گولی مار دی گئی‘‘۔
میجر کمال بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا: ’’عبداللہ کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ ریاضی کا استاد تھا‘‘۔
(ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘)
مجلس اقبال
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نِگہ بے باک
اس شعر میں علامہ نے جدید تہذیب کی حقیقت سے آگاہ بھی کیا ہے اور اسے شدید طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے پیروکار اپنے آپ کو بہت روشن دماغ قرار دیتے ہیں، مگر پوری بات نہیں کرتے، یعنی ان کی سوچ کے بارے میں روشن ہونے کا دعویٰ تو کر ڈالتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان کے دل اتنے تاریک ہیں اور ان کی نظریں کس قدر بے شرمی اور بے حیائی سے بھرپور ہیں، یعنی دل کی دنیا تاریک تر اور نگاہیں بصارت سے محروم ہیں تو ایسی روشن دماغی انسان کے کس کام کی! علامہ کا مستقل فلسفہ ہے کہ جب تک انسان کے دل کی دنیا روشن نہ ہو اور اس کی نگاہیں بصارت و بصیرت سے مالا مال نہ ہوں، وہ حقیقی طور پر انسانیت کے مقامِ بلند سے محروم رہتا ہے۔