ہماری شہہ رگ اور ہم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہ رگ ریاست جموں و کشمیر، پون صدی سے دشمن کے غاصبانہ قبضہ میں ہے اور دشمن کے خونی پنجۂ استبدادکے سبب اس میں سے مسلسل لہو بہہ رہا ہے ظالم و جابر بھارتی حکمران اپنے ظالمانہ اقدامات کے ذریعے قدم بہ قدم اپنے غیر قانونی تسلط کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہیں جب کہ اس کے برعکس پاکستانی حکمران اپنی زندگی کی بقا کی ضمانت، اپنی شہ رگ کو دشمن سے آزاد کرانے کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے مسلسل پہلو تہی سے کام لے رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد بانیٔ پاکستان کی سرپرستی میں مجاہدین کشمیر کے ایک حصہ کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے اور قریب تھا کہ جموں و کشمیر کا پورا خطہ آزاد کرا لیا جاتا کہ اس وقت کے بھارتی حکمران معاملہ کو اقوام متحدہ میں لے گئے جہاں منظور کی جانے والی قرار دادوں کے ذریعے بھارت نے دنیا سے وعدہ کیا کہ خطے میں آباد لوگوں کو حق خودارادیت کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں، ان قرار دادوں کے نتیجے میں جب خطے میں جنگ بندی عمل میں آ گئی تو بھارت نے اپنا وعدہ پورا کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لینا اور مقبوضہ علاقے میں اپنا قبضہ مستحکم کرنا شروع کر دیا۔ بھارت کے اس رویہ سے تنگ آ کر اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی شاندار کامیابی سے حوصلہ پا کر اسّی کی دہائی کے اواخر میں کشمیری نوجوانوں نے ’’کشمیر بزور شمشیر‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں زبردست کامیابیوں سے بھی ہمکنار کیا تحریک حریت کشمیر کی قیادت خصوصاً سید علی گیلانی مرحوم و مغفور نے ان نوجوانوں کی بھر پور سرپرستی کی اور ان کے جذبہ جہاد و حریت کو زبردست مہمیز دی،پاکستان میں بھی جنرل ضیاء الحق شہید اور دینی سیاسی جماعتوں نے اس تحریک آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ یوں یہ جدوجہد کامیابی کی جانب گامزن تھی کہ بھارت اس صورت حال سے خوف زدہ ہو کر ایک بار پھر اپنے عالمی سرپرستوں کے پاس مدد کے لیے پہنچا، جنہوں نے پاکستانی حکمرانوں پر دبائو ڈالا، چنانچہ ’’جن پہ تکیہ تھا‘ وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ پاکستانی حکمرانوں خصوصاً فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے عالمی دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے بھارت کو جنگ بندی لائن پر باڑ لگانے کی اجازت دی گئی، جہاد آزادی کے بیس کیمپ، آزاد کشمیر سے مجاہدین کی کمک ممنوع قرار پائی اور اپنے وطن، پاکستان کی شہہ رگ، جموں و کشمیر کو آزاد کرانے کی جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو ’’دہشت گرد‘‘ ٹھہرا دیا گیا اور طرح طرح کی پابندیاں ان پر عائد کر دی گئیں۔ یوں پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کے ازلی دشمن کو پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ مستحکم کرنے میں ہر ممکن مدد فراہم کی…!!!
پاکستان کے برعکس بھارت کے حکمران، وہ جس بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، کشمیر پر اپنا غیر قانونی تسلط مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے سلسلے میں مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ بھارت کے ہر طرح کے ظلم و جبر اور پاکستانی حکمرانوں کی سرد مہری اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے باوجود کشمیر کے مسلمانوں کا جذبۂ حریت سرد نہیں ہوا، وہ بھارت کی غاصب فوج کے سامنے سینہ تان کر آج بھی آزادی کے نعرے بلند کرتے، 14 اگست کو ’جشن آزادی‘ اور 15 اگست کو ’’یوم سیاہ‘‘ منا کر پاکستان سے اپنی والہانہ وابستگی اور بھارت سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں، سید علی گیلانیؒ مرحوم، و مغفور کی بے مثال قیادت نے کشمیری نوجوانوں کو ہر طرح کے خوف سے بے نیاز کر دیا ہے اور وہ آج بھی اپنے مرحوم قائد کی آواز میں آواز ملا کر یہ نعرہ بلند کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ بھارتی حکمران بہرحال اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ، بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ تین برس قبل پانچ اگست کو انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35 ۔ اے میں من مانی ترامیم کر کے جموں و کشمیر کا خصوصی آئینی تشخص اور جداگانہ ریاست کی منفرد حیثیت ختم کر دی تھی، اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو انتظامی خطوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر کے کسی بھی غیر کشمیری بھارتی باشندے کو 75 برس میں پہلی بار یہ حق دے دیا تھا کہ وہ جو پندرہ برس سے ریاست میں مقیم ہو، یہاں کا ڈومیسائل بنوا سکتا ہے، یہاں جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتا ہے، یہاں کے کوٹہ پر سرکاری و غیر سرکاری ملازمت حاصل کر سکتا ہے اور انتخابات میں ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چیف الیکٹورل آفیسر جموں و کشمیر ہردیش کمار نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ چونکہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 غیر موثر ہو چکی ہے اس لیے اب جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں غیر مقامی لوگ بھی ووٹ ڈال سکیں گے، کوئی بھی شخص جو تعلیم، ملازمت، مزدوری یا سیکیورٹی کے مقاصد کے لیے جموں و کشمیر میں آئے، اسے ووٹ دینے کا حق ہو گا۔ اس مقصد کے لیے انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی بھی شروع کر دی گئی ہے اور ہردیش کمار کو توقع ہے کہ تقریباً 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید اعلان یہ بھی کیا کہ غیر کشمیری ووٹروں پر ڈومیسائل یا قیام کی مدت کی بھی اب کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ مقبوضہ ریاست میں 2011ء میں جو آخری مردم شماری کی گئی تھی اس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی لداخ سمیت کل آبادی سوا کروڑ تھی جس میں سے ستر لاکھ افراد وادی میں رہائش پذیر ہیں جب کہ ریاست کی کل آبادی کا تقریباً اڑتیس، انتیس فیصد غیر مسلموں پر مشتمل ہے، مسلمان اکثریت کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے پہلے ہی نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل میں جموں کی ہندو اکثریت کی نشستوں میں چھ کا اضافہ کیا جا چکا ہے ریاستی اسمبلی کی پہلے 83 نشستیں تھی جن میں سے جموں کی نشستوں کی تعداد 37 جب کہ وادی کی 46 تھیں نئی حلقہ بندی کے ذریعے جموں کی نشستیں بڑھ کر 43 جب کہ وادی کی 47 کر دی گئی ہیں اس طرح آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ہونے کے باوجود جموں کو وادی کے قریب تر تناسب میں لانے کی سوچی سمجھی سازش کی گئی ہے رہی سہی کسر اب 25 لاکھ غیر ریاستی ووٹروں کو انتخابی فہرستوں میں شامل کر کے پوری کر لی جائے گی، انتہا پسندی کی حد یہ ہے کہ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی فوجیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق عطا کر دیا ہے۔ یوں بھارت اپنے زیر تسلط کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور ریاست میں غیر موثر بنانے کے فارمولے کو نہایت تیز رفتاری سے حقیقت کا روپ دینے میں مصروف ہے جب کہ ہمارے مقتدر سیاسی رہنمائوں اور دستوری اداروں کو باہم سر پھٹول سے فرصت نہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں، مقدمہ بازیوں، گرفتاریوں اور باہم دگر باغی اور غدار قرار دینے میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنی لہو لہو شہہ رگ کو قطعی فراموش کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دشمن کی سہولت کاری کے علاوہ بھی ان سب کی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں…؟؟؟
(حامد ریاض ڈوگر)