انسان کے خسارے میں ہونے پر زمانے کی قسم

حضرت عبادہ بن صا مت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
” جو اللہ کو ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس کو ملنا چاہتا ہے جو اللہ کا ملنا برا جانے
اللہ بھی اس کے ملنے کو برا جانے“۔
(جامع ترمذی جلد اول باب الجنائز:1066)

’’زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ (العصر103: 1۔3)
اس سورت میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں: 1۔ ایمان، 2۔ عمل
ِ صالح، 3۔ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت، 4۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشادکا پورا مطلب واضح ہوجائے۔
جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اس سے پہلے بارہا ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اُس کی عظمت یا اُس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اُس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں۔
زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی، جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے۔ ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے، اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جاکر حال کو ماضی بنا رہی ہے۔ یہاں چونکہ مطلقاً زمانے کی قسم کھائی گئی ہے، اس لیے دونوں طرح کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اُس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچہ حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی مشغول رہتے ہیں، سب کچھ اس محدود مدتِ عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں سورۂ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار
میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اُس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، رحم کرو اُس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے۔ اس کی بات سن کر میں نے کہا: یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر کا مطلب۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے، یا غلط کاموں میں صرف کرڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے۔
پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورت میں کہی گئی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیزرفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہوکر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلتِ عمر کو صرف کررہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہوکر دنیا میں کام کریں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اُس طالب علم سے، جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کرکے کہیں یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کررہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے۔
(تفہیم القرآن، ششم، ص450-449، الطّور، حاشیہ1]