پچھلا کالم (’دُم دار تارا نکل آیا‘) پڑھ کر’’ARY نیوز‘‘ کے محترم شاہد اے خان صاحب نے پوچھا ہے: ’’کیا اردو میں پرتگیزی الفاظ برتنا ٹھیک ہے؟ عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ کے الفاظ برتنا کیسا ہے؟ سارا زور انگریزی کے رد میں کیوں ہے؟‘‘
اسی کالم کے حوالے سے لکی مروت، خیبر پختون خوا سے عزیزم محمد جبران سنان پوچھتے ہیں: ’’ریل کو اردو میں کیا کہیے؟ یہ تو نگوڑی انگریزی زبان کا لفظ ہوا‘‘۔ جب کہ ساجد احمد صاحب نے کراچی میں کالم پڑھ کریہ استفسار فرمایا ہے کہ’’ڈاکٹر کا ترجمہ غالباً طبیب ہوگا؟‘‘
ان تمام حضرات کی توجہ کا ترتیب وار شکریہ۔ پہلی بات یہ کہ زبان کی حیثیت سے ہم انگریزی کو رد کرتے ہیں نہ اس سے کد رکھتے ہیں۔ ہمارا ذرا بھی زور انگریزی کے رد پر نہیں۔ زور اس خبط کو ’مردود‘ کرنے پر ہے کہ اردو فقروں میں محض نِت نئے انگریزی الفاظ ہی استعمال کیے جائیں اور ایسے تمام مانوس الفاظ رد کردیے جائیں جو ہمیشہ سے اُردو محاوروں میں استعمال ہوتے رہے ہیں (’مردود‘ کا مطلب ہے رد کیا ہوا، دھتکارا ہوا)بس ذرا اِس ’مردود‘ جملے کو پڑھ لیجے:
’’اُردو میں پورچوگِیز، عربِک، پَرشین اور ٹرکش ورڈز یوز کرنا کیسا ہے؟ سارا ایمفسز انگلش کو ریجیکٹ کرنے پر کیوں ہے؟‘‘
دوسری بات یہ کہ پُرتگالی زبان سے بھی اُردو نے کئی الفاظ لیے ہیں، مثلاً یہی دیکھ لیجے کہ ہم اُن کی ’بالٹی‘ اُٹھا لائے۔
تیسری بات یہ کہ اُردو نے انگریزی زبان سے بھی کثیر تعداد میں الفاظ قبول کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ الفاظ کی ’تارید‘ کرلی گئی ہے، یعنی اُن کو اُردو کا پاجامہ پہنا کر اُن کا تلفظ ’’اُردوا‘‘ لیا گیا ہے۔ جیسے بوریت، بربریت، لالٹین، ماچس، نلکا، ٹنکی، گراری، بوتل، پلاس، واسکٹ، بشرٹ اور پتلون وغیرہ۔ اسی طرح ہر عیسوی مہینے کی بھی ’تارید‘ کرلی گئی ہے، سوائے مارچ، جون اور جولائی کے، جن کا اصل تلفظ اُردو کے مزاج سے متصل ہی تھا۔ اصل تلفظ کے ساتھ تو بڑی بھاری تعداد میں انگریزی الفاظ قبول کیے گئے ہیں۔ ایسے الفاظ کا شمار بھی شاید آسان نہیں۔ بٹن، پائپ، پینسل، ٹکٹ، بیٹری، سیل، ریڈیو، جج، فون، پمپ، موٹر، مشین، انجن اور کار وغیرہ۔ جن الفاظ کو قبول کرلیا گیا ہے وہ اب اردو ہی کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی جمع اُردو کے قاعدے کے مطابق بنائی جاتی ہے۔ مثلاً صاف پانی کی فراہمی کے ایک منصوبے کی رُوداد ملاحظہ ہو: ’’ لوگ کاروں میں سوار ہوکر یہاں آتے ہیں اور اِن نلوں سے اپنی اپنی بوتلوں میں پانی بھر کر لے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری افسروں اور بڑے بڑے ججوں کو بھی یہاں عوام کے آگے پانی بھرتے دیکھا گیا ہے۔ زمین دوز ذخیرے کے پاس کئی موٹریں لگی ہوئی ہیں۔ جب نلوں میں پانی آنا کم ہوجاتا ہے تو ان موٹروں کی مدد سے اوپر کی ٹنکیوں میں مزید پانی چڑھا دیا جاتا ہے‘‘۔
قبول کیے جانے والے انگریزی الفاظ سے اُردو تراکیب بھی بنالی گئی ہیں۔ مثلاً ماہِ اگست، سلائی مشین، ریڈیو پاکستان اور گراری دان (Gear Box)وغیرہ۔ ’ریل‘ کا لفظ بھی انھیں الفاظ میںشامل ہے جنھیں قبول کرلیا گیا ہے۔ چناں چہ ریل گاڑی، ریل کی پٹری، ریل کا ڈبا اور ریل کا پھاٹک جیسی تراکیب اُردو میں عام ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحبان کو بھی اُردو نے قبول کرلیا ہے۔ ’ڈاکٹروں‘ کو اُردو کا شکرگزار ہونا چاہیے، ورنہ وہ ہمیشہ ’ڈاکٹرز‘ ہی کہے جاتے۔ اردونے تو ’ڈاکٹری نسخوں‘ سے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ کسی کے سینے میں درد اُٹھتا ہے تو سیدھا ’دل کے ڈاکٹر‘ کے پاس جاتا ہے۔ ہمارے محلے کی ایک مائی صاحبہ محلے کے ماڈرن ڈاکٹر کو بھی ’حکیم جی‘ کہا کرتی تھیں۔ حکمت سے عاری ڈاکٹر نے چڑ کر اُنھیں حکم دیا کہ اماں جی! ’ڈاکٹر صاحب‘ بولا کرو۔ اب اماں جی اُنھیں ’ڈاگ ساب!‘ بولاکرتی ہیں، جس پر وہ دانت نکال کر فقط غراتے رہ جاتے ہیں۔ ’کالی بھیڑیں‘ بھلا کس پیشے میں نہیں پائی جاتیں؟ مگر اس پیشے میں سیاہ رنگ کی وہی مخلوق گھس آئی ہے جس کابوڑھی مائی نے ذکر فرمایا۔ ایسے ظالم لوگ، مریض ہی کو نہیں، اُس کے پس ماندگان کی جیب بھی چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کے سادہ و پُرکار لوگ اس مخلوق کو ’ڈاگڈار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جس کا تلفظ ’داغ دار‘ سے بہت قریب ہے۔
ساجد صاحب نے ڈاکٹر کے لیے طبیب کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ طبیب کا لفظ، ظاہر ہے کہ لفظ ’طب‘ سے اسمِ فاعل بنا ہے۔ ’طب‘ کے لغوی معنی ہیں کسی کام میں مہارت۔ مگر اب اصطلاحاً جسمانی امراض کے علاج میں مہارت کا علم ’طب‘ کہلاتا ہے۔ اس علم کے ماہر کو طبیب کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’اطبا‘ ہے۔ طبیب جہاں ڈیرا ڈالتا ہے وہ جگہ ’مطب‘ کہلاتی ہے۔ ’طبی امداد‘ کی ترکیب ہمارے ہاں عام ہے۔ ’طبی سہولتیں‘ بھی اگرچہ کم کم مگر فراہم کی جاتی ہیں، مگر یہ اصطلاح عام ہے۔ شفاخانوں میں ’طبی عملے‘ کے ساتھ ساتھ ’غیر طبی عملہ‘ بھی سرگرمِ عمل رہتا ہے۔ جانے کیوں؟ اور نہ جانے کن کن غیر طبی سرگرمیوں میں؟
طبیب کے علاوہ اُردو میں ’معالج‘ کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ ’علاج کرنے والا‘۔ جڑی بوٹیوں سے علاج کا علم مسلمانوں نے اہلِ یونان سے سیکھا۔ ہماری قوم کی احسان شناسی اور دیانت دیکھیے کہ مسلمان اس طب کو آج بھی ’طبِ یونانی‘کہتے ہیں۔ جب کہ تحقیق و تجربات کے ذریعے سے اس علم کو صحیح معنوں میں مسلمانوں ہی نے بامِ عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ طریقۂ علاج ہمارے ہاں آج بھی مقبول ہے۔ حکیم صاحبان ہر مریض کو بلا امتیاز کسی ’ڈسپرین‘ کی لاٹھی سے ہانک کر بھگا نہیں دیتے۔ مریض کے انفرادی مزاج کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ہی مرض کے مختلف مریضوں کے لیے اُن کے انفرادی مزاج کے مطابق مختلف دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ یہ حاذق حکیموں کا ذکر ہورہا ہے۔ اتائیوں کا نہیں۔ نباتی دوائیں دھیرے دھیرے اثر کرتی ہیں اور کوئی نیا مرض پیدا کیے بغیر پرانے سے پرانے امراض کا خاتمہ کردیتی ہیں۔ رفتہ رفتہ مریض کی زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ امراضِ قلب، فشارِ خون یا ذیابیطس کے ہر قسم کے مریضوں کو یکساں دوائیں لکھ کر دے دی جائیں اور ہر دوا سے پیدا ہونے والے متوقع ضمنی امراض کے لیے مزید دوائیں لکھ دی جائیں۔ مریض کے شکم کو دوا فروش کی دُکان بنادیا جائے،پھر کہہ دیا جائے کہ اب یہ دوائیں تم کو تمام عمر لینی ہیں۔ دوائیں لیتے رہو گے تو جیتے رہو گے۔ دوائیں لینا چھوڑ دو گے تو ترنت دیہانت ہوجائے گا۔ اے ڈاکٹرو! یہ ’علاج‘ تو نہ ہوا۔
پچھلے کالم میں ہم نے ملاواحدی مرحوم کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کیا تھا، جس میں ایک ’مہترانی‘ کا ذکر آیا تھا۔ حیدر آباد (سندھ) سے جناب شوکت مجاہد شکوہ کناں ہیں کہ ’’دُم دار تارا نکل آیا، ماشاء اللہ، بہت ہی عمدہ۔ مگر یہ مہتر اور مہترانی کون ہیں؟ یہ کون بتائے گا؟ میں نے اکثر طلبہ اور کچھ پڑھے لکھے دوستوں سے بھی پوچھا مگر پتا نہیں چلا۔ حیرانی سے دیکھتے رہے‘‘۔
صاحب ! اُن سے ’سوئیپرانی‘ پوچھتے تو شاید ہنس کراور خندہ پیشانی سے بتا دیتے، حیرانی سے نہ دیکھتے۔ مسلمانوں نے محنت سے کمانے والے اس طبقے کو ہمیشہ احترام کے القاب سے یاد کیا: مہتر، جمع دار اور حلال خور وغیرہ۔ مہتر اور جمعدار دونوں کا مطلب سردار ہے۔ ریاست چترال کے نوابین کا لقب بھی’ مہتر‘ ہوا کرتا تھا۔ حلال خور کا مطلب حلال کمائی کھانے والا۔ انسانوں کو ذات پات میں بانٹنے والے معاشرے میں انھیں ’چُوڑے چمار‘ کہا گیا۔ بنگال میں، غالباً بدبو کے احساس سے بچنے اور بے خود و بے خبر ہوجانے کے لیے اس طبقے نے بھنگ کا نشہ کرنا شروع کردیا۔ اس وجہ سے وہاں ’بھنگی‘ کہے گئے اور یہ اصطلاح وبا کی طرح پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ ہمارے ہاں تو ہلکی سے ہلکی اصطلاح بھی ’خاک رُوب‘ ہے۔ جوشؔ صاحب نے بھی اپنے ایک شعر میں بڑے احترام سے مہترانی کا ذکر فرمایا ہے:
مہترانی ہو کہ رانی گنگنائے گی ضرور
کچھ بھی ہو جائے جوانی گنگنائے گی ضرور