عرصے بعد کوئی کشمیر نمبر نظر آیا ہے۔ اللہ پاک بزم ارقم راولاکوٹ کی اس سعی کو قبول فرمائے!
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر ’’ارقم: کشمیر شناسی کی روایت کا تسلسل‘‘ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں:
’’ارقم کا چھٹا شمارہ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔ یہ سفر 2007ء سے شروع ہوا اور کسی نہ کسی طرح اب تک جاری ہے۔ 2016ء کے بعد حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ایک نہیں، دو نہیں، پورے پانچ سال بیت گئے کہ پرچے کی اشاعت میں تسلسل برقرار نہ رکھا جاسکا۔ اس دوران میں کئی منصوبے بنے، آنکھوں میں نئے نئے خواب بھی روشن ہوئے، لیکن آنکھوں ہی کے سامنے وہ فضائوں میں تحلیل ہوتے گئے۔
یہ معرکۂ بیم و رجا جاری تھا کہ اہلِ کشمیر پر 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے قیامت سے پہلے ایک اور قیامت برپا کردی، بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور دفعہ 35۔اے کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس طرح وہ ریاست، جس کی بحالی اور تشخص کی جنگ گزشتہ 72 برسوں سے جاری تھی، اس جدوجہد پر ایک اور کاری وار کردیا گیا۔ حفیظ جالندھری نے المیوں سے بھری تاریخِ کشمیر کو منظوم کیا تھا:
زندگانی ہے یہاں مرگِ دوامی کے لیے
مائیں جَنتی ہیں یہاں بچے غلامی کے لیے
مغلوں نے کشمیر کو اپنی قلم رو میں شامل کرکے 167 برس حکومت کی۔ مغلوں کے بعد افغانوں، سکھوں اور پھر ڈوگروں کے عہدِ ناروا میں کشمیری مائوں کے بطن سے پیدا ہونے والے ’’چرب دست اور تر دماغ‘‘ بچے سنِ شعور کو پہنچ کر مالکِ ارض و سما سے فریاد کناں رہے:
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
کشمیریوں کی اس پوری سرگشت کو تین لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: خون، پسینہ اور آنسو۔
کشمیریوں کا خون سکھوں، افغانوں اور ڈوگروں کے عہد میں جس بے دردی سے بہایا گیا، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان نے ان ستم گروں کو بھی کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ظلم ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے، مٹنے کا نام نہیں لیتا، اور خونِ ناحق ہے، جو گزشتہ 74 برسوں سے کشمیر کے سبزہ زاروں کو سیراب کررہا ہے۔
کشمیریوں نے اپنی تاریخ کے معلوم عہد سے ہنرمندی، اور جسمانی مشقت سے پیپر ماشی، شال بانی، پچی کاری اور دیگر صنعتوں کے فروغ کے لیے اپنا پسینہ پانی کی طرح بہایا، لیکن اقبال نے بچشمِ سر کشمیریوں کی حالت ِزار دیکھ کر فرمایا تھا:
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامہ تار تارے
(ریشمی قبا پہنے خواجہ اس کی محنت سے، لیکن اس محنتی کے تن کے لیے جامۂ تار تار ہے)
تاریخ کے گرداب میں پھنسی ہوئی کشمیری قوم کے اجتماعی ضمیر نے غلامی اور محکومی کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، اور ان کا جذبۂ آزادی اپنی خاکِ ارجمند پر کبھی چنگاری اور کبھی شعلۂ جوالہ بن کر اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا۔ 1832ء میں زندہ کھالیں کھنچوانے کا مرحلہ ہو، ریشم خانہ کے مزدوروں کی تحریک ہو، یا 13 جولائی 1931ء کو سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے ڈوگروں کی شخصی حکومت کے خلاف ہزاروں کشمیریوں کا احتجاج اور شہادتیں… وہ سب تحریکِ آزادیِ کشمیر کے جلی عنوانات ہیں۔
آزادی کے اس سفر میں یہ تحریک کئی حوادث کا شکار ہوئی۔ 15 اگست 1947ء تقسیم ہندوستان کے مرحلے پر اپنوں اور غیروں کی ملی بھگت کے نتیجے میں، منزلِ آزادی جو نوشتۂ دیوار تھی، پھر تاریخ کے گرداب کی نذر ہوگئی۔ وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک جان لیوا حادثہ تھا۔ لیکن 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے اپنے زیرانتظام ریاست کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کرکے گویا اس حادثے کو سانحے میں بدل دیا ہے، اور ریاست کے وجود اور تشخص کو ختم کرنے کی سعیِ مذموم کی ہے۔
جموں و کشمیر کثیر اللسانی جغرافیائی اکائیوں پر مشتمل ایک ریاست ہے، جس میں تہذیبی و ثقافتی بوقلمونیوں کے علاوہ مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے اپنوں اور غیروں کے مظالم سہتے ہوئے پامال ہوکر پھر ابھرتے بھی رہے۔ جموں و کشمیر کی یہ ریاست عمومی طور پر ’’کشیر‘‘ یا ’’کشمیر‘‘ کے عبرانی لفظ سے جانی جاتی ہے اور یہاں کے لوگ اپنے آپ کو ’’کوشر‘‘ یا ’’کاشر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صدیاں بیت گئیں کشمیر کی سرزمین پر ابھرنے والی Legend للیشوری للّہ عارفہ نے اپنے اہلِ وطن کے دائمی کردار کو منظوم کرتے ہوئے کہا تھا: (ترجمہ)
(ہم تھے اور ہم رہیں گے، سورج نکلتا اور ڈوبتا رہے گا۔ ہم زمانے پر چھاتے رہیں گے۔)
للّہ عارفہ کے یہ بصیرت افروز اشعار کشمیریوں کی صدیوں پر پھیلی تاریخ کی حقیقی تصویر کے آئینہ دار ہیں۔
ارقم کا یہ ’’کشمیر نمبر‘‘ اصل کشمیر، اس کی تہذیب و ثقافت، تاریخ اور جغرافیے کی بازیافت کی ایک سعی ہے۔ کھوئے ہوئوں کی یہ جستجو ماضی پرستی نہیں ہے، بلکہ اپنے قد پر عزت اور وقار کے ساتھ کھڑا ہونے کی جانب ایک قدم ہے۔ اگر لمحۂ موجود کے جبر کے باعث ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو یہ نہ بتایا کہ ہم کون تھے؟ کیا تھے؟ اور ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟ تو پھر جو کچھ آج ہمارے پاس ہے شاید اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے۔ کشمیر کی نژادِ نو کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا وطن:
خوش نما سبزہ زاروں، برف پوش کہساروں، شاداب وادیوں، وسیع چراگاہوں، گھنے جنگلوں اور گلریز مرغزاروں کا وطن ہے۔ یہ زعفران زاروں، پھل دار درختوں، سفیدوں، بیدوں اور چناروں کا وطن ہے۔ یہ جھیلوں، آبشاروں، ندی نالوں اور بہتے چشموں کا وطن ہے۔ یہ گل عذاروں اور مہ پاروں کا مسکن ہے۔ یہ صحت بخش آب و ہوا اور ست رنگے موسموں کا وطن ہے۔ یہ عابدوں، زاہدوں اور دین داروں کا وطن ہے۔ یہ ’’نجیب و چرب دست اور تر دماغ‘‘ لوگوں کا وطن ہے۔ یہ تر دماغ صدیوں پر پھیلی غلامی کے باوجود کشمیر شناسی اور کشمیر نوازی کی تحریک کو جِلا بخشتے رہے ہیں۔ ارقم کی زیر نظر اشاعتِ خاص بھی کشمیر شناسی کی روایت کا تسلسل ہے۔ اس خاص شمارے میں کشمیر شناسی اور کشمیر نوازی کے کچھ ایسے گوشوں کو بھی منظرعام پر لایا گیا ہے، جو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھے۔
رومیِ کشمیر میاں محمد بخش کا سفرِ کشمیر اور ان کے نادر خطوط، قائداعظم محمد علی جناح کے مشاہیر کشمیر اور مشاہیر کشمیر کے قائداعظم کے نام خطوط، امین چند کا سفرنامۂ کشمیر، مولانا غلام رسول مہر کا سفرنامہ (سیر کشمیر) جسیے موضوعات پہلی بار ارقم کی وساطت سے قارئین تک پہنچ رہے ہیں۔ امید ہے کشمیریوں کی ’’وصل سے فصل‘‘ تک کی رودادِ خوں چکاں کی یہ چند جھلکیاں قارئین کو پسند آئیں گی‘‘۔
ڈاکٹر فیاض نقی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بالکل واضح ہے کہ دنیا کا منظرنامہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق تبدیل کیا جارہا ہے۔ چند بڑوں کی خوشی کی خاطر مخلوقِ خدا کی خواہشوں اور خوابوں کا خون ہورہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان کے انٹرنیٹ، میڈیا اور میڈیسن کے کاروبار تو پہلے سے زیادہ اچھے چل رہے ہیں، مگر ہمارے ہر رنگ، ریت، روایت اور عبادت کی بساط کیوں لپیٹی جارہی ہے! سچ دشمنوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے اور حقیقت مخبروں اور منافقوں میں گھِر چکی ہے۔ الم یہ کہ سب آنکھیں محض تماشائی ہیں۔ کوئی ہاتھ بلند نہیں ہوتا کہ مزاحمت کرے، اور نہ کوئی آواز کہ وقت کے فراعنوں کے سامنے کلمۂ حق کہے۔ رات پورے جوبن پہ ہے۔ سچ اور حق کے سبھی معاہدے منسوخ کیے جارہے ہیں۔ انسانوں کی اکثریت رات کی اندھی مخلوق بنی، حلال و حرام کی تمیز ختم کیے اپنے شکم کی آگ بجھانے میں مصروف ہے، اور یہ وہ آگ ہے جو جس قدر بجھتی ہے اسی قدر بھڑکتی جاتی ہے۔ سو ہر طرف گھپ اندھیرے کا راج ہے۔
ایسے عالم میں عالمی استعمار سے مل کر بھارت نے کشمیر میں جو کھیل کھیلا ہے، وہ کورونا کے موسم میں خوب پنپ رہا ہے۔ اب کی بار بھارت نے جنتِ ارضی کے تشخص کو ہی ختم کرنے اور اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے کی سازش تیار کی ہے۔ قانون سازی سے لے کر ظلم کے نئے حربوں کا استعمال جاری ہے۔ کشمیر کے گھر، دریچے، منڈیر، بازار، راستوں اور گلی کوچوں کا حسن پامال… پہاڑوں، دریائوں، آبشاروں، باغوں، وادیوں اور شہروں کو لہو رنگ… اور اس کے مکینوں کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ ایسے میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کی سب سے بلند اور توانا آواز… غلامی، ظلم اور جبر کے خلاف برسرپیکار… عزم و ہمت کے ہمالیہ سید علی گیلانی بھی دنیا سے کوچ کرگئے۔ انہوں نے مشکل حالات میں شمعِ آزادی کو فروزاں رکھا، مقامی اور بین الاقوامی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، حق و سچ اور حریتِ فکر و عمل کا پھریرا سربلند رکھا۔ ان کے جانے سے دل دکھی ہیں۔ نعیم صدیقی نے کہا تھا:
گلوں کے سینے ہیں زخمی، کہیں نہ دکھ جائیں
کہو صبا سے دامن بچا بچا کے چلے
سحر کی پہلی کرن کے ظہور کرنے تک
تمام رات اندھیروں سے جان لڑا کے چلے
سید علی گیلانی کی زندگی کے کئی پہلو ہیں، جن پر لکھنا واجب ہے اور اِن شاء اللہ ان کی حیات اور خدمات پر ارقم کا خصوصی شمارہ ترتیب دیا جائے گا۔
موجودہ شمارے میں کشمیر کے افق پر ٹوٹنے والی تازہ افتاد اور اس کے گئے دنوں کا سراغ لے کر حاضر ہیں۔ ارقم کا یہ ’’کشمیر نمبر‘‘ کشمیر کی سب اکائیوں اور رنگوں کو یکجا پیش کرکے، اس کی تاریخ اور جغرافیے کو دھندلانے کی کوششوں کے خلاف جاری جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرنے کی سعی ہے۔ ہمیں کل کے سورج کی طرح یقین ہے کہ سید علی گیلانی کی جدوجہد ثمر بار ہوگی۔ لاکھوں شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا، کشمیر آزاد ہوگا، اپنے پورے وجود اور سارے رنگوں سمیت… اور ہم ارقم کے ذریعے ان باسعادت لمحوں کے لیے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے منزلوں کی نوید سناتے رہیں گے۔ ارقم کا اگلا شمارہ بھی ’’کشمیر نمبر‘‘ ہوگا، جس میں کشمیر میں علم و ادب، تحقیق و تنقید اور تاریخ و سیاست کے کئی اور رنگ تلاشیں گے۔ صاحبانِ علم و دانش کی مستقبل کے امکانات تراشتی علمی، ادبی اور تحقیقی کاوشوں، مضامین و مقالات کا انتظار رہے گا۔
اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی رات ڈھلنی تو ہے رت بدلنی تو ہے
خیمہ خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رت بدلنی تو ہے
جاتے جاتے یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صدی جو بیت رہی ہے، اس صدی نے امکانات اور انکشافات کے جو در کھولے ہیں وہ رکنے والے نہیں ہیں، مگر اہلِ علم، اہلِ فکر و دانش، محققین اور نقادوں پر لازم ہے کہ وہ لکھیں، کہ یہ جو دنیا کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خالقِ کائنات اور مابعد الطبیعاتی حقیقتوں سے دور کرکے ایک بے سمتی اور بے توقیری کا شکار کیا جارہا ہے، اس کا کیا کرنا ہے۔ انسانوں کے لیے دنیوی اور ابدی کامرانی کے سارے راستے صراطِ مستقیم کی منزلوں کی جانب سفر سے جڑے ہیں۔ اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی منہ زور معلومات سے حیران، پریشان اور سوالیہ نشان تو بنایا جاسکتا ہے، اسے کنفیوز تو کیا جاسکتا ہے، مگر زیادہ دیر حق و سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ حق و باطل، سچ و جھوٹ اور نیکی و بدی کی موجودگی میں بدی کی صفیں بالکل واضح ہیں۔ کون بدبخت ہوگا جو حق کے ہوتے ہوئے باطل، سچ کو چھوڑ کر جھوٹ، اور نیکی کی موجودگی میں بدی کی صفوں کا انتخاب کرے گا! اور معرکۂ حق و باطل میں غیر جانب داری جرمِ عظیم ہے۔ وقت کے شاعر و ادیب سے وقت کا تقاضا ہے کہ
یہ قصہ حاصلِ جاں ہے اسی میں رنگ بھریں
لہو کی لہر کے لہجے میں اپنی بات کریں‘‘
مجلہ سات حصوں میں منقسم ہے، ہر حصے میں گراں قدر معلومات کے حامل مقالات اور مضامین شامل کیے گئے ہیں، ہر حصہ ایک عنوان کے تحت ہے یعنی تاریخ، تحریک، زبان و ادب، سیاحت، ثقافت، مکاتیب، کتاب شناسی۔ ہر حصے میں جو مقالات و مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
تاریخ: ’’کشمیر مسلمانوں کے عہد میں‘‘ محمد علم الدین سالک، ’’کشمیر کی سچی کہانی‘‘ پنڈت پریم ناتھ بزاز، ’’ڈوگرہ برادران کا ایک امریکی مشیر‘‘ مسعود احمد خان، ’’کشمیر: ایرانِ صغیر‘‘ ڈاکٹر خواجہ زاہد عزیز، ’’الحاقِ کشمیر‘‘ ڈاکٹر ممتاز احمد، ’’شمالی علاقہ جات: تاریخ‘‘ سردار اعجاز افضل خان
تحریک:’’تنازع جموں و کشمیر 1947ء۔ 1990ء‘‘ ارشاد محمود، ’’تحریکِ مزاحمت کا سنگِ بنیاد…!‘‘ محمد مقبول ساحل، ’’تحریکِ مزاحمت کے تیس سال‘‘ سردار عاشق حسین، ’’جموں و کشمیر: پانچ اگست کے بعد‘‘ دانش ارشاد، ’’سید علی گیلانی، پاکستان اور اقبال‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’سید علی گیلانی: جدوجہد آزادی کا عنوان‘‘ ڈاکٹر فیاض نقی
زبان و ادب:’’پونچھ میں اردو۔ ایک جائزہ‘‘ خوش دیومینی، ’’کشمیر: اردو کے افسانوی ادب کے آئینے میں‘‘ ڈاکٹر قاسم بن حسن، ’’کشمیر میں اردو زبان و ادب‘‘ ڈاکٹر فیاض نقی، ’’کشمیر میں اسلامی ادب کا ارتقا‘‘ ڈاکٹر محمد طیب خان، ’’گلگت بلتستان میں اردو زبان و ادب‘‘ امجد علی سدوزئی، ’’ٹیگور اور کشمیر‘‘ منظوردایک، ’’اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘ اعجاز نقی، ’’وادیِ نیلم کی ایک دم توڑتی بولی‘‘ مفتی اقبال اختر نعیمی، ’’جموں و کشمیر کی علاقائی زبانیں: مختصر تعارف‘‘ محمد سعید ارشد، ’’کشمیری لوک ادب کا خاکہ‘‘ اعجاز نقی
سیاحت:’’میاں محمد بخش کا سفرِ کشمیر اور شیخ احمد تارہ بلی‘‘ حسن نواز شاہ، ’’منشی امین چند کی سیاحتِ کشمیر‘‘ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ’’سفرنامہ: سیر کشمیر از مولانا غلام رسول مہر‘‘ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ’’کشمیر میں اردو سفرنامہ نگاری: اجمالی جائزہ‘‘ سمیرا ایاز، ’’کشمیر کے سیاحتی و تاریخی مقامات‘‘ جویریہ ظفر، ’’وادی نیلم‘‘ احمد وقار۔ (باقی صفحہ 33پر)
ثقافت:’’کشمیر میں دعوت پھولوں کی‘‘ محمد عبداللہ قریشی، ’’کشمیر کا جو ذکر کیا: چند بھولی بسری، پریشاں یادیں‘‘ عرشی امرتسری، ’’مزار الشعرائے کشمیر‘‘ محمد عبداللہ قریشی، ’’کشمیر کے کہستان‘‘ عطا محمد میر
مکاتیب: ’’میاں محمد بخش کے چند نو دریافت خطوط‘‘ حسن نواز شاہ، ’’خطوطِ قائداعظم بہ نام مشاہیر کشمیر‘‘ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ’’ڈاکٹر صابر آفاقی کے چند مکتوبات‘‘ ڈاکٹر سفیر اختر، ’’ڈاکٹر ممتاز احمد بہ نام‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
کتاب شناسی: ’’مجلہ شیرازہ (اردو) ایک تعارف‘‘ محمد سعید ارشد، تبصرۂ کتب
موجودہ دور کاغذ کی عدم دستیابی کا ہے، مہنگائی نے سب کی کمر توڑ رکھی ہے۔ بزم ارقم راولاکوٹ آزاد کشمیر نے یہ کشمیر نمبر دائرہ علم و ادب پاکستان کے تعاون سے شائع کردیا ہے۔ بزم کا سب کو شکر گزار ہونا چاہیے۔