آدھے سر کا درد

یہ درد ِ شقیقہ آدھا سیسی درد اور انگریزی میں میگرائن (MIGRAINE)کہلاتا ہے۔ کتنے پاکستانی اس درد کے شکار ہیں؟ یہ بتانا تو ممکن نہیں، لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ پورے ملک میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ امریکی جرائد کے مطابق 28 ملین سے زیادہ امریکی اس کے مریض ہیں جن میں خواتین کی اکثریت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق13 فیصد امریکی اس درد کے ہاتھون پریشان رہتے ہیں۔
جس طرح آدھے سر کے درد کی شافی دوا ابھی تک پردے میں ہے، اسی طرح اس کے اسباب بھی پوری طرح ظاہر اور طے نہیں ہوسکے ہیں۔ مشی گن امریکہ کے دردِ سر اور اعصابی امراض کے ادارے کے ڈاکٹر ڈیوڈ ایم۔ بی اونڈی کے مطابق اس انتہائی تکلیف دہ درد کے آثار اور اندازے کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے۔ اتنی بات ہمارے علم میں ضرور ہے کہ دردِ شقیقہ (میگرائن)کے دوران دماغ کے اشارے یا پیغام کے جواب میں عصب ثلثی(TRIGEMINAL NERVE) سرگرم ہوجاتا ہے۔ عصب ثلثی کے سرے عصبی خمیر (NERO PERTIDES) خارج کرنے لگتے ہیں جو دراصل ورم پیدا کرنے والے کیمیکل ہوتے ہیں جن سے خون کی رگیں پھیل کر اعصاب میں ہیجان پیدا کرکے درد کا وہ سلسلہ شروع کردیتی ہیں جو کئی گھنٹوں تک بلکہ بعض صورتوں میں کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔
اس دوران دماغ کی برقی سرگرمی سے چکر، غنودگی، توجہ مرکوز کرنے سے معذوری اور تھکن وغیرہ کا احساس تکلیف دہ حد تک بڑھ جاتا ہے۔ مریض محسوس کرتا ہے کہ گویا اسے شدید قسم کے فلو نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر بی اونڈی بتاتے ہیں کہ اس کیفیت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ درد سر (میگرائن)کے دوران پورا دماغ شدید دبائو کی وجہ سے ہل کر رہ جاتا ہے۔ مطالعوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ میگرائن کے دوران دماغ کے قشر (CORTEX) اور اس کی ساق(STEM) یا جڑ کی طرف خون کے بہائو میں تبدیلی آجاتی ہے بلکہ اس درد کے حملے کے بغیر دماغ کی ساق میں دوائوں کے استعمال کے بغیر بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ ساق دماغ کے ایک حصے میں عصبی پیغام رساں، سیرو ٹونین (SERO TONIN)کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ خیال ہے کہ یہی کیمیکل میگرائن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
میگرائن کے دوران دماغ کے مؤخر یا آخری حصے (OCCIPITAL) میں خون کا دوران کم ہوجاتا ہے۔ دماغ کے اسی حصے میں روشنی کے تیز شرارے اور سیاہ دھبے وغیرہ جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ میگرائن کے آغاز میں یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ خون کے بہائو میں اس کمی کا سلسلہ چند گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دماغ کی برقی سرگرمی میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں اور پھر خون کا یہ بہائو دھیر ے دھیرے بڑھنے لگتا ہے۔ یہی وہ پیچیدہ عمل ہوتا ہے کہ جس میں معالج کو ٹھیک دوا کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ علامات کم ہوں۔ ایک یا اس سے زائد دوائوں کے انتخاب کے علاوہ مریض کو اپنے لائف اسٹائل یعنی زندگی بسر کرنے کے مختلف معمولات میں بھی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔
سائنس داں میگرائن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ یقین ہے کہ اسی کے ساتھ ساتھ اس درد کے علاج بھی دریافت ہوتے رہیں گے۔ اس طرح اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ درد ماضی کا قصہ بن جائے۔
دردِ شقیقہ محض درد نہیں، بلکہ ایک مرکب اور پیچیدہ مرض ہے جس کی تکلیف مریض کو مجبور اور لاچار کردیتی ہے۔ یہ درد سر کے ایک جانب ہوتا ہے جس کے ساتھ عموماً قے یا الٹیاں ہوتی ہیں۔ روشنی اور آواز برداشت نہیں ہوتی۔ چکر اور دوسری علامات بھی پریشان کرتی ہیں۔ اس کے دس سے بیس فیصد مریضوں کو تیز روشنی کے چمکارے، سیاہ دھبے اور ٹیڑھی میڑھی لکیریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ بینائی ناکام ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، چکر اور سُن پن کا احساس بھی سخت پریشان کرتا ہے۔
اس مرض کی علامات انتہائی نقاہت کا سبب بنتی ہیں۔ مریض درد سے دماغ میں دھماکے ہوتے محسوس کرتا ہے۔ بعض مریض سخت بدحواس ہوکر ہسپتال کے ہنگامی مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان مریضوںکی اکثریت صحت یاب ہوکر ماہر خصوصی سے علاج کے لیے رجوع نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ مناسب اور درست تشخیص و علاج سے محرورم رہتے ہیں۔ درست علاج کے ذریعے مرض یا درد کے آغاز میں ہی میگرائن کے حملے کو بڑی حد تک بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اس درد کی ابھی تک کوئی قطعی دوا دستیاب نہیں ہے، البتہ کچھ دوائیں ضرور ہیں، تاہم علاجی تدابیر کے ذریعے سے درد کی شدت سے ضرور محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں آٹھ ایسی تدابیر ہیں جن کے ذریعے سے دردِ شقیقہ کی شدت بہت کم کی جاسکتی ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ برائے نام ہی محسوس ہو۔
نیورولوجی یا امراضِ دماغ و اعصاب کے ایک ماہر کے مطابق شقیقہ کے مریض توجہ اور فکر سے اپنے مرض کی تشخیص اس لیے نہیں کراتے کہ مرض کے حملے کے دوران انہیں درد دور کرنے والی دوائوں سے آرام آجاتا ہے۔ ایک ماہر کے مطابق بہت سے مریض اس غلط فہمی کا شکار بھی ہوتے ہیں کہ یہ مرض قابلِ علاج نہیں ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر صورتوں میں چونکہ یہ ایک خاندانی (موروثی) مرض ہوتا ہے، اس لیے مریض اسے ناگزیر اور لاعلاج سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی تشخیص اور مؤثر علاجی تدابیر سے مریض کو افاقہ ہوسکتا ہے۔
شکاگو کے ڈائمنڈ ہیڈیک کلینک کے ماہر مرل ڈائمنڈ ایم ڈی کے مطابق اچھے معالج کا مقصد صرف درد کو روکنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ دریافت ہونے والی نئی دوائوں کی مدد سے درد کے اس پورے سلسلے کو روکنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی ہم درد ہی کو نہیں روکتے، بلکہ غنودگی پیدا کیے بغیر متلی اور دوسری علامات سے مریض کو چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں۔ اب سے15۔20 سال پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔ جدید دوائیں دماغ میں درد کا سبب بننے والے کیمیکلز کو روکتی یا ختم کرتی ہیں، مثلاً ٹرپٹانز (TRIPTANS) نامی دوا کے استعمال سے درد ہی کم نہیں ہوتا، بلکہ میگرائن کی دیگر علامات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ ان سے ورم پیدا کرنے والے کیمیکلز بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
اپنے معالج سے مشورے اور علاج کے بعد بھی اگر تکلیف موجود ہو تو آپ کو معالجِ خصوصی سے رجوع ہوجانا چاہیے کیونکہ وقتی علاج کے باوجود48 فیصد مریض اکثر اوقات شدید درد کے شکار رہتے ہیں، اس لیے معالجِ خصوصی سے رجوع ہونا بہت مناسب ہوتا ہے، کیونکہ مہارت کی وجہ سے وہ درست تشخیص اور تجویز کرسکتے ہیں۔
ایک ماہر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ تازہ ترین تحقیقی رپورٹوں اور علاجی پیش رفت کا علم رکھتا ہے۔ بہت سے معالج ٹرپٹانز کے علاوہ بوٹوگز(BOTOX) بھی تجویز کرتے ہیں جس کا انجکشن پیشانی، کنپٹیوں اور گردن میں لگانے سے پٹھے ڈھیلے اور سُن ہوجاتے ہیں۔ اکثر مریض اس علاج سے چار مہینوں تک درد کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں، تاہم ہر مریض کے لیے یہ دوا مفید ثابت نہیں ہوتی، گویا ایک ماہر خصوصی سے رابطہ ہی مرض کی اونچ نیچ کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
واکنگ، جاگنگ اور ایسی دیگر ورزشیں شروع کردینے سے درد کا حملہ پسپا ہوجاتا ہے۔ دراصل ورزش سے جسم میں انڈورفنز (ENDORPHINS)کی تیار ی شروع ہوجاتی ہے جس سے مریض کا مزاج اور موڈ بدل جاتا ہے۔ ورزش سے درد کا ایک اور اہم سبب یعنی دبائو (STRESS) بھی ختم ہوجاتا ہے۔
یوں تو ہر ورزش مفید ثابت ہوتی ہے، لیکن خود مریض کو اپنے لیے مؤثر ورزش کا انتخاب کرلینا چاہیے اور ہفتے میں5 دن 30 منٹ روزانہ کے حساب سے یہ ورزش کرنی چاہیے۔
ویسے یاد رہے کہ جب یہ درد بڑھ رہا ہو تو کوئی بھی ورزش اسے کم نہیں کرسکتی۔ یعنی اپنے کھانے پینے، تفریح اور نیند کے معمولات یا مقررہ اوقات تبدیل نہ کیجیے۔ وقتِ مقررہ پر بیدار ہونے کا معمول بنانا اور ناشتے اور کھانے کے اوقات کی پابندی کرنی چاہیے، کیونکہ اس کی خلاف ورزی کی وجہ سے دماغ میں درد کا آغاز ہوسکتا ہے۔ وقت پر سوئیے، جاگیے اور کھانا کھائیے۔ ناشتا یا کھانا ترک نہیں کرنا چاہیے۔ خون میں شکر تیزی سے کم ہونے کی صورت میں میگرائن شروع ہوسکتا ہے۔
ذہنی دبائو کی وجہ سے یہ درد ہوجاتا ہے، اس لیے پُرسکون رہنے کے عادی بن جائیے۔ جلد بازی، گھبراہٹ اور پریشانی سے بھی درد شروع ہوسکتا ہے۔ دبائو سے بچنے کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ آپ خود کو بہلائیں، یعنی جو بھی مسئلہ یا فکر درپیش ہو اس کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں اور خود اس کے حل کی مثبت فکر کریں۔ جسم کے عضلات میں کشیدگی ہو تو اسے دور کرنے کی تدبیر کریں۔ کشیدگی کم ہوگی تو سر کی کشیدہ اور پھڑپھڑاتی رگیں بھی نرم اور ڈھیلی پڑجائیں گی اور افاقہ ہوگا۔ یہ ایک فن ہے۔ ایک دفعہ اس کا ڈھنگ سمجھ میں آجائے تو ایسے تمام موقعوں پر اس سے کام لیا جاسکتا ہے اور مرض کی شدت کم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے پُرسکون جگہ آرام سے لیٹ کر چند گہرے سانس لینے کے بعد جسم کے مختلف عضلات میں کھنچائو یا کشیدگی پیدا کرکے انہیں دھیرے دھیرے، باری باری ڈھیلا کرتے جائیے۔ یہ سلسلہ پیر کے پنجوں سے شروع کرکے سر تک لے جائیے۔ عضلات کشیدہ کرتے وقت گہرا سانس لیجیے اور اسے کئی سیکنڈ تک روکے رہیے۔ پھر دھیرے دھیرے سانس چھوڑتے ہوئے عضلات کو بھی ڈھیلا کرتے جائیے۔
اس میں یوگا کے علاوہ ہر وہ عمل اور تصور کام آسکتا ہے جس سے آپ راحت اور آرام محسوس کرتے ہوں۔ یہ سکون بخش ذکر بھی ہوسکتا ہے، یا کوئی شعر اور گانا بھی۔
یہ پرانا قول درست ہے کہ ’’آپ وہی ہوجاتے ہیں جیسا آپ کھاتے ہیں‘‘۔ عرصے سے یہ بات علم میں ہے کہ بعض غذائوں سے میگرائن شروع ہوجاتا ہے، بلکہ ان غذائوں کی طلب بھی دراصل اس درد کے آغاز کا اشارہ ہوتی ہے۔ مثلاً چاکلیٹ، ضرورت سے زیادہ مسالے اور نمک مرچ والے گوشت میں موجود ٹائٹریٹس کی وجہ سے دماغ کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ ایسی دیگر اشیاء میں پنیر، اچار، چٹنیاں، ترش پھل، کیلا، پیاز، چینی، نمک، غذائیں محفوظ رکھنے والے اجزا اور مصنوعی مٹھاس والے مشروبات وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح تیز آواز، تیز روشنی اور شوروغل وغیرہ سے بھی یہ درد شروع ہوسکتا ہے۔
اس دردِ شقیقہ کا مقابلہ کرنے کی ایک مؤثر تدبیر یہ بھی ہے کہ اس کی باقاعدہ ڈائری لکھی جائے، یعنی درد کیوں شروع ہوا، کس وقت شروع ہوا، کیا کھایا تھا اور کیا موڈ اور کیفیت تھی، وغیرہ۔ اس طرح باخبر ہونے سے درد کے حملوں سے بچائو آسان ہوجاتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ کس تدبیر سے اس کی شدت کم ہوئی تھی۔
اپنی یہ ڈائری روزانہ لکھیے اور اس کے اندر یہ معلومات درج کیجیے:
٭ کیا آپ کے سر میں درد ہوا تھا؟
٭یہ درد کس وقت شروع ہوا؟
٭اس کے آغاز کی علامات کیا تھیں؟
٭درد ہلکا تھا، معتدل تھا یا شدید؟
٭آپ نے کیا دوا کس مقدار میں استعمال کی؟
٭درد کا سلسلہ کتنی دیر جاری رہا؟
اس کے علاوہ ایسے تمام اسباب و عوامل بھی لکھیے جو درد کا سبب بنے ہوں۔ ان میں غذائیں، جذباتی کیفیات، تفکرات، دبائو اور ناکافی نیند بھی شامل ہے۔