قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ایک مردِ حق پرست، متشرع اور دیانت دار اعلیٰ سرکاری افسرکی ایمان افروز داستانِ حیات
انسان کی پہچان اُس کے عمل سے ہوتی ہے، کیونکہ ہر انسان کا عمل اُس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، اور کسی بھی انسان کی شخصیت اُس کی فطری صلاحیتوں اور اس کی تعلیم و تربیت کا مرقع ہوتی ہے۔ حضرت علیؓ نے اچھے انسان کا جو معیار بنایا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ: ’’اے شخص جب تُو پیدا ہوا تو رو رہا تھا اور تیرے اردگرد لوگ کھڑے ہنس رہے تھے۔ اب تُو اس طرح زندگی بسر کر اور ایسے کام کر کہ جب تُو اس دنیا سے رخصت ہو تو تُو ہنس رہا ہو اور تیرے اردگرد کھڑے لوگ رو رہے ہوں۔‘‘ گویا یہ معیار ہے ایک ایسے نیک انسان کا، جس نے اپنی زندگی لوگوں کی خدمت میں گزاری ہو، اور حتی الامکان دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائی ہو۔
اس معیار کو اگر سامنے رکھا جائے اور الحاج سید شجاعت علی صدیقی مرحوم کی زندگی کو اس کسوٹی پر رکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اُن کی زندگی ایک مردِ مومن کی زندگی، اور ان کی شخصیت خشیت اللہ اور تعلیماتِ اسلامی سے عبارت تھی۔ شجاعت علی صدیقی حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی کو ادا کرنے میں بے حد پُرجوش، مخلص اور پابند تھے۔ نماز بہت لوگ پڑھتے ہیں لیکن انہوں نے نماز کو اپنی زندگی پر طاری کررکھا تھا۔ آپ کا تعلق ضلع بجنور کے مردم خیز خطے سے تھا اور آپ ممتاز غالب شناس، محقق اور نقاد ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری کے داماد تھے۔ آپ نے مروجہ انگریزی تعلیم حاصل کی تھی اور انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ افسر مقرر ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل آپ میرٹھ میں کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے عہدے پر فائز تھے اور اُس وقت کے ایک مسلمان فوجی افسر(بعد ازاں صدر) ایوب خان کے قریبی دوست اور پڑوسی تھے۔ اس بات کو میرٹھ کے مسلمان جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں اس سرکاری دفتر میں کتنی تعداد میں مسلمانوں کو ملازمت ملی تھی۔ اس دور میں شجاعت علی صدیقی مرحوم انگریزی لباس پہنتے تھے اور ڈاڑھی بھی نہیں رکھتے تھے، لیکن نماز کی پابندی سے ادائی میں نہ کبھی ان کا لباس حارج ہوسکا اور نہ ہی کلب کی پارٹیاں۔ یہ برصغیر میں برطانوی راج کے دور کی بات ہے، جب اپنے مذہبی فرائض کی ادائی حکومتِ وقت کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتی تھی۔ لیکن مومن کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ جس بات کو حق سمجھتا ہو اُس پر عمل پیرا ہونے میں کسی مخالفت کی پروا نہ کرے، اور اسی کو جہاد کہا گیا ہے۔
لیکن پھر یہ ہوا کہ 1942ء میں شجاعت علی صدیقی حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے، اور جب حج بیت اللہ اور دیارِ حبیبؐ کی زیارت سے واپس آئے تو ان کا ظاہری لباس باطنی جذبات کا تابع ہوگیا۔ اس کے بعد کسی نے بھی انہیں انگریزی لباس پہنے نہ دیکھا۔ دیارِ حبیبؐ پر حاضری دی تو ڈاڑھی کی سنت بھی اختیار کی اور اس طرح ظاہری طور پر بھی وہ ان تعلیمات کا نمونہ بن گئے جو ان کی عملی زندگی کے راہ نما اصول تھے۔
الحاج شجاعت علی صدیقی9نومبر1902ء کو بجنور کے ایک معزز صدیقی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ ہمارے ادارے ’ای او بی آئی‘ کے ایک سابق اعلیٰ افسر جاوید رشید صدیقی سابق ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) ای او بی آئی کے والد محترم تھے۔ ہمیں ای او بی آئی میں دورانِ ملازمت جاوید رشید صدیقی صاحب کے ساتھ خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا۔ جاوید رشید صدیقی کے خانوادہ میں ایک بزرگ خان بہادر نورالاسلام ،آپ کے نانا ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری پی ایچ ڈی اور آپ کے والد محترم الحاج شجاعت علی صدیقی جیسی مایہ ناز شخصیات کا وجود دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ الحاج شجاعت علی صدیقی کے جدِّ امجد زنجان(ایران) کے رہنے والے قاضی حسن اپنی عالمانہ شخصیت اور علم وفضل کے باعث بے حد معروف تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں احادیث زبانی یاد تھیں۔ انہیں مغل فرماں روا ظہیر الدین بابر نے فرغانہ طلب کرکے اپنا مشیر خاص مقرر کیا تھا۔ بابر کے ہندوستان پر حملے کے دوران قاضی حسن اُس کے ہمراہ تھے اور انہوں نے پانی پت کی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں انہیں سلطنت مغلیہ کی جانب سے قاضی شہر لاہور مقرر کرکے پنج ہزاری کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔1857ء میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے تک ان کی نسل کے پاس لاہور کے قاضی کا منصب موجود رہا۔ بعد ازاں علم و فضل اور اصول پرستی کے باعث اس خاندان کی متعدد شخصیات کو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
انہی بیش بہا خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے1900ء میں اس خاندان کی ایک معزز شخصیت خان بہادر نورالاسلام کو قندھار، افغانستان میں برطانوی حکومت کا نمائندہ مقرر کیا گیا تھا، جن کے جوہر قابل صاحب زادے ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری پی ایچ ڈی جرمنی اور لنکزاِن سے بار ایٹ لا تھے، جو محض 33 برس کی عمر میں انفلوئنزا کے وبائی مرض میں مبتلا ہوکر بھوپال میں انتقال کرگئے تھے، جہاں وہ ڈائریکٹر ایجوکیشن تعینات تھے۔ ممتازغالب شناس، محقق اور نقاد ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری مرحوم اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’محاسن کلام غالب‘‘ سے دنیائے ادب میں معروف ہیں۔ یہی ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری، الحاج سید شجاعت علی صدیقی کے سسر تھے۔
الحاج سید شجاعت علی صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم بجنور اوربریلی کالج سے حاصل کی۔ بریلی سے انٹرمیڈیٹ، سینٹ جان کالج آگرہ سے گریجویشن، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کے امتحانات پاس کیے۔ انہوں نے1927ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے قانون کے پہلے سال کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔
الحاج سید شجاعت علی صدیقی نے1928ء میں انڈین سول سروسز کے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی اور اپنی لیاقت اور قابلیت کی بنیاد پر پورے ہندوستان میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کا آغاز ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکائونٹس (اعلیٰ عسکری حساب دار ) کے اہم عہدے سے کیا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ آپ اکائونٹنٹ جنرل ملٹری اکائونٹس کے عہدے تک پہنچ گئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد آپ نے پاکستان کو منتخب کیا اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان میں ڈپٹی ہائی کمشنر بھی تعینات رہے۔بعد ازاں ایک عرصے تک راولپنڈی میں اکائونٹنٹ جنرل ملٹری اکائونٹس کے اہم عہدے پر بھی فائز رہے۔
سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد حکومت نے آپ کو پاکستان رفیوجی ری ہیبلی ٹیشن فنانس کارپوریشن کا منیجنگ ڈائریکٹر اور اضافی طور پر چیف کمشنر زکوٰ ۃ مقرر کیا تھا، لیکن آپ نے اپنے دینی مزاج کے باعث سود کے مسئلے پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
الحاج سید شجاعت علی صدیقی نے اپنی زندگی میں درجنوں مساجد اور تعلیمی اداروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دیگر دینی و رفاہی ادارے بھی قائم کیے جن میں انجمن انصارالمہاجرین کراچی، ادارہ تعلیم و تبلیغ راولپنڈی، اور ملٹری اکائونٹس تفریحی کلب اور محکمہ ملٹری اکائونٹس کا ماہانہ جریدہ ’’محاسبین‘‘ شامل ہیں۔
سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد الحاج سید شجاعت علی صدیقی نے خود کو 1963ء سے کراچی سے جاری ہونے والے اپنے پندرہ روزہ دینی جریدے ’’وفاق‘‘ کی اشاعت کے لیے وقف کردیا تھا، جس کا بنیادی مقصد حکومت کو ملک میں ایک مضبوط اور پائیداراسلامی ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کی راہ دکھانا تھا۔
ایک پرنویس، حساس اور مذہبی جذبے سے سرشار قلم کار کی حیثیت سے آپ کی بہت سی تالیف اور مطبوعات تاحال اشاعت کی منتظر ہیں، جبکہ آپ کی اہم تصانیف میں ’’پبلک فنانس ان اسلام‘‘ اور ’’دعوتِ فکر‘‘ شامل ہیں۔
معروف بیوروکریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اپنی معروف خودنوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں شجاعت علی صدیقی صاحب کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
’’ جنگِ کشمیرکی وجہ سے مقامی طور پر غیر معمولی دشواریوں کا رونا روکر میں نے مزید منت سماجت کی، تو چودھری صاحب (چودھری محمد علی، سیکریٹری خزانہ،حکومتِ پاکستان) کسی قدر پسیجے اور انہوں نے بڑی مشکل سے مبلغ90 ہزار روپے کی امداد منظور کی۔ یہ منظوری لے کر میں عبدالقادر صاحب کے پاس پہنچا جو اُس زمانے میں وزارتِ فنانس میں غالباً جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ بعد ازاں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہے۔ انہوں نے میرے سامنے راولپنڈی میں شجاعت علی صدیقی ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کو ٹیلی فون کردیا کہ فلاں فنڈ سے آزاد کشمیر 90 ہزار روپے کی رقم امداد کردیں۔ آزاد کشمیر کے ساتھ لین دین کے معاملات میں صدیقی صاحب ’’ محتسب‘‘ کہلاتے تھے۔
شجاعت علی صدیقی صاحب بھی مردِ مومن کی جیتی جاگتی اور پُراثر تصویر تھے۔ مسجدیں تعمیر کرنا اور انہیں بناسنوارکر آباد رکھنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ میں جتنی بار ان سے ملنے ان کے دفتر یا گھر گیا ہوں، ہمیشہ یہی دیکھا کہ نماز کا وقت آنے پر وہ وہیں باجماعت نماز کا اہتمام کرلیتے تھے۔ ان کا رہن سہن انتہائی سادہ اور ظاہر و باطن شیشے کی طرح صاف اور شفاف تھا۔ سنا ہے کہ راولپنڈی میں سٹیلائٹ ٹائون قائم کرنے کا منصوبہ انہی کے ذہنِ رسا کی اختراع تھا۔‘‘
اسی طرح ملک کے ایک اورمعروف بیوروکریٹ اور سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن این اے جعفری (نورالحسن جعفری) اپنی کتاب ’’منتشر یادیں‘‘ میں شجاعت علی صدیقی صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’سید صاحب سے ملاقات کے دوسرے دن میری ملاقات ملٹری اکائونٹس کے سربراہِ اعلیٰ جناب حاجی شجاعت علی صدیقی صاحب سے طے پائی۔ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک وجیہ شخص سے ملاقات ہوئی۔ لمبا قد، کسرتی جسم، گھنی ڈاڑھی جس میں سفید تار نمودار ہوچکے تھے۔ کرتا پاجامہ پہنے ہوئے بیٹھے تھے۔ شیروانی پیچھے اسٹینڈ پر ٹنگی ہوئی تھی، حقہ پی رہے تھے۔ ان کا جمعدار پورے یونیفارم میں تھا۔ پگڑی اور سنہری کلس، کمرے کے ایک کونے میں ایک تخت تھا جس پر ایک جائے نماز رکھی ہوئی تھی۔ حاجی صاحب نے نشست سے اٹھ کر ملاقات کی۔ خاندانی کوائف دریافت کرتے رہے۔ وہ میرے پھوپھا کرنل محمد عون جعفری صاحب سے واقف تھے۔ محکمے کے بارے میں کم بات کی، مذہب کی بابت کچھ باتیں ہوئیں۔ دریافت کیا کہ نماز پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! پوچھا کہ پانچوں وقت؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ بات ختم ہوگئی۔ فرمایا کہ جمعہ کے دن شام کو دفتر میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، آیا کرو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے ثواب کی بات نہیں کی، آواز ملائم تھی لیکن لہجہ رعب دار تھا۔ رعب اور رعونت میں فرق ہوتا ہے۔ پوچھا کہ ٹینس وغیرہ کھیلتے ہو؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ فرمایا: صحت کے لیے ضروری ہے۔ دفتر میں ایک ہال میں بیڈمنٹن کورٹ ہے۔ مشورہ دیا کہ اس میں بھی شریک ہو۔
ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ حاجی صاحب اب بہت بدل گئے ہیں۔ آزادی سے قبل ڈاڑھی مونچھ صاف تھی اور ہمیشہ سوٹ پہنتے تھے۔ ٹینس کا شوق تھا۔ پھر زندگی پر مذہب کا رنگ غالب آگیا تو آزادی کے وقت دہلی میں ڈپٹی ہائی کمشنر تھے اور مشہور تھا کہ دہلی میں مسلمانوں کا قتل دیکھ کر انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ جہاد کا وقت آگیا ہے۔اس پر جلد ہی وہ پاکستان بلا لیے گئے۔
میں ان کے قرآن کے درس اور بیڈ منٹن دونوں میں شریک ہوگیا۔ اُس وقت میری عمر27 سال تھی اور حاجی صاحب کی تبلیغی سرگرمیاں مجھے کچھ عجیب لگتی تھیں۔ لیکن آج جب پاکستان کی مختلف عصبیتوں پر نظر جاتی ہے، لسانی، صوبائی، خاندانی… تو حاجی صاحب کی دور اندیشی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ ایک بہترین بصیرت رکھتے تھے، دوربین اور دانش مند شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ذہن میں یہ بات بہت صاف تھی کہ پاکستان کی بقا اسلام کے اصولوں پر کاربند ہونے میں ہے۔ اُس وقت تک نہ دستور بنا تھا اور نہ قراردادِ مقاصد کا مسودہ تیار ہوا تھا۔ نہ کوئی سرکاری اسلام نافذ ہوا تھا، نہ حکومت نے نماز باجماعت کی ابھی کوئی ہدایت دی تھی۔ یہ ان کا ذاتی ادراک تھا۔ حاجی صاحب اپنے ماتحتوں سے بڑی محبت سے پیش آتے۔ درس قرآن اور بیڈمنٹن کورٹ پر وہ برابری کا برتائو کرتے۔ دفتر میں ان کے حقہ کا بہت اہتمام ہوتا تھا۔ یہ غالباً ان کی واحد کمزوری تھی۔ ہر سال کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کی کانفرنس ہوتی جو تقریباً ایک ہفتہ چلتی۔ ہر رات کسی ایک افسر کی طرف سے کھانا ہوتا جس میں تمام افسران شریک ہوتے۔ ایک خاندان کا تاثر ہوتا، ورنہ شرکاء کے مراتب میں بہت فرق تھا۔ جب حاجی صاحب ملٹری اکائونٹس کے عہدے سے تبدیل ہوئے، تب یہ کھانوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ سالانہ اب بھی کانفرنس ہوتی ہے اور ایک سرکاری کھانا ہوتا ہے۔
حاجی صاحب نے ملٹری اکائونٹس کے دفاتر کے ملازمین کے لیے ایک مسجد تعمیر کروائی۔ میں اپنی آزمائشی مدت ختم کرکے ڈپٹی کنٹرولر ہوگیا تھا اور انتظامیہ کا محکمہ میرے سپرد تھا، اس لیے مسجد کی تعمیر سے میرا خاصا واسطہ رہا۔ حاجی صاحب خود نماز سے قبل کلام پاک کی تفسیر پیش کرتے تھے۔ نماز پیش امام صاحب پڑھاتے تھے۔ میں1952ء میں کنٹرولر آف اکائونٹس ائیر فورس ہوکر لاہور چلا گیا۔ اس زمانے میں ملک کے کئی شہروں میں قادیانیوں کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ 1953ء میں ملک کا پہلا مارشل لا لگا۔ میرے دفتر کے کچھ قادیانی کارکن ہڑتال پر چلے گئے۔ وہ دفتر میں اپنے کمپائونڈ کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے رہے، لیکن انہوں نے کسی قسم کی شورش نہیں کی۔ لہٰذا میںنے ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ اس پر میری صدر دفتر میں طلبی ہوئی اور میں حاجی شجاعت صاحب کے سامنے پیش ہوا، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ آپ نے اس معاملے میں ضابطے کی کارروائی سے کیوں گریز کیا ہے؟ ان کا مؤقف تھا کہ جو ملازمین کام چھوڑکر ہڑتال پر گئے تھے، ان کے خلاف لازمی تادیبی کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ جبکہ میرا مؤقف تھا کہ وہ ملازمین صرف دفتر سے بغیر اجازت غیر حاضر رہے لیکن دفتر کے باہر پُرامن بیٹھے رہے، کسی نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور ان کو ڈیوٹی سے غیر حاضر شمار کیا گیا ہے۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں کو چارج شیٹ دی جائے۔ وہ سربراہِ اعلیٰ تھے، مجھ سے زیادہ تجربہ کار۔ چنانچہ میں نے ہڑتالی ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی۔ جب ان ہڑتالی ملازمین سے ڈیوٹی سے غیر حاضری کی بابت تحریری جواب طلب کیا گیا… یاد نہیں غالباً پانچ ملازمین تھے… سب نے ایک سا جواب دیا کہ چونکہ ان کے فرقے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس لیے وہ احتجاجاً دفتر نہیں آئے تھے اور ان کو اتفاقی رخصت دے دی جائے۔ میں نے اپنے حکم میں ان کو آئندہ کے لیے احتیاط کا مشورہ دیا اور بجائے اتفاقی رخصت کے ان کی استحقاقی چھٹی کاٹ لی۔ جب میری رپورٹ حاجی صاحب کے سامنے پیش ہوئی تو پھر میری پیشی ہوئی۔ ان کا مؤقف تھا کہ میں نے اس معاملے میں رعایت برتی ہے ۔ میں نے اپنی صفائی پیش کی کہ ان لوگوں نے دفتر میں کوئی تعرض نہیں کیا، تو انہیںکس بات کی سزا دی جائے؟ غیر حاضری کے لیے میں نے ان کی استحقاقی چھٹی کاٹ لی۔ میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اگر آپ میرے فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو اس کو رد کرسکتے ہیں اور ان ملازمین کو مناسب سزا دے سکتے ہیں۔ اس پر وہ خاموش رہے۔ بہت عرصے کے بعد جب میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے عہدے پر فائز تھا تو میں نے حاجی صاحب کی اس سال کی خفیہ رپورٹ دیکھی۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’مزاجاً ضدی ہے لیکن دبائو کے تحت اپنی رائے تبدیل نہیںکرتا، جو ایک اچھی بات ہے۔‘‘
میری سالانہ خفیہ رپورٹ کے یہ مندرجات اُن کی بڑائی تھے اور اس دور میں اعلیٰ افسران کی جانب سے اس طرح افسروں کی تربیت کی جاتی تھی۔ وہ چاہتے تو میرا تبادلہ کرسکتے تھے، میری سالانہ خفیہ رپورٹ خراب کرسکتے تھے۔ لیکن میرا ایک مؤقف تھا جس کو میں صحیح سمجھتا تھا۔ میں نے کسی قسم کی قانون شکنی نہیں کی تھی اور ہڑتالی ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کے سلسلے میں، میں نے اپنا صوابدیدی اختیاراستعمال کیا تھا۔ اس واقعے کے تین سال بعد تک میں حاجی شجاعت صدیقی صاحب کے ماتحت کام کرتا رہا اور ان کا رویہ میرے ساتھ ہمیشہ کی طرح مشفقانہ رہا۔ یہ بڑے پایہ کے لوگ تھے، اب اس پایہ کے افسر ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ آج تقریباً ہر افسر اپنے ماتحتوںکو اگر اپنا ذاتی ملازم نہیں سمجھتا تو یہ ضرور امید رکھتا ہے کہ وہ اس کی بات سے اختلاف نہیں کرے گا۔ اس طرح ماتحتوں میں اپنے اوپر اعتماد جاتا رہتا ہے۔ فیصلہ کرنے کے لیے وہ اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنے تجربے کو نظرانداز اور اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج انتظامیہ کی خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
قرآن فہمی کے سلسلے میں حاجی شجاعت علی صاحب کا جو مؤقف 1948ء میں تھا، وہ اُس وقت ہم جوانوں کی پوری طرح سمجھ نہیں آتا تھا لیکن قیام پاکستان کے43سال بعد جب پاکستان کے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی کیا اہمیت ہے۔ گروہ بندی کی انتہا ہوگئی۔ یہ ان کی ذاتی سوچ تھی، حکومتی سطح پر کوئی تحریک نہیں تھی۔ جب سرکاری سطح پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلام نافذ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ منافقت نے فروغ پایا اور جنرل صاحب نے خود اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ان کے عہد میں رشوت کا ریٹ دوگنا ہوگیا ہے۔ ذاتی کردار کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ صدیقی صاحب جو کچھ زبان سے کہتے، اس پر عمل بھی کرتے۔ سادہ زندگی، منہ پر دوٹوک نصیحت، برتائو میں اپنائیت… نہ کسی کا نسب پوچھتے اور نہ صوبہ… محکمے کے ملازمین کو ایک خاندان کی طرح سمجھتے تھے۔‘‘
شجاعت علی صدیقی صاحب کے دیرینہ ساتھی اور ان کے محکمہ کے ایک افسر محمد صدیق اپنی خود نوشت حیات ”پرواز خیال“ میں لکھتے ہیں کہ ’’ ان سے متعلق چندواقعات ہیں جن کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے پاکستان آتے ہی انہوں نے دیندار، پابند صوم و صلوٰۃ ، مومن وصادق کا روپ اختیار کرلیا تھا۔ شرعی ڈاڑھی ، کرتہ، پاجامہ اور شیروانی والا لباس۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، علماء کے مواعظ کا اہتمام کرنا اور مسجدیں تعمیر کرانا ان کا مرغوب مشغلہ تھا ۔ ایک مسجد اپنے دفتر راولپنڈی میں تعمیر کروائی اور ساتھ ہی ایک مدرسہ دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن کے لئے اور ایک پرائمری اسکول چھوٹے ملازموں کے بچوں کے لئے تعمیر کرایا ۔مسجد کی تعمیر میں تو سٹاف کے ارکان اور افسروں نے بھی حصہ ڈالا‘ البتہ مدرسہ اورا سکول کا تمام خرچہ وہ اپنی جیب سے پورا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی اپنی کوٹھی میں ہر جمعرات کو غرباء کے لئے چاولوں کی دیگیں پکواتے اور نادار مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ثواب حاصل کرتے۔ سب فقراء کو کچھ نقد عطیات بھی دیتے تھے۔شجاعت علی صاحب 1931ء سے پہلے والے اسکیل کے جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے افسر تھے۔ تین ہزار روپے ماہوار ان کی تنخواہ تھی۔ اللہ کے دئیے میں سے کھلا خرچ کرتے تھے۔ نہایت دیانتدار افسر تھے۔ قطعی حلال کی روزی کھاتے، کوئی ہیرا پھیری اور بددیانتی کا ار تکاب نہ کرتے ‘‘۔
(جاری ہے)