ضلع باجوڑ، مہمند اور سوات میں احتجاج، قبائلی علاقوں میں خوف و ہراس
شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز پر حملوں اور دیگر حکومتی حمایت یافتہ افراد کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات کے بعدگزشتہ روز ضلع خیبر کی دورافتادہ وادیِ تیراہ میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق حوالدار رحیم کی نگرانی میں 12 جوانوں کا قافلہ 2 گاڑیوں کے ذریعے باغ میدان سے شاکس جارہا تھا کہ راستے میں سرحدی پوسٹ سے آگے پی روڈ میں نصب بم اچانک دھماکے سے پھٹ گیا جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا اور گاڑی میں سوار 2 جوان حوالدار عبدالرحمان اور لانس نائیک جواد (قوم بنگش) زخمی ہوگئے۔ ضم شدہ قبائلی ضلع باجوڑ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع باجوڑ کی تحصیل سلارزئی کے علاقے چنار میں پیر کو خار تحصیل کونسل کے چیئرمین سید بادشاہ سمیت تین افراد اُس وقت زخمی ہوگئے جب ان کی گاڑی کو دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا۔ مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین نے بتایا کہ سید بادشاہ، ان کا بھتیجا اور مولانا ضیاء اللہ جان حقانی تحصیل سلارزئی کے علاقے چنار میں نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چنار کے علاقے میں نامعلوم افراد کی جانب سے نصب آئی ای ڈی سے گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس سے سید بادشاہ سمیت تین افراد زخمی ہوگئے جب کہ گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کے فوری بعد پولیس اور ریسکیو 1122 کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار منتقل کردیا گیا۔
باجوڑ میں بدامنی کے واقعات اور گزشتہ پیر کو ہونے والے بم دھماکے کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) باجوڑ چیپٹر نے ضلع میں آئندہ جمعہ سے سول کالونی اور باجوڑ اسکاؤٹس ہیڈ کوارٹرز کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی ف کے ضلعی سربراہ مولانا عبدالرشید نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کہا کہ انہوں نے طویل عرصہ ضلع میں دیرپا امن دیکھنے کا انتظار کیا تھا، لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں نے امن کی بحالی کے لیے متعلقہ محکموں اور ایجنسیوں کی مدد لینے کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اب ہر گزرتے دن کے ساتھ امن وامان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ سابقہ قبائلی اضلاع میں بدامنی کے واقعات میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے خلاف ضلع مہمند سے بھی احتجاج کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ مہمند سیاسی اتحاد کے رہنماؤں نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ بدامنی اور لاقانونیت کو برداشت نہیں کریں گے، حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ مہمند قبائلی ضلع اور دیگر علاقوں میں امن کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ مہمند پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے رہنمائوں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا محمد عارف حقانی، رکن قومی اسمبلی ساجد خان مہمند، جماعت اسلامی کے محمد سعید خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے جہانگیر خان اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں، انہوں نے ملک و قوم کی خاطر گھر بار اور چولہے چھوڑے، لیکن وہ لاقانونیت اور عسکریت پسندی کو کبھی واپس نہیں آنے دیں گے۔ رہنماؤں نے کہا کہ 22 اگست کو غلنئی اور ضلع کے دیگر مقامات پر امن واکس کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ ابھرتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوام میں شعور بیدار کیا جاسکے۔ انہوں نے قبائلی اضلاع اور دیگر مقامات پر ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے خیبرپختون خوا میں امن اور قانون کی حکمرانی کی بحالی کے لیے حکومت سے عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
سابقہ قبائلی اضلاع میں بدامنی کے واقعات اور ان کے خلاف مقامی افراد کے احتجاج کی یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گزشتہ دنوں پہلے دیر پائین میں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی خان پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اُن کے بھائی اور بھتیجے سمیت چار افراد ہلاک، جب کہ لیاقت علی خان سمیت چار افراد زخمی ہوگئے تھے۔ یہ حملہ ان پر اُس وقت کیا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں اپنے گھر ضلع لوئر دیر کی تحصیل میدان کے علاقے لال قلعہ جا رہے تھے۔ ’لال قلعہ‘ وہ علاقہ ہے جو (کالعدم) ’’تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی‘‘ کے امیر مولانا صوفی محمد کی جائے پیدائش ہے اور جہاں انھوں نے 18 جولائی 1989 ء کو اس تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ ملک لیاقت علی پر نامعلوم افراد کے حملے سے کچھ عرصہ قبل اس علاقے میں مذہبی شدت پسندوں کی سرگرمیاں میڈیا میں رپورٹ کی گئی تھیں جس کے تحت وہ عام لوگوں سے چندہ اکٹھا کررہے تھے۔
دوسرا واقعہ 8 اگست کو سوات میں اُس وقت پیش آیا جب مٹہ کے نواح گٹ پیوچار کے پہاڑوں میں طالبان نمودار ہوگئے اور اپنے خلاف پولیس ایکشن کے دوران انھوں نے مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی پیر سید، سوات میں مقیم 37 اے کے بٹالین سے تعلق رکھنے والے میجر احسن اور اسی بٹالین سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے فوجی اہل کار کو یرغمال بنا لیا۔ مبینہ طالبان نے ان تینوں سیکورٹی اہل کاروں کی ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں وہ ان تینوں سے سوالات کررہے ہیں۔ دونوں فوجی اہل کاروں کے ہاتھ پیچھے سے باندھ دیے گئے ہیں جب کہ ڈی ایس پی زخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ مقامی طور پر جرگے کے بعد طالبان نے تینوں اہل کاروں کو رہا کردیا تھا۔ واضح رہے کہ مٹہ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کا آبائی علاقہ ہے۔ جب کہ گٹ پیوچار وہ علاقہ ہے جو سوات میں طالبان کی سابقہ سرگرمیوں کا مرکز تھا اور جہاں بعد ازاں طالبان کے خلاف ایک بڑ اکمانڈو آپریشن کیاگیا تھا جس میں طالبان سمیت سیکورٹی فورسز کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
ان واقعات کے علاوہ دیر، باجوڑ اور سوات میں بھتہ خوری کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ، گورنر، بعض وزراء، اراکین صوبائی اسمبلی اور تاجروں سے مبینہ طور پر بھتہ وصولی کی خبریں بھی گزشتہ کئی دنوں سے گردش کررہی ہیں جن کی جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان میڈیا کے سامنے کھلم کھلا اظہار کر چکے ہیں۔
ان واقعات کے تناظر میں مصدقہ ذرائع کی جانب سے اب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سوات کی تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقوں میں موجود 50 شدت پسند اپنا سامان باندھ کر دیر کے راستے واپس افغانستان روانہ ہوگئے ہیں، مقامی افرادکے مطابق سیکورٹی فورسز نے مسلح شدت پسندوں کو 13 اگست تک سوات اور پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈلائن دی تھی، جس پر یہ شدت پسند واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔ ڈیڈلائن ختم ہونے سے پہلے پولیس کی بھاری نفری علاقے کی جانب روانہ ہوئی۔ اس سے پہلے پہاڑی پر شدت پسندوں کی اطلاع پر سوات کے مختلف علاقوں میں شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 17 اگست کو سوات قومی جرگہ نے’’لوئی جرگہ‘‘ بھی طلب کیا ہے جس میں سوات میں امن وامان کی صورت حال پر بحث کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس دوران سوات میں قیامِ امن کے لیے مظاہرہ کرنے والے افراد کے خلاف مقدمے کے اندراج پر سول سوسائٹی نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی آر واپس نہ لی گئی تو سخت احتجاج کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سوات میں پائیدار امن کے لیے مظاہرہ اور مارچ کرنے والے افراد کے خلاف خوازہ خیلہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے سیل کردی تھی۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے سول سوسائٹی کے نوجوان رہنما غیرت خان اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ سول سوسائٹی کے بعض ارکان کے مطابق جن شدت پسندوں نے ڈی ایس پی کو اغوا کرکے گولی ماری اُن کے خلاف تو ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی مگر جو لوگ پُرامن احتجاج کررہے تھے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جو سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
اسی اثناء صوبے میں جاری بدامنی کی صورتِ حال پر وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقاتِ عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں مکمل امن ہے، سوات میں گزشتہ چند دنوں سے پیدا ہونے والی صورت حال مکمل طور پر ٹھیک ہوگئی ہے۔ اپنے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس دوران وزیراعلیٰ، پوری صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمے صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور صوبائی حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، حکومت نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیے بغیر اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا ہے، اگر صوبائی حکومت سخت ایکشن لیتی تو وادیِ سوات کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل جاتا جو حکومت کسی بھی صورت میں نہیں چاہتی، اس لیے معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا گیا ہے۔
دیر اور سوات میں طالبان کی حالیہ سرگرمیوں کے خلاف عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے، لیکن بعض عوامی حلقے اس حوالے سے احتجاج اور مزاحمت کی باتیں بھی کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوات کے علاوہ ضلع دیر میں طالبان کی موجودگی کے خلاف ’’دیر قامی پاسون‘‘ کے زیراہتمام ایک بہت بڑا عوامی جلوس نکالا گیا جس میں مظاہرین نے ’’مونگ پہ دیر کے امن غواڑو‘‘ (ہم دیر میں امن چاہتے ہیں) جیسے نعروں پر مشتمل بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ دیر، باجوڑ اور مہمند کے لوگوں کو سوات کی حالیہ بدامنی کے نتیجے، نیز ماضی کے تلخ تجربات کے نتیجے میں چونکہ وسیع جانی و مالی نقصانات اور اِس کے علاقے اور لوگوں پر دیرپا اثرات کا بخوبی اندازہ ہے، اس لیے وہ اپنے علاقے میں کسی قسم کی بدامنی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ دریں اثنا صوبے میں جاری بدامنی کی شدت کے اثرات صوبائی اسمبلی میں بھی پہنچ گئے ہیں جہاں گزشتہ روز جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی عنایت اللہ خان اور حمیرا خاتون کی جانب سے سوات، ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تحریکِ التوا پیش کی گئی جسے عام بحث کے لیے اتفاقِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔
یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ وزیرستان، دیر، خیبر، مہمند اور باجوڑ ایسے قبائلی علاقے ہیں جو افغانستان سے متصل ہیں، اور وہاں شدت پسند ایک طویل عرصے سے موجود رہے ہیں، لیکن سوات ایک بندوبستی علاقہ ہے اور وہاں حالیہ طالبانائزیشن سے پہلے لا اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا، البتہ پہلے تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کی پُرتشدد تحریک اور بعد ازاں مولوی فضل اللہ کے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن سے شروع ہونے والی بدامنی کی لہر کے نتیجے میں سوات، حتیٰ کہ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں حکومت کی عمل داری مختصر وقت کے لیے عملاً ختم ہوکر رہ گئی تھی، لیکن بعد میں ایک بڑے فوجی آپریشن اور حکومت کی حکمت عملی کے تحت بڑے پیمانے پر عوام کی نقل مکانی کی وجہ سے سوات سمیت سارے ملاکنڈ ڈویژن میں امن وامان بحال ہوگیا تھا، لیکن اب گزشتہ دنوں کے اچانک واقعات سے سوات سمیت سارے صوبے بالخصوص قبائلی اضلاع میں خوف وہراس کی ایک نئی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبے کے قبائلی علاقوں کی نسبت سوات عمومی طور پر پُرامن رہا ہے، اور وہاں پر چونکہ ماضی کے تناظر میں شدت پسندوں کے مستقل گڑھ موجود نہیں رہے ہیں اس لیے گزشتہ روز طالبان کی موجودگی نے عوام کے ذہنوں میں کچھ خدشات اور سوالات کو بھی جنم دیا ہے، جن کا نہ صرف مداوا ضروری ہے بلکہ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات دینا متعلقہ اداروں پر قوم کا قرض بھی ہے۔