بلوچستان کے متعدد اضلاع متاثر، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد196 ہوگے
بارشوں کے تیسرے اور چوتھے اسپیل نے بھی بلوچستان کے متعدد اضلاع کو متاثر کیا۔ چوتھے اسپیل کے باعث شمالی اضلاع قلعہ عبداللہ اور موسیٰ خیل میں تباہی مچ گئی۔ اوتھل کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آمدورفت دوبارہ معطل ہوئی، مزید ڈیم ٹوٹ گئے اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد196ہوگئی۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان کے34 میں سے 26 اضلاع مون سون بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ چالیس ہزار گھر جزوی یا مکمل تباہ ہوگئے، 5 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، 2100کلومیٹر سڑکیں اور25پل بہہ گئے۔ بلاشبہ انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے بھاری فنڈ درکار ہوں گے۔ بلوچستان حکومت نے ابتدائی تخمینہ 35 ارب روپے لگایا ہے۔ نقصانات یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ گویا صوبے کی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے بیشتر جاں بحق افراد کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے فراہم کردیے ہیں۔ یہ وزیراعظم شہبازشریف کی خصوصی تاکید اور دلچسپی سے ممکن ہوسکا ہے۔ وہ خاصے متحرک ہیں اور سیلاب کے حالات میں دو مرتبہ بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نے صوبوں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کی ہدایت کی ہے۔ سروے سے پہلے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو تین دن کے اندر 50 ہزار روپے فی خاندان امداد فراہم کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ چناں چہ بدعنوانی اور غیر ذمہ دارانہ ماحول میں بحالی اور مصرف کا عمل خصوصی نگرانی کا متقاضی ہے۔
نامعقولیت گاہے بگاہے پاک فوج کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ناقدین نامعقولیت سے بغل گیر ہیں جو حکومتی عنایات سے مستفید ہورہے ہیں، ساتھ ہی طرح طرح کے شکوک پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جس کا سامنا فوج کو کرنا پڑتا ہے۔
ضلع لسبیلہ سیلاب میں ڈوب گیا۔ وزیراعلیٰ اور بھوتانی خاندان کو حب اور لسبیلہ کی راجدھانی کی پڑی ہے۔ کل تک کے یہ دوست اب ایک دوسرے سے بدظن ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی اور دوسرے سیاسی و انتظامی معاملات پر ان میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے ایک سرمایہ دار علی حسن زہری کو لاکھڑا کیا ہے جو صوبائی وزیر صالح بھوتانی اور اُن کے بھائی ایم این اے اسلم بھوتانی کو ناپسند ہیں۔ بھوتانی ڈپٹی کمشنر افتخار حسین بگٹی پر اَڑے رہے۔ عبدالقدوس بزنجو اور علی حسن زہری نے ان کا تبادلہ کرکے مراد کاسی کو ڈپٹی کمشنر تعینات کردیا۔ علی حسن زہری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے معتمدینِ خاص میں سے ہیں۔ ان کی اہلیہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کی رکن ہیں۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ کراچی اور سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے توسط سے انتظامی تبادلوں اور دیگر حوالوں سے یہ اثر رسوخ کے حامل ہیں۔ وزراء اور اراکین صوبائی اسمبلی بلوچستان میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سرِدست عبدالقدوس بزنجو نے بھوتانیوں کی چلنے نہیں دی۔
لسبیلہ میں آفت کے دوران رکن اسمبلی جام کمال خان متحرک ہیں۔ وہ تقریباً تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں، مسائل اور ریلیف کے بارے میں متعلقہ حکام سے رابطہ کیے ہوئے ہیں، انہوں نے متاثرہ علاقوں کے طویل سفر کیے ہیں۔ چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی بھی پوری طرح فعال ہیں۔ خصوصاً لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سیلاب اور بارشوں کے دوران مسلسل دوروں پر تھے، یہاں تک کہ اکثر سیکورٹی کی حساسیت بھی نظرانداز کرجاتے، دور دراز کے علاقوں میں متاثرین سے گلے مل لیتے۔ اسی ریلیف آپریشن کے دوران لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثہ پیش آیا اور وہ میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈیئر محمد خالد اور ہیلی کاپٹر کے عملے کے ساتھ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس حادثے کے بارے میں بدگمانیاں پھیلانے کی لاحاصل کوششیں بھی ہوئیں۔
سچی بات یہ ہے کہ صوبے کی حکومت کئی مسائل کی حامل بنی ہوئی ہے۔ یہ معیار نفرتوں، دوریوں اور بداعتمادیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اتنے نااہل اور غافل ہیں کہ21جولائی سے ریڈ زون میں خواتین اور بچوں نے دھرنا دے رکھا ہے، شاہراہیں بند ہیں، مگر وزیراعلیٰ ہائوس کوئی مثبت پیش رفت نہیں کرسکا تاکہ ان خواتین کو گھروں کو جانے پر آمادہ کیا جائے۔ امن کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ صوبے کی حکومت اس تناظر میں اپنی ذمے داریوں سے غافل ہے۔ یقیناً یہ ذمے داری تنہا فورسز کی نہیں ہے جن پر حالیہ چند دنوں میں کئی حملے ہوچکے ہیں۔ 14اگست کو ہرنائی کے علاقے خوست میں پہاڑوں سے رات کی تاریکی میں حملہ ہوا جس میں دو اہلکار جاں بحق اور ایک میجر اور چار اہلکار زخمی ہوئے۔ پھر احتجاج کے دوران ایک نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق ہوا، کئی افراد زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے 15اگست کے اجلاس میں واقعہ پر تحریک التوا پیش کی گئی۔عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین اصغر خان اچکزئی ،زمرک خان اچکزئی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصراللہ زیری نے ایف آئی آر درج کرنے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔جواب کے لیے اجلاس میں وزیر اعلیٰ موجود تھے نہ وزیر داخلہ۔ یہاں تک کہ لواحقین اور سیاسی جماعتوں نے لاش کے ہمراہ کوئٹہ ہرنائی شاہراہ بند کرکے دھرنا دے دیا، مگر صوبے کی حکومت یہاں بھی فوری بیداری نہ دکھا سکی اور فضا موافق اور ہموار بنانے میں ناکام رہی۔ یوں مسئلہ بلوچستان اسمبلی کے 15 اگست کے اجلاس میں اٹھا۔ مستونگ میں 8 اگست کو کرسچین کالونی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے چار بچے اور ایک شخص زخمی ہوا۔ زخمی شخص ولسن مسیح اگلے دن کوئٹہ میں دورانِ علاج چل بسا۔ ولسن مسیح سابق رکن بلوچستان اسمبلی ہینڈری مسیح کا بھائی تھا۔ داعش گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ دوسرے مسلح گروہ فورسز پر متعدد حملے کرچکے ہیں۔ گویا اس صورتِ حال میں صوبے کی حکومت غیر مؤثر دکھائی دے رہی ہے۔