دوسرا اور آخری حصہ
سب سے کم شرحِ خواندگی ضلع ملیر میں ہے جو 63.69 فیصد ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ضلع میں شادیوں کی سب سے زیادہ شرح 63.61 فیصد بھی ہے، اور طلاق کی سب سے کم شرح 0.31 فیصد بھی ہے۔
تعلیمی کامیابی
تعلیم کا معیار اور حصول پرائمری، ایس ایس سی (میٹرک)، گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کی تعداد سے ناپا جاتا ہے۔ ان تمام سطحوں میں تعلیم پانے والوں کی تعداد کی کمی بیشی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پڑھے لکھے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے۔ تعلیم پانے والوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ مردوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
کراچی میں 1981ء اور 2017ء کے دوران ہر درجے میں تعلیم پانے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ ویسے اس عرصے میں لاہور میں تعلیم پانے والوں کی تعداد تھوڑی سی زیادہ رہی ہے، جبکہ اِس سے پہلے کی مردم شماریوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس کا سبب بھی جان لینا چاہیے۔ دہلی کے معاملے میں خواتین کے اعداد و شمار تھوڑے سے زیادہ ہیں۔ کراچی میں تعلیم یافتہ خواتین 12.01 فیصد، لاہور میں 14.63 فیصد، جبکہ دہلی میں 21.46 فیصد ہیں۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بھارت والے آخر کیا کرتے ہیں۔
کراچی میں سماجی بہبود کے حوالے سے خواندگی، تعلیمی کامیابی اور ازدواجی زندگی سے متعلق بہترین اشاریے ضلع وسطی میں ہیں جہاں روزگار کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ اور سب سے کم اعداد و شمار ضلع ملیر کے ہیں۔ تین مردم شماریوں کے اعداد و شمار کی روشنی میں کراچی کے اضلاع کا موازنہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں پہلے ہی ترقی زیادہ پائی جاتی ہے وہیں زیادہ ترقی ممکن بنائی جاسکی ہے۔ ویسے چند کم ترقی یافتہ علاقوں کے حوالے سے بھی اعداد و شمار متاثر کن ہیں۔ 2017ء میں کراچی میں پرائمری کی سطح پر تعلیم پانے والوں کی تعداد 65.96 فیصد تھی، جبکہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 57.93 فیصد تھی۔ لاہور میں یہ تعداد 68.88 فیصد اور 76.35 فیصد تھی۔ تعلیم کے حوالے سے کراچی میں ضلع وسطی نمایاں رہا۔ اعداد و شمار کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ لاہور اور دہلی کے مقابلے میں کراچی میں تعلیم اور سماجی بہبود کے حوالے سے بہتر امکانات کا نہیں سوچا جاسکتا۔ کراچی کے لیے پالیسی میکرز کو اس کی وجوہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
رہائشی سہولتیں
رہائشی سہولتوں کے حوالے سے کراچی کے اعداد و شمار خاصے پریشان کن ہیں۔ کراچی میں 27 لاکھ 30 ہزار گھرانے ہیں، جبکہ اتنے ہی رہائشی یونٹ بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رہائشی سہولتوں کے حوالے سے گیپ نہیں۔ ہم آدھے پختہ اور کچے مکانات کو بھی مکانات میں شمار کریں تو رہائشی سہولتوں کی کمی نہیں۔ کچے اور نصف پختہ مکانات بھی کُل رہائشی یونٹس کا 5 فیصد ہیں، جبکہ کراچی میں مکانات کی سالانہ طلب ایک لاکھ بیس ہزار تک ہے۔
دو مردم شماریوں کے درمیانی عرصے میں کراچی کی آبادی میں 61 لاکھ 68 ہزار نفوس کا اضافہ ہوا، یعنی فی گھرانہ 6 افراد بڑھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 54 ہزار رہائشی یونٹس کی ضرورت پڑی جو عمومی سالانہ طلب سے نصف ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار میں کچی آبادیوں اور منصوبہ بند علاقوں کے مکانات کی تعداد میں کچھ خاص فرق نہیں۔ کچی آبادیوں کو ذہن میں رکھے بغیر کراچی میں رہائش کے مسئلے کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ ہاں، 1981ء اور 2017ء کے دوران کراچی میں رہائشی یونٹس کے کرائے 8.27 فیصد بڑھے ہیں۔ آج کراچی میں تقریباً 15 فیصد مکانات خواتین کی ملکیت میں ہیں۔ اس حوالے سے ضلع وسطی 21.12 فیصد کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ سندھ بھر میں یہ تناسب 7.65 فیصد اور پورے پاکستان میں 6.99 فیصد ہے۔ کراچی میں 34.67 فیصد رہائش کرائے کی ہے۔ پورے سندھ میں یہ تناسب 14.05 فیصد جبکہ پورے ملک میں 11.35 فیصد ہے۔ کراچی میں آبادی کے حوالے سے دباؤ کا اندازہ ہر رہائشی یونٹ اور کمرے میں آباد لوگوں کی تعداد کے حوالے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 1998ء اور 2017ء کے درمیان ہر رہائشی یونٹ اور ہر کمرے میں آباد افراد کی تعداد میں معمولی سی کمی واقع ہوئی۔ ایک کمرے والے مکانات کی تعداد میں خاصی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کراچی میں ایک کمرے والے رہائشی یونٹ 30.09 فیصد سے گھٹ کر 25.74 فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار تھوڑے سے ’’گمراہ کن‘‘ ہوسکتے ہیں۔ بلند آمدن والے علاقوں کے معاملات کچھ بہتر ہوئے ہیں تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کچی آبادیوں میں رہائش کے حوالے سے صورتِ حال بہت پریشان کن ہوچکی ہے۔
بنیادی سہولتیں
1981ء اور 1998ء کے دوران کراچی میں مشترکہ باتھ رومز اور مشترکہ باورچی خانوں کی تعداد گھٹی ہے۔ باتھ رومز کے معاملے میں تناسب 19.13 فیصد ہے جبکہ باورچی خانوں کی تعداد کے حوالے سے تناسب 12.92 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی میں آبادی کا بڑا حصہ اپنے گھروں میں ان سہولتوں سے ہم کنار ہے۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی کا معاملہ بگڑا ہوا ہے۔ 1981ء اور 2017ء کے درمیان یہ تناسب 94.91 فیصد سے کم ہوکر 83.37 فیصد تک آگیا۔ لاہور میں یہ رجحان اس کے برعکس رہا ہے۔ وہاں 54.97 فیصد اضافے کے ساتھ پینے کے صاف پانی تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد 88.99 فیصد رہی ہے۔
بنیادی سہولتوں کے کنکشنز کے حوالے سے کراچی اور لاہور ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ فرق صرف پانی کے حصول کا رہا ہے۔ ویسے ہم یہ جانتے ہیں کہ کنکشنز ہوں یا نہ ہوں، لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور بجلی آسانی سے میسر نہیں۔ گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ یہ آسانی سے میسر نہیں۔ کراچی اور لاہور کے بعض علاقوں میں شدید گرمی کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مجموعی یومیہ دورانیہ 14 گھنٹے تک رہتا ہے۔
روزگار کی سہولتیں
کراچی اور لاہور کے روزگار سے متعلق اعداد و شمار کا موازنہ دلچسپ ہے۔ 1981ء میں لاہور میں برسرِ روزگار افراد کی شرح زیادہ یعنی 35.23 فیصد تھی، جبکہ کراچی میں برسرِ روزگار خواتین کی تعداد 3.71 فیصد زیادہ تھی۔ 1998ء میں یہ معاملہ تبدیل ہوگیا۔ اب کراچی میں روزگار کے حوالے سے تمام ہی درجہ بندیوں میں اعداد و شمار بلند ہوگئے۔
2017ء میں لاہور میں روزگار کی شرح 34.45 تک فیصد بڑھی، جبکہ کراچی میں یہ شرح 33.18 فیصد پر منجمد رہی۔ اس حوالے سے زیادہ مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ روزگار کے تناسب میں کمی یا اضافے کے اثرات کا اندازہ لگاکر معاشرتی بہبود کے حوالے سے صورتِ حال کا بھی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ 1981ء سے 1998ء کے دوران کراچی اور لاہور میں روزگار کی شرح کم ہوئی اور 2017ء میں بڑھی۔ پھر بھی یہ 1981ء کی سطح تک تو نہ آسکی۔
لاہور سے موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی معاشی اور معاشرتی سطح پر اپنی ترقی برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں رہا۔ 1981ء میں خواتین کے حوالے سے جو بھی اعداد و شمار تھے وہ 1998ء میں گھٹے، جبکہ 2017ء میں بلند ہوکر 1981ء کی سطح تک پہنچے۔ خیال رہے کہ یہ اعداد و شمار رسمی طور پر روزگار یافتہ آبادی کے ہیں اور اس میں وہ گھریلو کام بھی شامل ہے جس کا معاوضہ نہیں ملا کرتا۔ اس حوالے سے خواتین کا معاملہ زیادہ پریشان کن ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار خواتین کے روزگار کے حوالے سے درست تصویر پیش نہیں کرتے، کیونکہ کراچی اور لاہور میں صرف 7 فیصد خواتین برسرِ روزگار معلوم ہوتی ہیں۔
1981ء سے 1998ء کے دوران کراچی میں معاشرتی معاملات کچھ بہتر ہوئے۔ 1998ء سے 2017ء کے دوران پھر گراوٹ آگئی۔ 1981ء سے 1998ء کے دوران لاہور میں سماجی بہبود کے حوالے سے اعداد و شمار کراچی کے مقابلے میں بہتر نہ تھے، جبکہ 1998ء سے 2017ء کے دوران بہتری آئی۔ شرحِ خواندگی میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ باضابطہ تعلیم پانے والوں کی تعداد بھی لاہور میں کراچی کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہے۔
کراچی اور لاہور کے درمیان رہائشی سہولتوں، پانی کی فراہمی اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بھی فرق نمایاں ہے۔ ویسے کراچی اور لاہور میں سماجی بہبود کے حوالے سے معاملات دہلی کے مقابلے میں بہت کمتر ہیں۔ وہاں خواندگی کی شرح بھی بلند ہے اور باضابطہ تعلیم پانے والے بھی زیادہ ہیں۔ وہاں طلاق کی شرح کم اور شادی شدہ خواتین کا تناسب زیادہ ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1998ء کے بعد سے چند معاشرتی اشاریے بہتر بھی ہوئے ہیں، مثلاً کراچی میں شادیوں کی شرح میں کمی برقرار نہ رہ سکی۔ تعلیم سے متعلق اعداد و شمار بہتر ہوئے۔
مردم شماری میں درجہ بندیوں کی توضیح نہیں کی گئی ہے جس کے باعث درست تجزیہ کرنا دشوار ہے۔ مثلاً ہمیں معلوم نہیں کہ ’’ہاؤسنگ یونٹس‘‘ اور ’’ہاؤس ہولڈز‘‘ سے واقعی کیا مراد ہے۔ عام طور پر ہاؤس ہولڈ (گھرانے) سے مراد ہے کسی بھی گھر میں مشترکہ طور پر رہنے والے افراد۔ 2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 97.7 فیصد گھرانے اپنے باورچی خانے کے حامل تھے۔ یوں دیکھیے تو گھرانے اُتنے ہی بنتے ہیں جتنے ہاؤسنگ یونٹ ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی میں رہائشی سہولتوں کا کوئی بحران نہیں جبکہ درحقیقت بحران ہے۔
مردم شماری یہ بھی نہیں بتاتی کہ گھرداری اور غیر ادا شدہ گھریلو محنت میں کیا فرق ہے۔ گزشتہ مردم شماریوں میں ’’روزگار‘‘ اور ’’معاشی طور پر متحرک‘‘ آبادی کے حوالے سے واضح درجہ بندی رکھی گئی تھی۔
خواتین کے روزگار سے متعلق اعداد و شمار بھی درست نہیں، کیونکہ خواتین کی خاصی بڑی تعداد کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ بیشتر کیسز میں انہیں خام مال فراہم کردیا جاتا ہے اور وہ صرف مال کی تیاری تک کا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ کام ’’بچولیے‘‘ کرتے ہیں۔ ایسی خواتین معاشی طور پر متحرک ہونے کے باوجود اپنے آپ کو خواتینِ خانہ میں شمار کرتی ہیں اور برسرِ روزگار خواتین کی حیثیت سے شمار نہیں ہوتیں۔
غیر رسمی طور پر قائم آبادیوں میں سکونت پذیر افراد کی موزوں درجہ بندی کی جانی چاہیے۔ مردم شماری کے مطابق 95 فیصد گھرانوں کو گیس، بجلی اور پانی کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے جبکہ یہ زمینی حقیقت نہیں ہے۔
بنیادی سہولتوں کے حوالے سے مردم شماری میں جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں وہ زیادہ حقیقی معلوم نہیں ہوتے، کیونکہ وہ 90 فیصد یا اِس سے بھی زیادہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کراچی کے بیشتر علاقوں اور بالخصوص کچی آبادیوں کے حوالے سے کوئی اور کہانی سُناتے یا بیان کرتے ہیں۔ پانی اور بجلی کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ اب بہت سے علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع کردی گئی ہے۔ پینے کے صاف پانی کا معاملہ جیسا بھی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ کراچی کے متعدد علاقوں میں پینے کا صاف پانی باقاعدگی سے تو کیا، بے قاعدگی سے بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو پینے کا صاف یعنی فلٹرڈ پانی ہی نہیں بلکہ گھر میں استعمال کا سارا ہی پانی خریدنا پڑتا ہے۔ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے مردم شماری کے اعداد و شمار اگر درست تصویر پیش کریں تو ہم اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاکر تدارک کے حوالے سے کچھ کرسکتے ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں پہلی بار ’’ٹرانس جینڈرز‘‘ کو بھی ایک درجہ بندی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس درجے میں نامزد ہونے والے افراد کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ان کے لیے قبولیت زیادہ نہیں اور لوگوں کو مسائل کا کچھ علم ہی نہیں، اس لیے اُن کا ذکر بھی ضمنی طور پر ہوتا ہے اور مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔
(عارف حسن ماہرِ تعمیرات اور شہری منصوبہ ساز ہیں۔ ان سے arifhasan37@gmail.com یا www.arifhasan.org پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ایمل ہاشم سماجی ترقی اور پالیسی کی گریجویٹ ہیں جن کی بنیادی دلچسپی کراچی کی ثقافتی میراث سے متعلق تحقیق میں ہے۔ ان سے amal97.hashim@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ضُحیٰ علوی سماجی ترقی اور پالیسی کی طالبہ ہیں اور سیاست میں صنف و طبقہ کی سطح پر پائے جانے والے تفاعل سے متعلق تحقیق سے شغف ہے۔ ان سے zohaalvi.21@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔