جب تک کوئی تیسرا فریق حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُل کا کردار ادا نہیں کرے گا، معاملات نہیں سدھر سکیں گے۔
طاقت کے مراکز میں جاری محاذ آرائی، بداعتمادی کے ماحول اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کے عمل نے ملکی سیاست کو شدید بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ محض سیاسی بحران نہیں ہے، بلکہ اس بحران کی حیثیت ایک بڑے تناظر میں ریاستی بحران سے بھی جڑی نظر آتی ہے، کیونکہ سیاسی فریقین اور ریاستی اداروں یا اسٹیبلشمنٹ میں تنائو یا ٹکرائو کی جو کیفیت ہے وہ خود ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس لیے جہاں سیاسی سطح پر موجود فریقین حالیہ بحران کے ذمہ دار ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ یا طاقت کے مراکز بھی اس بحران سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتے۔ یہ اصولی اتفاق تمام سیاسی یا غیر سیاسی فریقین میں موجود ہے کہ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت کا احساس ہے۔ اسی طرح یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ فریقین مل بیٹھیں اورکوئی ایسی مشترکہ حکمت ِعملی ترتیب دیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔
حالیہ دنوں میں بحران کے حل کے تناظر میں پہلا بیان صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے آیا ہے۔ جو حالات کی سنگینی ظاہر کرتی ہے کہ یہ بحران کسی ایک فریق سے نہیں ٹلے گا بلکہ اس کے لیے ہمیں قومی سطح پر اتفاقِ رائے پر مبنی سیاست درکار ہے۔ اگرچہ ان کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے مگر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری سیاسی تنائو اور ٹکرائو کو کم کرکے حالات کی درستی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی کے بقول اگر دونوں سیاسی فریق اتفاق کرلیں تو وہ ان معاملات میں پہل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ جو پچھلے دنوں ہم نے سیاسی محاذ پر ایک لفظ ’’نرم مداخلت‘‘ کا سنا تھا تو ہمارے ذہن میں فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ کا پہلو آیا تھا، مگر شاید وہ براہِ راست اس میں پہل کرنے سے ہچکچا رہے ہوں۔ اس لیے ڈاکٹر عارف علوی کی پیش کش کو اسی نرم مداخلت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے،کیونکہ ایک بات بہت حد تک طے ہے کہ جب تک کوئی تیسرا فریق حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُل کا کردار ادا نہیں کرے گا، معاملات نہیں سدھر سکیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجویز ایک عملی شکل اختیار کر سکے گی؟ اور کیا دونوں سیاسی فریق صد رکی اس پیش کش کا فائدہ اٹھا کر سیاسی معاملات کے حل میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہوسکیں گے؟ کیونکہ یہ کام آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں۔اگرچہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق براہِ راست پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ان کو عمران خان کا بہت قریبی ساتھی بھی سمجھا جاتا ہے۔
آج کا حکمران اتحاد ان پر اپنے تحفظات ہی نہیں رکھتا بلکہ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی لانا چاہتا ہے، ان کی حیثیت اگرچہ سیاسی نوعیت کی ہے مگر وہ صدرِ مملکت بھی ہیں، اور اگر وہ پہل کریں تو موجود ہ مسائل کے حل میں ایک قدم آگے بڑھا جاسکتا ہے۔کیونکہ کسی کو تو پہل کرنی ہے، اوراگر یہ پہل صدرِ مملکت کی جانب سے ہوتی ہے تو اس کا ہر سطح پر خیر مقدم ہونا چاہیے۔لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا صدرِ مملکت کو اس میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل ہوگی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینا بات آگے بڑھ سکتی ہے۔کیونکہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سیاسی بداعتمادی کے اس ماحول میں محض اپنی خواہش سے کچھ نہیں کرسکیں گے۔کیونکہ اس وقت جو قومی بحران ہے اس میں سیاسی فریقین کے درمیان اعتماد کا ماحول پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کشیدگی یا سیاسی دشمنی کا خاتمہ اہم پہلو ہے۔
سازگار ماحول کو یقینی بنانے اور ایک دوسرے پر اعتماد کی بحالی یا سیاسی تلخیوں کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی قیادت کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا کہ ان کی جماعتوں کا کوئی فرد ایک دوسرے کے خلاف ذاتیات پر مبنی الزام تراشی یا کردارکُشی کی سیاست نہیں کرے گا،کیونکہ جو سیاسی ماحول یہاں ہم سیاسی میدان یا میڈیا کے محاذ پر دیکھ رہے ہیں اس کے خاتمے کے لیے سب فریقین کو اپنی اپنی زبان میں موجود منفی لہجوں کو ختم کرنا ہوگا، اوریہ عمل سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ یہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے ہی ان کی اپنی جماعت کے لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں جو سیاسی ماحول کی تلخی بڑھانےکا سبب بنتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر بات چیت کے معاملات کو مثبت انداز میں نئی جہت دی جاسکتی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود، مینڈیٹ، اور اپنے اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کے وجود کو تسلیم کریں گے تو بات چیت کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کو بھی اس پر غورکرنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں سیاسی طاقتوں کے درمیان بات چیت ہی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سیاسی فریق مل بیٹھیں اور ان کو واضح پیغام دیا جائے کہ مل بیٹھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ کی محض خواہش ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ وہ پسِ پردہ بیٹھ کر اس میں جس حد تک مددگار کا کردار ادا کرسکتی ہے وہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ لازماً خود تو ایک نیوٹرل کردار تک محدود رکھے اور یہ تاثر نہیں بننا چاہیے کہ وہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں کھڑی ہے۔
اسی طرح مفاہمت کا راستہ کسی بہت بڑے ایجنڈے کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں مختصر ایجنڈا جو سیاسی معاملات کو آگے بڑھا سکے، اُس تک ہی خود کو محدود رکھنا ہوگا۔ نئے اور شفاف انتخابات کی تاریخ کا تعین، انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی فعالیت، نگران حکومت کا قیام، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت انتخابی عمل میں جو بھی بدانتظامی یا عدم شفافیت سے جڑے مسائل ہیں ان کو بنیاد بناکر سیاسی فریقین آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اِس وقت اہم ایجنڈا اگلے انتخابات کی شفافیت کا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ خطرہ بدستور موجود رہے گا کہ ہارنے والے ان انتخابات کی حیثیت کو بھی متنازع بناکر ایک نیا سیاسی بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ ان تمام معاملات میں ساری جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ مل بیٹھیں اور کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں، تاکہ ملک میں موجود سیاسی تعطل کو ختم کیا جاسکے۔
اسی طرح اس پر بھی اتفاق ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کا کردار کیا ہونا چاہیے، اورکیسے ہم اداروں اور سیاسی فریقین کے درمیان ٹکرائو سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ نئے رولز آف گیم ہمیں درکار ہیں اور یہ اصول مل بیٹھنے سے ہی طے ہوسکتے ہیں۔ سیاسی مسائل سیاسی میدان میں ہی حل کرنے کی حکمت عملی کو زیادہ طاقت دینی چاہیے، اور بلاوجہ سیاسی معاملات میں عدالتی یا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت یا اپنی مرضی کے فیصلے کی خواہش کسی بھی سطح پر قومی مفاد کے زمرے میں نہیں آتی۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ اس وقت سیاسی فریقین میں ایک دوسرے پر برتری کے لیے جنگ جاری ہے۔کیونکہ انتخابات بھی کوئی بہت زیادہ دور نہیں، ایسے میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی جنگ انتخابی حکمت عملی کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے خواہش کا ہونا ایک بات ہے، جب کہ سیاسی حقائق دوسری سیاسی حقیقت ہے جسے ہم آسانی سے نظرانداز نہیں کرسکتے۔
لیکن اس وقت ریاست کا بڑا چیلنج داخلی سطح پر موجود سیاسی اور معاشی استحکام کی جنگ ہے۔ اس جنگ کو جیتنا محض ہماری یا سیاسی فریق کی ضرورت نہیں بلکہ خود ریاست کی بھی ضرورت بنتی ہے۔ کیونکہ ہم کسی بھی طور پر مزید محاذآرائی، تنائو، ٹکرائو اور الجھائو کی سیاست سے، آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس وقت ذاتی ایجنڈے کی سیاست، اَنا پرستی، سیاسی گھمنڈ سے باہر نکل کر قومی مفادات سے جڑے معاملات پر سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ یہ سنجیدگی تمام فریقین کی ہونی چاہیے اور سب کو واضح اور شفاف طور پر نظر بھی آنی چاہیے، تاکہ ہم مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا محفوظ راستہ تلاش کرسکیں۔