دنیا بھر میں 14.8 ملین آبادی رکھنے والے یہودیوں کی تاریخ پر بحث یا انکار کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے
سلمان رشدی پر امریکہ میں قاتلانہ حملے کے بعد سے پوری دنیا اور خاص طور پر برطانیہ و امریکہ میں اخبارات و میڈیا اس معاملے کو اچھال کر اسے آزادیِ اظہار رائے سے جوڑ رہے ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اس ضمن میں اس کو ایک طرف ایران کے قائدِ انقلاب و سابقہ سپریم لیڈر امام خمینی کے فتوے سے جوڑنے کی کوشش کی تو دوسری جانب 2007ء میں منعقدہ جمعیت طلبہ عربیہ کے مظاہرے کی ایک تصویر لگاکر اس کو جماعت اسلامی پاکستان کے کھاتے میں بھی ڈالنے کی یوں کوشش کی گئی کہ اس تصویر سے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ حالیہ کوئی مظاہرہ ہے، اور پندرہ سال پرانے مظاہرے کو اس واقعے سے جوڑ دیا گیا۔ سنڈے ٹیلی گراف نے بھی اپنے اداریے (شائع شدہ 14 اگست 2022ء) میں سلمان رشدی پر حملے کو آزادیِ اظہار رائے سے جوڑا اور رشدی پر حملہ آزادیِ اظہار رائے پر حملہ قرار دیا۔ یہ ہے مغربی میڈیا کی اصل حقیقت، جو کہ چند معاملات مثلاً مسلمان اور اسلام کے حوالے سے مکمل آشکار ہوجاتی ہے۔
سلمان رشدی کی پیدائش انڈیا کی ہے جس کے بعد اُس نے برطانوی معتبر جامعہ کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔ رشدی کی وجہِ شہرت 1988ء میں شائع شدہ کتاب The Satanic Verses ہے جس میں توہینِ رسالت کی گئی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا امام خمینی نے رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور اسے قتل کرنے والے کے لیے انعام کا بھی اعلان کیا، جس کے بعد سے رشدی ہائی سیکورٹی میں رہ رہا تھا اور 2016ء میں اس نے امریکی شہریت بھی حاصل کی۔ برطانیہ میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے 2007ء میں اسے ”سر“ کا خطاب دینے پر بھی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مساجد کے علاؤہ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے بھی رشدی کو سر کا خطاب دینے کی مذمت کی اور اسے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی سے تعبیر کیا۔ اس ساری صورتِ حال سے آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آزادیِ اظہار رائے کے حقیقی مفہوم اور اس کی مغربی تعبیر کے حوالے سے ہی گفتگو کی کوشش کریں گے، اور یہ دیکھیں گے کہ کیا واقعی مغرب میں مطلق اظہار کی آزادی ہے، یا اس پر بھی کوئی قدغن عائد کی گئی ہے۔ برطانوی قانون میں انسانی حقوق ایکٹ 1998 کا آرٹیکل 10 آزادیِ اظہار رائے سے متعلق ہے جوکہتا ہے:
1- Everyone has the right to freedom of expression. This right shall include freedom to hold opinions and to receive and impart information and ideas without interference by public authority and regardless of frontiers. This Article shall not prevent States from requiring the licensing of broadcasting, television or cinema enterprises.
2- The exercise of these freedoms, since it carries with it duties and responsibilities, may be subject to such formalities, conditions, restrictions or penalties as are prescribed by law and are necessary in a democratic society, in the interests of national security, territorial integrity or public safety, for the prevention of disorder or crime, for the protection of health or morals, for the protection of the reputation or rights of others, for preventing the disclosure of information received in confidence, or for maintaining the authority and impartiality of the judiciary.
”1- آزادیِ اظہارِ رائے کا بنیادی حق ہر فرد کو حاصل ہے۔اس حق میں یہ بھی شامل ہے کہ فرد اپنی ذاتی رائے رکھنے کا نہ صرف اختیار رکھتا ہے بلکہ اپنی رائے اور خیالات کو بغیر کسی سرکاری مداخلت اور سرحدی پابندی کے بیان کرسکتا ہے۔ یہ قانون ریاست کو اجازت دیتا ہے کہ وہ نشرواشاعت ،ٹی وی اور سینما کے لائسنس کا اجراء کرسکے۔
2-ان آزادیوں کے استعمال میں بہت سے فرائض اور ذمے داریاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں قومی مفاد کی خاطر، علاقائی سالمیت ، عوامی تحفظ اور جرائم کی روک تھام کے لیےکچھ پابندیاں اور سزائیں بھی ان آزادیوں کے ضمن میں لاگو ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ قومی سلامتی، علاقائی و عوامی تحفظ، خلفشار اور جرائم کا تدارک، شخصی آزادی اور ذاتی شہرت کا تحفظ، اُن معلومات کی حفاظت جو کہ عدلیہ کی غیرجانب داری اور اختیارات کو قائم رکھ سکیں۔“
یعنی آزادیِ اظہار رائے کوئی مطلق شے نہیں بلکہ اس پر بھی کئی قدغنیں عائد کی گئی ہیں جس میں سب سے اہم بات دوسروں کے حقوق اور اعتبار کا خیال رکھنا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسی بات جو کہ مفادِ عامہ کے خلاف ہو اس کی بھی اجازت نہیں۔ اسی طرح برطانیہ کا فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2000 ہے جو کہ اطلاعات کی رسائی کو عوام تک یقینی بناتا ہے، یعنی کوئی بھی فرد خواہ کوئی شہریت رکھتا ہو، کسی بھی عوامی نمائندے یا ادارے کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن 2010ء میں اس میں ترمیم کرکے ملکہ اور شاہی خاندان کو اس سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ اب کوئی بھی فرد ملکہ یا شاہی خاندان کے بارے میں کوئی معلومات اس قانون کے تحت حاصل نہیں کرسکتا۔ مغرب کا آزادیِ اظہار رائے کا پورا بیانیہ ہی معلومات و اطلاعات تک بلا روک ٹوک رسائی پر کھڑا ہے۔ اب جب ان معلومات پر ہی قدغن لگادی جائے تو اس کی بنیاد منہدم ہوجاتی ہے۔
یہ تو کسی فرد یا خاندان کا معاملہ تھا، لیکن اہم اس وجہ سے ہے کہ یہ سب کچھ جدید جمہوریت کی جنم بھومی برطانیہ میں رائج ہے۔ اب اس سے مزید آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ افراد کے علاؤہ اقوام یا مذاہب کے حوالے سے آزادیِ اظہار رائے کا یہ قانون کہاں تک کام کرتا اور مؤثر رہتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہولوکاسٹ یا یہودیوں کی ہٹلر کے ہاتھوں نسل کُشی کا انکار ایک جرم تصور کیا جاتا ہے، اور دنیا بھر کے کئی ممالک میں باقاعدہ طور پر ہولوکاسٹ کا انکار یا اس پر کسی علمی بحث کی بھی قطعی اجازت نہیں۔ اب ذرا ہولوکاسٹ کے حوالے سے ممالک کے قوانین کا ایک جائزہ:
آسٹریلیا میں کوئی باقاعدہ قانون ہولوکاسٹ پر بحث یا انکار سے متعلق تو نہیں، لیکن ان جرائم پر ”نفرت آمیز گفتگو“ اور ”نسلی منافرت“ کے قانون کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔
یورپ کے ملک آسڑیا میں National Socialism Prohibition Law 1947 میں ایک ترمیم 1992ء میں لائی گئی جس کے تحت اب ہولوکاسٹ کا انکار یا اس پر بحث جرم قرار دے دی گئی ہے۔
بیلجیم میں 1995ء میں باقاعدہ قانون سازی کرکے ہولوکاسٹ کے انکار کو جرم بنادیا گیا۔
بوسنیا ہرزیگووینا میں بھی ہولوکاسٹ کا انکار جرم ہے۔
جمہوریہ چیک میں ہولوکاسٹ اور جرمنی نازی جرائم کا انکار جرم ہے جس کے تحت 6 ماہ سے 3 سال تک قید کی سزا متعین ہے۔
فرانس جیسا ملک جوکہ یورپ میں انقلاب کا باعث بنا اور جدید فرانس کی بنیاد ہی شخصی آزادی اور اظہارِ رائے کے فلسفے پر رکھی گئی ہے وہاں بھی ہولوکاسٹ کو انسانیت سے متعلق جرائم سے جوڑ کر اس پر اختلاف کو بھی جرم بنادیا گیا ہے۔
جرمنی میں بھی اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرکے نازی نشانات کے علاؤہ ہولوکاسٹ کا انکار بھی جرم ہے۔ جرمن سپریم کورٹ کو اس حوالے سے ازخود نوٹس لینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
روس نے بھی صدر پیوٹن کی سربراہی میں مئی 2014ء میں قانون سازی کرکے نازی جرمنی کے جرائم اور ہولوکاسٹ کا انکار جرم بنادیا۔
یورپی یونین نے جولائی 1996ء میں قانون سازی کے ذریعے ہولوکاسٹ کے انکار یا تنقید کو بھی جرم قرار دے دیا۔
اس کے علاؤہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں گوکہ کوئی باضابطہ قانون نہیں لیکن اس کے باوجود نفرت آمیز گفتگو، اور نسلی منافرت کے جرائم کے قانون کے تحت ہولوکاسٹ کے انکار یا اس پر بحث کی اجازت نہیں ہے۔
اس پوری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے آزادیِ اظہارِ رائے کی اصل حقیقت سامنے آجاتی ہے، یعنی دنیا بھر میں 14.8 ملین آبادی رکھنے والے یہودیوں کی تاریخ پر بحث یا انکار کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ہولوکاسٹ محض یہودیوں کی تاریخ ہے، اُن کے مذہبی عقائد و بنیادوں سے اس کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔ اور دوسری جانب دنیا میں تقریباً 2 ارب آبادی کے حامل مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر اگر کوئی تنقید یا ان کی مقدس شخصیات کی تضحیک کرے تو اس کو آزادیِ اظہارِ رائے کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی مذہبی شخصیت یا ادارے پر قطعی طور پر تنقید کی اجازت مغرب کا نام نہاد آزادیِ اظہارِ رائے کا فلسفہ دیتا ہے تو دوسری جانب چند شخصیات یا واقعات پر تنقید تو کجا، ان پر علمی بحث کی بھی گنجائش دینے کو کیوں تیار نہیں؟
اس پر باقاعدہ طور پر قانون سازی کرکے ایسے تمام عزائم کو بھی جرم بنادیا گیا ہے، لیکن اگر مسلمان یا اسلامی ممالک اس پر کوئی قانون سازی کرتے ہیں جو کہ ان کے مذہبی عقائد کی اصل کے مطابق ہو تو اس پر تنقید کے لیے مغرب کا زاویہ نگاہ مکمل طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسلام تو وہ قانون دیتا ہے جس کے تحت وقت کے حاکم خلیفہ، اس کی ذاتی اور عوامی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ حاکمِ وقت سے کوئی بھی فرد برسرِ منبر اس کے کپڑوں کے بارے میں بھی سوال کرسکتا ہے اور خلیفہ وقت کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں کہ وہ اس کا جواب نہ دے۔ اسلام کے بارے میں، اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے بارے میں یہ رائے اختیار کرنا کہ وہ شدت پسند ہیں دراصل اس بات سے ناواقفیت ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حیثیت ہے۔ مسلمان تو نام ہی اس کا ہے کہ اُس کے لیے اُس کی جان، مال، والدین، بیوی بچوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزیز ہوجائیں۔ اگر مغرب شخصی نفرت کو بھی نفرت آمیز گفتگو سے تعبیر کرکے سزا دیتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.. جو کہ دو ارب مسلمانوں کے لیے ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں.. کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو، بہتان اور الزام تراشیوں کی کیا حیثیت ہوگی؟ اور اس سے ان کے جذبات کس قدر برانگیختہ ہوں گے؟ مغرب اگر قطعی آزادیِ اظہارِ رائے کی اجازت دے کہ جہاں کسی فرد یا مذہب کو کوئی استثنیٰ حاصل نہ ہو تو شاید اس بات کی کوئی منطق سمجھ میں آسکے۔
مغرب اگر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے ایمان کے مدار یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بناکر وہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے اور کوئی ردعمل یا ارتعاش پیدا نہ ہو، تو یہ ناممکن ہے۔ اگر امریکہ جیسی ریاست جس کی بنیاد ہی آزادی پر رکھی گئی ہے اور اس کے آئین میں درج پہلی ترمیم جوکہ آئین امریکہ کا مقدمہ ہے، آزادی پر دلالت کرتا ہو، وہ ریاست بھی اگر آزادیِ اظہار کی کوئی رائے متعین کرے تو ان سب کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حدود اللہ سے تجاوز، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے حوالے سے کوئی شرارت مسلمان کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ مسلمان کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین کو چودہ سو سالوں میں برداشت کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوا۔ یہ حدِّ فاصل ہے، اس کا خیال رکھنا مغرب کے لیے ضروری ہے، کیونکہ اس سے عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔