آزادی کے 75 برس

سیاسی آزادی کا دن مناتے ہوئے ہم بطور قوم معاشی غلامی سے نجات حاصل نہیں کرپائے

گزشتہ ہفتے پوری قوم نے76 واں یوم آزادی منایا۔ پارلیمنٹ ہائوس میں پرچم کشائی کی سب سے بڑی تقریب ہوئی۔ جب پوری قوم یہ دن منا رہی تھی اُس روز مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت سے آزادی کے خواہش مند گلی گلی پاکستان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اگلے روز انہوں نے بھارت کے یوم آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا۔ حقیقت یہی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کا ایجنڈا اُس وقت تک نامکمل رہے گا جب تک کشمیر کے عوام کو اُن کا حقِ خودارادیت نہیں مل جاتا جس کے ذریعے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ کشمیری عوام جو بھی فیصلہ کریں یہ ان کا حق اور اختیار ہے، تاہم اسلام سے تعلق کی روح سے کشمیر پاکستان ہے اور پاکستان کشمیر ہے۔ اب اہلِ پاکستان کو خود کو اہل ثابت کرنا ہے کہ حق رائے شماری کے وقت کشمیری کیا فیصلہ کریں؟
76 واں یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں سب سے زیادہ ’’خوشی‘‘ اس بات کی ہوئی کہ آئی ایم ایف کے گرین سگنل کے بعد سعودی عرب نے ہمارے لیے2,8 بلین ڈالر کی رقم قرض کے طور پر منظور کی۔ قطر اور متحدہ عرب امارات سے بھی معاشی پیکیج ملنے کا امکان ہے۔ سیاسی آزادی کا دن مناتے ہوئے ہم بطور قوم معاشی غلامی سے نجات حاصل نہیں کرپائے، اور ہمارا ہاتھ دینے والوں میں نہیں بلکہ لینے والوں میں شمار ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس میں ہونے والی بڑی اور مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے یہی بات دہرائی کہ دنیا کی کوئی بھی قوم اُس وقت تک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی معیشت کے معاملے میں خودکفیل نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک بار پھر میثاقِ معیشت پر قومی مکالمے کی ضرورت واضح کی۔ بلاشبہ آزادی کی حفاظت کے لیے معاشی خودمختاری ضروری ہے، 75 سال ہوگئے ہیں ہم عمل کی چوٹی سر کرنے کے بجائے غلامی کے گھاٹ پر قومی وقار قربان کرتے چلے آرہے ہیں۔ ملک کی ہر وہ سیاسی جماعت جسے وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا، پاکستان کو مشکلات کی گھاٹیوں سے باہر نکالنے کے بجائے دلدل میں پھنسانے کا سبب بنی ہے۔ پچھلی حکومت نے ملک کی تاریخ کا سب سے زیادہ 43ارب ڈالر قرض لیا۔ اقتصادی ابتری کا عالم یہ ہے کہ اس وقت ہم پچاس ہزار ارب ڈالر کے مقروض ہیں، اس میں سود شامل کرلیا جائے تو یہ رقم کھربوں ڈالر تک جاپہنچے گی۔ یہ قرض اتارتے اتارتے نہ جانے ہم کتنی نسلیں گزار چکے ہوں گے۔ پاکستان کے لیے پہلا غیر ملکی قرض پہلے عشرے میں ہی لے گیا تھا، ایوب خان نے قرضے کی معیشت متعارف کرائی تھی۔ اب اس قرضے کا سود دینا دشوار ہورہا ہے۔
پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں زرِمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے کم ہوگئے ہیں، اس کا نتیجہ بے پناہ مہنگائی کی شکل میں سامنے آیا۔ گزشتہ 3 مہینے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائی میں 6500ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان غیر یقینی سیاسی اور معاشی حالات سے دوچار ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ملک میں معاشی استحکام اور میثاقِ معیشت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں، تاکہ ملک کو سنگین معاشی بحران سے نکالا جاسکے۔ اب روپے کی قدر کی بحالی کا آغاز اس وقت ہوا جب اسٹیٹ بینک نے مداخلت کی۔ اس نے تمام بینکوں کو تنبیہ کی کہ سٹے بازی چھوڑ دیں ورنہ ان کے اجازت نامے منسوخ کردیے جائیں گے۔
ہمارے حکمران چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے مزید رابطے میں ہیں۔ اس طرح ہم کب تک معیشت کو چلا سکیں گے؟ یومِ آزادی پر وزیراعظم شہبازشریف نے قومی ڈائیلاگ اور میثاقِ معیشت کی تجویز دی جسے تحریک انصاف نے احمقانہ قرار دے کر مسترد کردیا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہر پارٹی موقع کی تلاش میں رہتی ہے مگر اس کے لیے 14 اگست کا انتخاب افسوس ناک ہے۔ سیاسی قائدین کی اَنا کے باعث سیاسی عدم استحکام آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست دان آپس میں دست وگریباں ہیں اور باہمی سیاسی تنازعات عدالتوں میں جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں آخر کب تک آئی ایم ایف اور دوست ممالک ہمیں معاونت فراہم کرتے رہیں گے؟ جب کہ روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ ہوتی جارہی ہے، حال ہی میں کچھ بہتری آئی ہے مگر یہ عارضی معلوم ہوتی ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان کو قرض کی فراہمی ابھی تک کسی طرف سے بھی شروع نہیں ہوئی تو یہ کمی کیوں واقع ہوئی کہ ڈالر 240 سے کم ہوکر 210 روپے کی سطح پر آگیا ہے ۔ ہر حکومت نے دعویٰ کیاکہ وہ پاکستان کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کرنے جارہی ہے، لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ والی صورتِ حال ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بعض ماہرینِ مالیات ملک کو عملاً دیوالیہ قرار دے چکے ہیں اور پوری قوم تقسیم در تقسیم کے گھن چکر میں پس رہی ہے ۔ معاشی بحران نے صورتِ حال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج مالی محتاجی ہماری قومی شناخت بن گئی ہے جس کا ہمارے اکابرین نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ان حالات میں قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ میثاقِ معیشت پر قومی اتفاقِ رائے کی دعوت کا تمام متعلقہ قوتیں اور ادارے فوری اور مثبت جواب دیں تاکہ معاشی خودمختاری کی منزل جلد از جلد حاصل کرکے قومی آزادی کے مستقل تحفظ اور ملک کی پائیدار ترقی و خوش حالی کو یقینی بنایا جاسکے۔
یوم آزادی کی مناسبت سے اسلام آباد میں غیر سرکاری سطح پر دو تقریبات ہوئیں۔ پہلی پاکستان میڈیا تھنک ٹینک اور دوسری پاکستان بزنس فوم اور اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کی تقریب ہوئی جس میں جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصر اللہ رندھاوا اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شکیل منیر شریک ہوئے۔ دونوں تقریبات میں میثاقِ معیشت کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک میں روپے کی قدر میں کمی بھی ایک پریشان کن مرحلہ تھا۔ روپے کی قدر کی بحالی کی اصل وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر قرض کی متوقع منظوری، غیر ملکی اداروں سے قرض ملنے کے روشن امکانات اور دوست ملکوں کی جانب سے معاونت ہے۔ اس کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمت میں کمی کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کا سستا ہونا بھی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔ روپے کی قدر میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ سٹے بازی ہے جس میں پاکستان کے بینک بڑی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی اور ہنگامی صورت حال تھی، ایسے میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا۔ اس صورتِ حال کے پیچھے بینکوں کی زیادہ منافع کمانے کی ہوس تھی۔
آزادی بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، مگر معاشی لحاظ سے خودمختاری اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ایسی کوئی خرابی نہیں جو یہاں نظر نہ آتی ہو۔ پاکستان کے قیام کے 75 سال پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ بحیثیت قوم ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وعدے اور اس وطن کے قیام کے خواب کے ساتھ وفا نہیں کی بلکہ ہم نے اس سے دھوکا کیا، اُس عہد و عزم کو چھوڑ دیا جو قیام پاکستان کی بنیادی و جہ تھا، ہم نے قراردادِ مقاصد بھی پاس کرلی، ملک کو اسلامی آئین بھی دے دیا لیکن پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا، اس لیے کہ ملک میںاسلامی معاشرے کی تشکیل کا جو عہد کیا گیا اور جو کچھ قراردادِ مقاصد میں لکھا گیا، جو آئین کہتا ہے، اُس پر کسی نے عمل نہ کیا۔ آئین کی ایک ایک اسلامی شق کو پڑھ لیں، شاید ہی کسی ایک شق پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا ہو، جب کہ ان شقوں کی خلاف ورزیاں عام ہیں اور ان میں حکومت، پارلیمنٹ سب شریکِ جرم ہیں۔ سودی نظام یہاں عام ہے، پاکستان کے سیکڑوں قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق سب کتابی باتیں ہیں، عملاً ہمارا حال بہت ہی بُرا ہے۔ ان 75 برسوں میں اس قوم کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت اور کردار سازی کا کوئی نظام ہی نہیں بنایا گیا۔ یوں ہم ایک ایسا ہجوم بن گئے جو قوم کہلائے جانے کے قابل نہیں۔ کسی قوم یا ملک کے لیے 75سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ اس عرصے میں قومیں یا ممالک اپنی سمت کا تعین ضرور کرلیتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک ایسا نہیں کرسکے۔ ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ملک میں کون سا نظام حکومت ہو، اس پر آج بھی تنازع موجود ہے۔ یہی تنازع یا مناقشہ پاکستان میں تمام مسائل اور بحرانوں کا بنیادی سبب ہے۔ اس جھگڑے نے ہی ملک میں مستقل بنیادوں پر سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا۔ آج بھی شاید 1962ء والے دستور کی بحالی یا اس جیسے کسی دستور کی نئی منظوری کے لیے سارے بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں حقیقی وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کا راستہ روکنے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا، اور آج بھی پاکستان کے چھوٹے صوبوں سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ اگر 1973ء کے دستور خصوصاً اس کی 18ویں ترمیم کو رول بیک کیا گیا تو نتائج بہتر نہیں ہوں گے۔ وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی قوتیں بھی اس لڑائی میں شعوری یا لاشعوری طور پر ٹریپ ہورہی ہیں۔ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت فطری ہے۔ اب 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے یا 1973ء کے دستور کے بجائے 1962ء جیسے دستور کے نفاذ کی کوششیں ترک کردینی چاہئیں۔ 75سال سے جاری اس کشمکش سے سبق سیکھ لینا چاہیے۔